تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید
آج 23 مارچ ہے آج کے دن لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے منعقد ہونے والے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں مسلمانوں نے اپنے لئے راہ عمل اور منزل کا انتخاب کیا اور پھر مسلمانوں کی بے مثال جدو جہد کے بعد صرف سات سال کے عرصہ میں پاکستان معر ضِ وجود میں آگیا۔اس عظیم الشان واقعہ کی یاد میں آج ملک بھر میں پروگرام ہوں گے،جلسوں اور سیمنارز کا انعقاد کیا جائے گا،اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کریں گے جن میں ماضی کے ان واقعات کو دھرایا جائے گا ،شہدا کا تذکرہ ہو گا ،احیائے نظریہ پاکستان اور 1940ء کے جذبوں کو زندہ کرنے کا عہد کیا جائے گا۔بلاشبہ اپنی تاریخ کو یاد رکھنا قابل تحسین عمل ہے اس لئے کہ تاریخ قوموں کے لئے ۔۔۔۔یاداشت اور قوت متحرکہ کی حیثیت رکھتی ہے۔جو قوم اپنی تاریخ بھول جائے وہ اپنی یاداشت کھو بیٹھتی اور پھر اپنے آپ کو بھی بھول جاتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ماضی کو کیا یاد کرنا ۔۔۔۔۔جوگزر گیا سو گزر گیا۔حالانکہ ماضی حال کا آئینہ دار ہوتا ہے اور حال سے مستقبل کا تعین ہوتاہے۔ماضی سے لاتعلق ہو جانے والی قوم کا نہ حال ہوتا ہے اور نہ مستقبل۔ایسی قوم راہگزر کا پتھر ہوتی ہے جسے ہر آنے جانے والاٹھوکریں مارتے ہوئے گزرتا ہے۔
لہذا پاکستان کے استحکا م، دوست دشمن کی پہچان کے لئے ضروری ہے کہ ماضی کو یاد کیا جائے اور 1940ء کے جذبوں کو زندہ رکھنے کا عہد کیا جائے ۔ماضی کا نہ بھولنے والا ایک سبق وہ دورہے جب مسلمانوں نے سرزمین ہند پر قدم رکھا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کایہ ورودِمسعود ہی بعد میں قیام ِپاکستان کا باعث بنا تھا۔سرزمین ہند پر اسلام کے اولین نقوش تعداد میں اگر چہ کم تھے لیکن ایمان کے بہت مضبوط تھے، حوصلے بلند تھے ،شوق شہادت سے سرشار تھے،جب سرزمین ہند میں کفر وشرک کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے تب انہوںنے گنگا اور جمنا کے پانیوں سے وضو کر کے بتکدہ ہند میں ۔۔۔اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا ،یہاں کے باشندوں کو توحید کی لذت سے آشنا کیااورایک ایسی ا سلامی نظریاتی ریاست قائم کی جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر تھی۔لاالہ الا اللہ بظاہر ایک کلمہ ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک مکمل ضابطہ حیات،زندگی کا نصب العین،دنیوی و اخروی کامیابی کا ضامن اور عزت ورفعت کا یقینی راستہ ہے۔اسی کلمہ کی بدولت ہمار ے اجداد نے سرزمین ہند پر فتوحات کے جھنڈے گاڑے تھے۔بعدہ جب مارچ1940ء کے موقع پر لاہور میں ہندوستان بھر کے مسلمان اکٹھے ہوئے تو در حقیقت انہوں نے ماضی کی اسی کلمہ طیبہ والی اسلامی نظریاتی ریاست کی بازیابی اور بحالی کا عہد کیا تھا۔سو ۔۔۔۔۔ہندوستان میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے والے یہ عظیم مجاہدین ، فاتحین، حکمران اورسالار ہمارے محسن تھے۔
