واشنگٹن: پہلی بار کسی امریکی جنرل نے کانگریس پینل کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے حقانی نیٹ ورک گروپ کے خلاف کیے جانے والے کچھ اقدامات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے لیے مددگار ثابت ہوئے۔امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف وٹیل نے امریکی سینیٹ کمیٹی کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کے حوالے سے بھارتی پالیسی بھی مشکلات کا باعث بن رہی ہے کیونکہ اس طرح جنوبی ایشیا میں جوہری تنازع پیدا ہوسکتا ہے۔پاک-افغان خطے میں امریکی فوج کی حکمت عملی پر عمل درآمد کے ذمہ دار جنرل جوزف وٹیل نے اپنی بریفنگ کے دوران پاکستان کو امریکا کا اہم پارٹنر قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام آباد کے ساتھ مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔ان کا مؤقف جہاں پینٹاگون کی پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو برقرار رکھنے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے، وہیں یہ بیان حال ہی میں امریکی قانون سازوں کے بیانات کے بھی بالکل برعکس ہے، جنھوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پر زور دیا تھا۔جنرل جوزف وٹیل نے سینیٹ پینل کو بتایا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اور ان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم سے انہیں حوصلہ ملا۔
یہ بھی پڑھیں: ‘پاکستان کے ساتھ اتحادی جیسا برتاؤ ختم کردیا جائے’
امریکی جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان نے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو ہمارے لیے مددگار ثابت ہوئے ہیں، حال ہی میں پاکستان نے جنرل جوزف نکولسن کے ساتھ سرحد پر روابط کو مربوط کرنے اور اپنی جانب سے ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھنے جیسے اقدامات میں ان کے ساتھ تعاون کیا۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل جوزف نکولسن پاکستان کے آرمی چیف اور ان کے دیگر کمانڈرز کے ساتھ پاک-افغان سرحد کے دونوں جانب چھپے دہشت گردوں کے خلاف مل کر کام کر رہے ہیں۔جنرل جوزف وٹیل کے مطابق یہ ایک بہت ہی مثبت اور صحیح فیصلہ ہے اور انہوں نے ہمارے اہم خدشات ’حقانی نیٹ اور طالبان‘ کے خلاف کچھ اقدامات بھی کیے ہیں، مگر اس حوالے سے مزید ثابت قدم رہنے، مخصوص علاقوں کی مسلسل نگرانی کرنے اور اپنے اتحادی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاک-بھارت تعلقات
اپنے تحریری بیان میں جنرل جوزف وٹیل نے پاک-بھارت تعلقات پر امریکی وزارت دفاع کی پوزیشن کو بھی واضح کیا۔
مزید پڑھیں: جنگ کے علاوہ 6 کام جو انڈیا اور پاکستان کر سکتے ہیں
ان کا تحریری بیان حال ہی میں امریکی قان سازوں کے چھپنے والے ان بیانات کے برعکس ہے، جن میں ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا گیا تھا کہ امریکا کو نئی دہلی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ اتحادی جیسے تعلقات ختم کردینے چاہئیں۔پاک-بھارت دیرینہ کشیدہ تعلقات میں حالیہ تنازعات کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈ نے پاکستان میں موجود بھارت مخالف عسکریت پسندوں کے خلاف عدم کارروائی پر بھارت کی پریشانی کا بھی تذکرہ کیا۔انہوں نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ بھارت نے گذشتہ برس اپنے زیر انتظام علاقوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے ردعمل میں فوجی کارروائیاں کیں، جس پر اسلام آباد نے نئی دہلی کے دعوے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی فوج پاکستانی سرحد کے اندر داخل نہیں ہوئی، مگر امریکی جنرل نے بھارتی دعوے کی توثیق کی۔امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق امریکا اس طرح کے حملوں، ان کے ممکنہ رد عمل اور دونوں ممالک کی جانب سے غلط اندازوں میں اضافے کا جائزہ لے رہا ہے۔ان کے مطابق پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنا بھارت کی پبلک پالیسی کا حصہ ہے اور وہ پاکستان کی جانب سے تعلقات کی بہتری کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔امریکی جنرل نے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سفارتی تنہائی کی کوششیں پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں اور دونوں ممالک میں روایتی تنازع ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے، جب کہ دونوں ہی ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’باہمی اختلافات امریکا اور پاکستان دونوں کے مفاد میں نہیں‘
