تحریر: مسز جمشید خاکوانی
ہندوستان کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے 22 مئی 2015 ہندوستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ جب دہشت گرد پیسوں میں مل جاتے ہیں تو ہمیں اپنے جوان سامنے لانے کی کیا ضرورت ہے اپنے دشمنوں کے خلاف ہمیں انہی دہشت گردوں کو ہی استعمال کرنا چاہیے دہشت گردوں کو دہشت گردوں کے زریعے ہی قابو کیا جا سکتا ہے پاکستان کو ہم اس سے کہیں زیادہ نقصان سے دوچار کریں گے گویا پاکستان کو وارننگ دی گئی کہ پٹھان کوٹ ایئربیس ”ڈرامے ” کا بدلہ جلد چکایا جائے گا جبکہ جگہ اور وقت کا تعین ہم خود کریں گے پاریکر مسلسل پاکستان کو سبق سکھانے کا اعلان کرتے رہے لیکن ہمارے دفتر خارجہ کو سانپ سونگھ گیا اگر ایسی وارننگ پاکستان کی طرف سے دی جاتی تو انڈیا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر پوری دنیا کو سر پہ اٹھا لیتا لیکن یہاں تو اس بات کی خوشی منائی جا رہی ہے کہ مودی نے ہمارے لیے جزباتی بیان دے دیا۔
جنوری 2016 کے ابتدائی بیس دنوں کے اندر چھوٹے بڑے چار دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں مگر ہماری موجودہ قیادت ٹس سے مس نہیں ہوئی کوئٹہ حملے میں ایک درجن کے قریب سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتیں ہوئیں لیکن شائد ان جوانوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا نہ انکی موت پر کسی کی آنکھ نم ہوتی ہے گویا انکو کسی ماں نے نہیں جنا ہوتا نہ ان کے پیچھے رونے والے بیوی بچے ہوتے ہیں وہ بے چارے آسمان سے گرتے ہیں اور دھرتی پر قربان ہو جاتے ہیں کاش ایسے سانحے حکمرانوں کے دلوں پر گذریں تو شائد انہیں بھی احساس ہو ان کا تو ہر قدم اپنی بھلائی کے لیے ہوتا ہے سانحہ باچا خان یونیورسٹی والے دن بھی انہوں نے اس افراتفری میں تین کالے بل پاس کروا لیے جن میں سے ایک کالا دھن سفید کرنے کا بلِ، پی آئی اے کو کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل ، اور پولیس کو کلین چٹ دینے کا بل کہ وہ جس کو چاہے اپنی صوابدید پر رہا کر سکتی ہے۔
یہ بل ارکان اسمبلی کی دو سو فیصد مراعات بڑھا کر آسانی سے پاس کرائے گئے ہیں ضمیر کو سلانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ان کی بلا سے قوم کے بچے علم سے محروم رہ جائیں ان کے بچے باہر پڑھتے ہیں اور باہر ہی عیاشیاں کرتے ہیں سانحہ باچا خان کے بعد والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے کترانے لگے ہیں آخر لوگ کب تک اپنے جگر گوشے مروائیں ؟اس سانحہ میں شہید ہونے والے پروفیسر سید حامد حسین حال ہی میں برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیکر آئے تھے حالانکہ وہ برطانیہ میں تحقیق کے لیے ایک سال تک رکے رہے۔
لیکن وطن کی محبت انہیں واپس کھینچ لائی وہ باچا خان یونیورسٹی میں شعبہ کیمسٹری سے وابستہ تھے طلاب علم انہیں محافظ استاد کہا کرتے تھے کیونکہ وہ طالب علموں کی ہر مرحلے پر مدد و تعاون کرتے تھے ان کا تعلق خیبر پختونخواہ کے شہر صوابی سے تھا ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے ہی گورنمنٹ ہائی سکول سے حاصل کی اور بیچلر اور ایم فل پشاور یونیورسٹی سے کیا ایک طالب علم ظہور حسین کے مطابق جب فائرنگ شروع ہوئی تو حامد حسین نے انہیں خبردار کرتے ہوئے بلڈنگ سے باہر جانے سے منع کیا اور خود پستول لے کر طلبا کی حفاظت پر ڈٹ گئے جوابی فائرنگ اتنی شدید تھی کہ پروفیسر کا جسم کٹ کر گرا لیکن وہ آخر دم تک مقابلہ کرتے رہے۔