احسان کی ادائیگی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے محسنین کو یاد رکھا جائے ، ان کے حالات وواقعات پڑھے جائیں،ان کی بہادری و غیرت ایمانی کے تذکرے کیے جائیں شائد کہ اللہ ہمیں بھی ان جیسا بنا دے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ماضی کا اسلامی ہندوستان اور آج کا پاکستان باہم لازم وملزوم ہیں۔دونوں ایک چمن کے گلدستے ہیں۔دونوں کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی ۔ مسلمانوں نے جب قیامِ پاکستان کا مطالبہ کیا تو اس مطالبہ کی بنیا د اس بات پر تھی کہ ہم ہندوستان میں اجنبی اور نووارد نہیں ،اس سرزمین کے ساتھ ہمارے رشتے بہت پرانے اور گہرے ہیں،ہم یہاں کے مالک و مختار رہے ہیں،اس چمن کو ہم نے اپنے خون سے سینچا ہے،تزئین گلستان میں ہماراخون بھی شامل ہے،جب ہم یہاں آئے تو جہالت وتاریکی تھی،غربت و پسماندگی تھی ،علم و حکمت کا فقدان تھا،ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔۔۔۔۔۔۔پس اس سرزمین کی گود ہم نے علم،عدل ،انصاف ،ہنر،صنعت،حرفت ،تجارت ،تہذیب ،شرافت ،تمدن سے اس طرح سے بھر دی کہ یہ اپنے وقت کا خوشحال ترین ملک بن گیا تھا۔
محمد بن قاسم الثقفی پہلا مسلمان جرنیل تھا جو 93 ہجری ا712ء میں ایک مسلمان بیٹی کی عزت بچانے کے لئے خطرات میں کودتا اور مشکلات کے سمندر عبور کرتا ہوا 15 ہزار کے لشکر کے ساتھ سندھ میں داخل ہوا تھا۔یہ تاریخ کا ایک ایسا عظیم الشان واقعہ ہے جسے دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے قائد اعظم محمدعلی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان اسی دن قائم ہوگیا تھا جب محمد بن قاسم نے سرزمین ہند میں قدم رکھا تھا۔ بات سیدھی سی ہے جب قیامِ پاکستان کی نسبت محمد بن قاسم کے ورود ِہندوستان کی طرف جوڑی جائے گی تو پھر لازم ہے کہ ہمارے حکمران اور ہماری قوم کے نوجوان محمد بن قاسم کی جرأت و بہادری ، اسلامی غیرت وحمیت، عمل و کردار اور کفار کے پنجہ و شکنجہ میں جکڑی مسلمان مائوں بہنوں کو رہاکروانے کا عملی نمونہ بھی پیش کریں۔راجہ داہر نے توصرف مسلمان خواتین کو قید میں ڈالا تھا اور محمد بن قاسم ان کی رہائی کے لئے آپہنچا تھاآج ہم خود کو محمد بن قاسم کا فکری وارث کہتے ہیں اپنے ملک کے قیام کی نسبت بھی فاتح سندھ کی طرف جوڑتے ہیں لیکن حیرت ہے ہمیں مقبوضہ جموں کشمیر اور بھارت میں مسلمان مائوں بہنوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیںاور ہم ان کی آزادی و رہائی کے لئے کچھ نہیں کرتے۔
محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے 300سال بعد محمود غزنوی دوسرا مسلمان فاتح تھا جو سرزمین ہند پر حملہ آور ہوا ۔اس حملے کا سبب لاہور کا ہندو راجہ جے پال خود بنا تھاجو لاہور سے نکل کر سلطنت غزنویہ پر حملہ آور ہوا مگر اسے محمود غزنوی کے باپ سبکتگین نے شکست دی تھی۔سبکتگین کی وفات کے بعد جب محمود تخت نشین ہوا توجے پال پھر سلطنت غزنیہ پر چڑھ دوڑا لیکن اب کی بار محمود نے جے پال کو ایسی ذلت آمیز شکست دی کہ وہ شرم کے مارے آگ میں زندہ جل کر مر گیا۔محمود غزنوی ایک بہادر جرنیل ہی نہیں عالم دین، فقیہ اور حافظ قرآن بھی تھا۔اس کی ہیبتِ ایمانی سے بت صنم خانوں میں سہمے ہوئے رہتے تھے۔