جنرل جوزف ویٹل نے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ پاکستان طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی مداخلت کو روکنےاور افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد سے توجہ ہٹاکر اپنی توجہ مشرقی سرحد پر بڑھا رہا ہے۔ان کے مطابق مغربی سرحد سے سیکیورٹی ہٹانے کے باوجود اسلام آباد کے لیے اس کی اہمیت برقرار رہے گی اور پاکستانی فوج بارڈر کنٹرول اور پیراملٹری فورس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنائے گی۔ارکنساس کے ریپبلکن سینیٹر ٹوم کوٹن کے سوال کے جواب میں جنرل جوزف ویٹل نے وضاحت کی کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے سے افغانستان کے اندر سیکیورٹی میں بہتری آئے گی اور یہی وجہ ہے کہ امریکا مسلسل پاکستان پر ان محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرکے پاک-افغان سرحدی علاقے کی سیکیورٹی بہتر کرنے کے لیے سفارتی دباؤ برقرار رکھتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یقینی طور پر پاک-افغان سرحد پر تناؤ موجود ہے، مگر ان کے خیال میں وہاں سیکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کے اقدامات کرنے سے ہی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر بوں گے اور امریکا دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے میں مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔
پاک فوج کے ساتھ تعلقات
اپنے تحریری بیان اور میٹنگ کے دوران سوالات کے جواب دیتے وقت جنرل جوزف وٹیل نے پاکستان اور امریکا کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مضبوط تعلقات کی ضرورت پر زور دیا۔امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں چیلنجز رہے ہیں، تاہم امریکی فوج نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ بڑی سطح پر مشغولیت کو برقرار رکھا اور ہم مشترکہ مشقوں کے ذریعے اسے خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے تحریری جواب میں بتایا کہ گزشتہ موسم سرما میں امریکی ریاست نواڈا میں موجود نیلز ایئرفورس بیس میں ریڈ اور گرین فلیگ مشقوں میں شرکت کے لیے پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) نے اپنے اہلکار اور جہاز بھیجے تھے۔ان کے مطابق پاکستانی فوج خطے میں ہرجگہ امریکی فوج کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، جب کہ امریکی نیول فورسز کی سربراہی میں ہونے والی مشقوں میں امریکی بحریہ کے بعد پاکستان نیوی دوسری بڑی بحریہ کے طور پر شامل ہوئی، ان مشقوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف کمبائنڈ ٹاسک فورس (سی ٹی ایف) کے 150 آپریشنز اور کاؤنٹرپیریسی کے 151 آپریشن کیے گئے۔
مزید پڑھیں: پاک امریکا تعلقات چیلنجز سے بھرپور
جنرل جوزف ویٹل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات اہم ترین ہیں اور ہم پاکستانی فوج بشمول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے اور آنے والے دنوں میں مشترکہ مفادات کے حصول کے لے ایک ساتھ کام کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں۔انھوں نے اپنی بریفنگ کے دوران اس بات کی بھی وضاحت کی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم اتحادی کیوں اور کیسے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی 20 تنظیمیں پاک-افغان خطے میں کام کر رہی ہیں، جن میں سے7 پاکستان سے کام کر رہی ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ جب تک ان گروپوں کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہوں گے یہ افغانستان کے طویل المدتی استحکام کے لیے خطرہ ہیں، جب کہ امریکا کو سب سے زیادہ تحفظات حقانی نیٹ ورک گروپ سے متعلق ہیں، جو افغانستان میں اتحادی افواج کے لیے خطرہ ہے۔