اس حملے میں باچا خان یونیورسٹی کا اسسٹنٹ لائبریرین افتخار بھی شہید ہو گیا افتخار کی بیس دن بعد شادی تھی اس کا بھائی یونیورسٹی کے باہر نوحہ کناں تھا وہ کہتا مجھے دہشت گرد دکھا دو میں خود ان سے بدلہ لونگا لوگوں کا اعتبار حکومت سے اٹھ چکا ہے اب وہ خود لڑ کر اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے تیار ہیں ۔یہی بات عمران خان نے کہی کہ اب لوگ خود بندوقیں اٹھانے کو تیار ہو چکے ہیں آج مولانا فضل الرحمن کے قافلے کو مشتعل طلبا نے مار بھگایا حکمرانوں کو اپنے انجام سے ڈرنا چاہیئے پروفیسر حامد حسین تو اپنے طلبا پہ قربان ہو کر امر ہو گیا اس کے دو معصوم بچے تین سالہ حاشر حسین جس کی اس نے چند روز پہلے ہی تیسری سالگرہ منائی تھی ایک گیارہ ماہ کی بچی اور بیوہ کے علاوہ دو بھائی اور ایک ضعیف ماں روتی چھوڑی ہے پروفیسر کے ایک بھائی سجاد حسین کی صوابی میں دکان ہے اور دوسرا بھائی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہے اشفاق حسین کے مطابق حامد حسین خاندان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور خاندان کا سرمایہ تھا یونیورسٹی کے طلبا حامد حسین کو استاد سے زیادہ دوست سمجھتے تھے وہ اسے محافظ پروفیسر بلاتے تھے۔
جنرل عاصم باجوہ کے مطابق دہشت گردوں سے متعلق معلومات حاصل کر لی گئی ہیں اور جلد ہی انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق چار دہشت گرد دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عقبی دیوار سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور حملہ کیا جس پر یونیورسٹی کے اندر موجود باسٹھ رکنی سٹاف اور پھر پولیس نے کوئک رسپانس دیا جبکہ فوج نے پندرہ منٹ کے اندر وہاں پہنچ کر چاروں دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی چھت اور سیڑھیوں پر مار دیا دہشت گرد ہینڈ گرنیڈ سمیت جدید اسلحے سے لیس تھے لیکن انہیں شروع ہی میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے بتایا کہ حملے میں پندرہ طلبا اور دو سٹاف ممبر شہیڈ ہوئے جبکہ گیارہ افراد زخمی ہوئے ۔دہشت گردوں کے پاس افغان سمیں موجود تہیں مرنے کے بعد بھی ان پر افغانستان سے کالیں آ رہی تھیں یہ کالیں ٹریس کر لی گئی ہیں بہت کم وقت میں بریک تھرو ہو چکا اب زیادہ شدت سے آپریشن کیا جائے گا۔
ایک خبر کے مطابق یہ زر خرید کفار کے ایجنٹ عمر منصور کے لوگ تھے جنھوں نے چارسدہ حملے کی زمہ داری قبول کی ہے ہندوستا اس گروہ کو ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے عمر منصور کا گروہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے طالبان ہیں جنھیں پاکستان میں جائے پناہ نہ ملی تو یہ افغانستان فرار ہو گئے اور وہاں سے کرائے کے ٹٹو بن کر پاکستان کے خلاف اپنی مذموم کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انڈیا اپنا بارڈر سیل کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتےَ یہ بھوکے ننگے لوگ میٹرو ٹرینوں اور میٹرو بسوں کو چاٹیں گے جب ان کے بچوں کو نہ روٹی میسر ہو گی نہ تعلیم نہ گیس نہ پانی نہ بجلی نہ سرحد پار کے دشمنوں سے حفاظت ؟تو اس حکومت کے عزائم کیا ہیں ؟اس نے پاک وطن کی حفاظت کے لیے کیا اقدام کیے ہیں ؟۔
تحریر: مسز جمشید خاکوانی