ہندوستان میں وارد ہونے والہ تیسرا مسلمان جرنیل شہاب الدین غوری تھا،اس کا تعلق بھی افغانستان سے تھا۔ شہاب الدین کا دور حکومت صرف 20سال ہے مگر نتائج و ثمرات کے اعتبار سے یہ 20 سال۔۔۔۔۔ صدیوںپر محیط ہیں ۔ اس لئے کہ شہاب الدین غوری ہی وہ بہادر جرنیل اور فاتح تھا جس نے ہندوستان میں ایک ایسی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی جس پر1857ء تک اسلام کا پرچم لہراتا رہا۔بعد ازاں اس ریاست کو غوری کے بہادر جرنیل قطب الدین ایبک نے توسیع دی۔ 1192ء میں شہاب الدین غوری کا مقابلہ اس وقت کے ہندوستان کے سب سے طاقتوراور مشہورمہاراجہ پرتھوی راج سے ہوا۔پرتھوی کی فوج تین لاکھ سے زائد جنگجوئوں اور ہزاروں جنگی ہاتھیوں پر مشتمل تھی۔ہریانہ اور تھانسیر کے وسیع وعریض علاقے میدانِ جنگ بنے ۔پرتھوی نے غوری کو پیغام بھیجا میری فوج کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کودیکھواپنی جوانی و غریب الوطنی پر رحم کھائو اور واپس چلے جائو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تعاقب نہیں کروں گا۔غوری نے کہا کون میدان میں ڈٹے گا اور کون بھاگے گا اس کا فیصلہ میری تلوار کرے گی۔جنگ شروع ہوئی فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں، مسلمانوں کو فتحِ عظیم اور پر تھوی کو شکست فاش ہوئی۔شہاب الدین اور اس کے جرنیل قطب الدین نے دہلی اور اجمیر فتح کرکے اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھ کے اس مقدس مشن کو مکمل کیا جو محمد بن قاسم نے شروع کیا تھا ۔ شہا ب الدین سچا مسلمان ، عالمِ دین، مردمجاہداور جذبہ جہاد سے سر شار تھا۔
اسلام کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کی جہادی فوج کے خطیب و امام مشہور مفسر قرآن، مصنف، فقیہ اور عالمِ باعمل امام فخرالدین رازی تھے جنکی لکھی ہوئی تفسیر رازی (تفسیرکبیر) کو آج بھی قبول عامہ کا درجہ حاصل ہے۔ واضح رہے کہ اس دور میں ملتان حسن بن صباح کے پیروکاروں کا گڑھ تھا۔اسلامی دنیا غوری کی ہمیشہ احسان مند رہے گی کہ اس نے ملتان سے اس فتنہ پرور گروہ کا بالکل خاتمہ کردیا ۔حسن بن صباح کے پیروکاروں کا معاملہ بھی عجیب وغریب تھا یہ خود کو مسلمان کہتے لیکن ضیوف الرحمن حجاج ، سلف صالحین کے مسلک پر کاربندمسلمان حکمران،علماء اور صلحاء کو ذبح کرتے جبکہ اسلام کے دشمن ہندو حکمرانوں سے دوستیاں کرتے۔گویا یہ اْس وقت کے داعش اور خوارج تھے۔یہاں اس بات کا تذکرہ بھی یقینا قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ جس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ایک مجوسی نے نماز فجر کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اسی طرح شہاب الدین غوری پر بھی نماز عشا کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیایہی حملہ غوری کی شہادت کا باعث بنا تھاجبکہ حملہ کرنے والے حسن بن صباح کے پیروکار تھے۔
یہ لوگ تھے ہندوستان میں اسلامی نظریاتی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے، نخلستانِ ِاسلام کی اپنے خون سے آبیاری کرنے والے،اسلام کا سکہ دنیا پر بٹھانے والے،بتکدہ ہند میں توحید کے نغمے اور زمزمے بلند کرنے والے۔تہجد گزار ،شب ِزندہ دار،راتوں کو مصلے پہ کھڑے ہو کے رب کو منانے والے، دن کے وقت رب کا پیغام زمین پر پھیلانے والے اور ایک ایسی ریاست قائم کرنے والے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر تھی۔آج ان باتوں کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ ہمارا ماضی کتنا پر شکوہ،کتنا تابناک اور کس قدر ایمان افروزتھا۔چالیس کی دہائی میں قیام پاکستان کی تحریک چلانے والے یقیناایک ایسا ہی ملک چاہتے تھے جس کی ابتدامحمد بن قاسم نے کی، زادِ راہ محمود غزنوی نے بہم پہنچایا اور تکمیل شہاب الدین غوری نے کی تھی۔
تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانا ممکن نہیں اس لئے کہ یہ خلافِ فطرت عمل ہے ایسے ہی محسن پاکستان شہاب الدین غوری کا تذکرہ تاریخ کے صفحات سے کھرچنا توبرہمن کے بس میں نہ تھا لیکن اس نے شہاب الدین کے ساتھ نفرت کے اظہار کے لئے اپنے ایٹمی میزائل کو پرتھوی کا نام دے دیا۔یہ گویا اس بات کا اظہار ہے کہ شہاب الدین کا مقابلہ کرنے والے، اسلام اور مسلمانوں کومٹانے کی حسرتیں اپنے سینوں پالنے والے پرتھوی کے بیٹے آج بھی زندہ ہیں ۔ یہ امرقابل تحسین ہے کہ جواب میں پاکستان نے غوری میزائل بنا کر بھارتی حکمرانوں کوپیغام دے دیا ہے کہ شہاب الدین کے غوری کے بیٹے بھی زند ہ ہیں تاہم اس کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ صدیوں پرانے شہاب الدین غوری کے کردار کو نہ بھولنے والا برہمن کیا ۔۔۔تقسیم ہند کو بھول جائے گا اور پاکستان کو دل سے تسلیم کر لے گا۔۔۔۔؟
آج 23 مارچ کی مناسبت سے ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔اور وہ ہے مسلمانوں کے دور کے ہندوستان کی پہچان اور شناخت ۔ ہم سب بچپن سے کتابوں میں یہی پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں کہ یہاں جس خطے پر مسلمانوں نے دس صدیاں حکومت کی اس کا نام ہندوستان تھا۔پاکستان میں سر کاری سطح پر طبع کی جانے والی تاریخ اور مطالعہ پاکستان کی کتب میں بھی یہی لکھاگیاہے کہ انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا ۔ بات اس حد تک تو درست ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس خطے کانام ہندوستان تھا۔ لیکن جب یہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہوااور مسلمانوں نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو پھر یہ ہندوستان نہیں بلکہ ”بلاد اسلامیہ ہند”کے نام سے پوری دنیا میں معروف ہوا تھا۔گویا اس کی پہچان اور شناخت اسلام کے حوالے سے تھی۔یہ ملک اسلام کی جاگیر تھا اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی۔ مشہور مورخ محمد بن فرشتہ اور عرب سیاح ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ بلاد اسلامیہ ہند کے مسلمان ملکوک و سلاطین عباسی خلفا سے سند ِحکومت حاصل کیا کرتے تھے۔
باہم نامہ و پیام اور تحفے تحائف کے تبادلے ہوتے۔محمود غزنوی نے ہجری410میں اپنی فتوحات کا ایک مفصل خط نہایت ہی عزت و تکریم اور قیمتی تحائف کے ساتھ عباسی خلیفہ القادر باللہ کو بھیجا جواب میں خلیفہ نے محمود کو بیش قیمت خلعتِ فاخرہ اور امین الملہ یمین الدولہ کا خطاب دیا۔مشہور مسلمان حکمران ابوالمجاہد سلطان بن محمد شاہ تغلق کی دعوت پر خلیفہ کے بیٹے بلاد اسلامیہ ہند کے دورے پر آئے۔عباسی خلفا اس وقت کے ہندوستان کو سرکاری سطح پر بلاد اسلامیہ ہند ہی لکھتے تھے۔الغرض انگریز نے ہندوستان نہیں ”بلکہ بلاد اسلامیہ ہند ”پر قبضہ کیا تھا۔ قبضہ وتسلط کے بعد انگریز نے جہاں مسلمانوں کی ہزارسالہ میراث اورتہذیب وثقافت کو تاراج و پامال کیا وہاںبلاد اسلامیہ ہند کی اسلامی پہچان اور شناخت کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹادیا ۔انگریز کے دور میں تاریخ اور جغرافیہ کی جو کتب مرتب اور مدون کی گئیں ان میں علمی اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے لفظ ”ہندوستان” کی اس قدر تکرار اور گردان کی گئی کہ آج ہم بلاد اسلامیہ ہند کا نام با لکل ہی بھول گئے ہیں۔
انگریزوں نے بلاد اسلامیہ ہند مسلمانوں سے چھینا تھا لہذا دیانت اور امانت کا تقاضہ تھا کہ انخلا کے وقت انگریز ”حق بہ حق دار رسید ” کے مصداق پورے ہندوستان کی زمامِ حکومت مسلمانوں کو سونپتے۔ لیکن مسئلہ سارا اسلام دشمنی کا تھا،آج بھی دنیا میں ہر جگہ یہی مسئلہ ہے۔دشمن اسلام کو مٹا دینے اور مسلمانوں کو جینے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔انگریز کا بھی یہی مسئلہ تھا وہ صرف تاجر ہی نہیں بلکہ کلیسیا کے وفادار و پیروکار بھی تھے۔اسلام دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی۔وہ مسلمانوں کو زمام اقتدار سونپنے کی بجائے مسلمانوں کو ہندو کی غلامی میں دینا چاہتے تھے۔
اس مقصد کی خاطر آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا اوراسی وجہ سے جواہر لال نہرو اور گاندھی نے” ایک ملک ایک قوم” کا نعرہ لگا یا۔ہندو نیتائوں کا معاملہ بھی عجب تھا ایک طرف وہ ہندوستان میں بسنے والوں کو ایک قوم قرار دیتے اور دوسری طرف انہوں نے انسانی مخلوق کو لاتعداد طبقات میں تقسیم کر رکھا تھا۔برہمن کے نزدیک سب سے نیچ اور حقیر شودر تھے جبکہ ان کے نزدیک مسلمان شودر سے بھی کمتر تھے۔اللہ نے پانی بلا تخصیص و امتیاز سب انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے لیکن ہندوستان دنیا کا واحد خطہ تھا جہاں برہمن نے ۔۔۔۔ہندو پانی اور مسلم پانی ۔۔۔۔کی اجارہ داری بنا رکھی تھی۔ہندو ایک طرف سانپوں کو دودھ پلاتے اور دوسری طرف مسلمانوں کو ذبح کرتے تھے۔ جیسے جیسے ہندوستان سے انگریز کے انخلا کا وقت قریب آرہا تھا برہمن کے مسلمانوں کے بارے میں عزائم واردے آشکارا ہوتے چلے جارہے تھے۔خاص کر1937ء میں جب کانگریس کو نو صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع ملا تو مسلمانوں کے بارے میں ان کے ناپاک عزائم پوری طرح بلکہ بری طرح عیاں ہو گئے تھے۔اسی دوران ایک ہندو لیڈر مہاشہ پرتاپ سنگھ نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ۔۔۔اسے پڑھنے کے لئے حوصلے اور دل گردے کی ضرورت ہے ۔اس نے کہا تھا
”بھیشم کے سپوتو۔۔۔۔ارجن کے دلاورو!
ایک گائو ماتا کی رکھشا کے لئے کراچی سے مکہ تک تمام مسلمانوں کا بھی خون بہادو تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ہندو دھرم میں گوشت کھانا جائز نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا خون پینا بھی منع نہیں ہے۔”
یہ تھا کانگریس کا ہندوستان جس میں وہ مسلمانوں کو امن و شانتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ترغیب دے رہے تھے۔
سو۔۔۔۔ان حالات میں مسلمانوں کے لئے دو ہی راستے تھے
زندگی یا موت ۔۔۔۔۔
آزادی یا غلامی ۔۔۔۔۔
مسلمان ایمان سے دستبردار ہو کر ہندوئوں کے سامنے سر جھکا دیتے تو یہ یقینی موت اور غلامی کا راستہ تھا۔انہوں نے زندگی اور آزادی کا راستہ چنا جو ایمان کی رعنائیوں اور زیبائیوں سے آراستہ ہے۔یہ راستہ بلا آخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔ پاکستان ہمارے پاس اللہ کی نعمت اور شہدا کی امانت ہے ۔اللہ کا قانون ہے جو نعمت کی قدر کریں وہ انہیں انعامات سے مزید نوازتا اور ناشکرگزاروں کے لئے اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔پاکستان کے قیام میں صرف 1947ء یا1857ء کی جنگ آزادی کے شہدا کا خون ہی شامل نہیں بلکہ اس کے قیام میں محمد بن قاسم کے قافلہِ حجاز کے پاک دل وپاکباز شہدا کا مقدس خون بھی شامل ہے۔اس مملکت کے قیام میں شہاب الدین غوری جیسے متقی ،پرہیز گار،تہجد گزار۔۔۔۔ قرون اولیٰ کا سا کردار رکھنے والے سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید کا لہو بھی ہے۔ اس سے تھوڑا آگے چلیں تو لاکھوں کشمیری شہدا بھی ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان کے لئے تن من دھن کی بازی لگائی تھی ،آج بھی جانوں پر کھیل کر محبت ووفا کے رشتے نبھا رہے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔اہل کشمیر نے پاکستان کے ساتھ اپنا مقدر اس لئے وابستہ کیا تھا کہ اس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی تھی۔ لاالہ الا اللہ محمد الرسو ل اللہ ۔۔۔طاقت کا منبع ۔۔۔۔۔راہِ ہدایت ۔۔۔۔اورحق و باطل کے درمیان حدِفاصل ہے ۔ اس کلمے کا مطلب ہے اپنی زندگی ،سوچ،فکر ،معیشت ،معاشرت ،تجارت،سیاست،طرز حکومت ۔۔۔۔۔الغرض سب کچھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین و احکامات کے تابع کردیئے جائیںاگر ہمارے ملک میں یہ سب کچھ ہے تو سمجھ لیں نظریہ پاکستان قائم ہے اگر جواب نفی میں ہے تواصلاح کی ضرورت ہے۔پاکستان اور بھارت دو ملک ہیں دونوںکے درمیان حدِ فاصل کے لئے نہ سمندر ہے،نہ دریا اور نہ کنکریٹ سے بنی بلند و بالاکوئی سد ِسکندری بلکہ ایک فکری اور جغرافیائی حدِفاصل ہے جو دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے ۔۔۔۔۔یہ حدِ فاصل ہی ۔۔۔۔۔نظریہ پاکستان ہے۔
آج جبکہ ہم آزادی کے سفر کے 79سال طے کر چکے ہیں ہمارے حکومتی ایوانوں سے لبر ل پاکستان کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ،پنجاب میں خواتین کے تحفظ کے نام پر ایک غیر سنجیدہ بل پاس کیا گیا ہے،سچی بات ہے یہ سب کچھ اسلام اور نظریہ پاکستان سے متصادم ہے۔ہم بھارت کے ساتھ مذکرات اور تعلقات بہتر بنانے کے ہر گز خلاف نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی ایسا چاہتا ہے۔۔۔۔۔؟اس کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔بی جے پی کی پاکستان دشمنی ادائوں سے ٹپک رہی اور نگاہوں سے برس رہی ہے۔دنیاآگے کی طرف جارہی ہے اور بی جے پی پاکستان دشمنی کی فضا گرم کرنے کے لئے 47ء کا ماحول بنا رہی ہے۔ بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو متعصب رہنما 1940ء کے مسلم دشمن ماحول سے باہر نکلنے ،پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے اور مقبوضہ جموںکشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے حق کی بات کریں ۔حق یہ ہے کہ بلاد اسلامیہ ہند اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہماراایمانی اورروحانی رشتہ ہے۔ان لوگوں نے ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا اور کر رہے ہیں ۔ اس رشتے کی ایک جھلک 23مارچ 1940ء کے لاہور کے اجلاس میں دیکھی جاسکتی ہے۔
جب میرٹھ سے تعلق رکھنے والے ایک نمائندے سید رئوف شاہ نے مسلم اکثریتی صوبوں سے آئے ہوئے وفود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا”جان سے عزیز بھائیو!جب آپ آزاد اور خود مختار ہوجائیں گے تو بھارت کے ہندو ہمیں نیست ونابود کر دیں گے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جائے گی ،ہمیں شودروں کی طرح زندگی بسر کرنا ہوگی،اس کے باوجود ہم خوش ہوں گے کہ کم از کم آپ تو آزاد فضا میں سانس لیں گے۔جب آپ آزاد ہو جائیں اور آزاد مملکت میں زندگی بسر کرنے لگیں تو کبھی کبھی ہمارے لئے بھی دعائے مغفرت کر لیا کرنا۔”سید رئوف شاہ اپنی ساری تقریر کے دوران روتے رہے ،ہزاروں شرکائے اجلاس کوبھی رولادیا ۔ آخر میں کہنے لگے”بھائیومیرے آنسو اس لئے نہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے،ہمیں چیریں پھاڑیں گے بلکہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ ایک ایسے ملک میں زندگی بسر کریں گے جو آزاد ہو گا اور جس کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہو گی۔”سید رئوف شاہ نے جب یہ بات کہی تو مجمع پر عجب کیفیت طاری ہو گئی،آنسو بے قابو ہو گئے ، ضبط کے بند ھن ٹوٹ گئے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔تب حاضرینِ اجلاس میں سے بعض اٹھے اور کہاپاکستان صرف ہمارا ہی نہیں آپ کابھی ہو گا ۔یہ محمد بن قاسم ،محمود غزنوی اورشہاب الدین غوری کے فرزندوں کا ملک ہو گا،یہ اسلام اور قرآن کا ملک ہو گا۔ ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے بھائیوں کوبھولیں گے اور نہ بے یارومددگا ر چھوڑ یں گے۔آپ کا تحفظ اور مدد ہمارا اولین فرض ہو گا۔
یہ عہد و پیمان تھے جو ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے باہم کئے تھے۔ہم آزاد وطن کے شہری بن گئے لیکن بھارت میں رہنے والے مسلمان بدستور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔۔۔ ہم نے ان کے ساتھ محبت اور وفا کا رشتے نہیں نبھائے ۔۔۔ہمیں رسول ۖ کے یہ فرامین بھی یا د نہ رہے کہ مسلمان مصیبت میں اپنے بھائی کو تنہا نہیں چھوڑتا اور یہ کہ مسلمان وعدے کو ایفا کرتا ہے۔پس۔۔۔اے حکمرانو قوم کے جوانو تحریک پاکستان کے ایام میں ہم نے جو وعدے اور عہد کئے ان کو نبھانا ہمارافرض ہے۔اگر اس فرض کی ادائیگی میںہم کوتاہی کریں گے تو اللہ کے ہاں ظالم و وعدہ شکن لکھے جائیں گے۔اس عہد کی پاسداری تب ہی ممکن ہے جب ہم سچے مسلمان بن جائیںاور احیائے نظریہ پاکستان کا عہد کریں۔
تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید
امیر جماعة الدعوة پاکستان
برائے رابطہ : ارشاد احمد ارشد
0323-4218012