تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
بھارت۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی نسبت رقبے کے اعتبار سے چار گنا،آبادی کے اعتبارسے سات اور عسکری اعتبار سے بھی کم وبیش سات گنا طاقت کا حامل ملک ہے۔بھارتی حکمرانوں کایہ بھی دعوی ہے کہ ان کا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ بجا مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت اور صداقت ہے کہ بھارت رقبے ،آبادی اور عسکری اعتبار سے جتنا بڑاہے اس کے حکمران،سیاستدان اور پالیسی ساز ظرف اور برداشت کے اعتبار سے اتنے ہی چھوٹے اور تنگ نظرہیں۔ ہندئووںکی تنگ نظری وکم ظرفی اتفاقی یا حادثاتی نہیں بلکہ یہ سب کچھ ان کی فطرت،ذہنیت اور سرشت میں شامل ہے۔ہندو مذہب کی ساخت ایسی ہے کہ اس میں برداشت،رواداری اورعالمگیر انسانی اخوت کاکوئی تصور نہیں۔ہندوازم۔۔۔۔۔۔ایک ایسی ذہنیت ہے جو تنگ نظری، خون آشامی،خود غرضی،نفرت، عداوت،مکر وفریب اور احسان فراموشی سے عبارت ہے۔
جہاں تک انگریزوں کا تعلق ہے یہ صرف تاجر ہی نہیں بلکہ مسلمان دشمنی کے جذبات لے کربرصغیر میں وارد ۔۔۔اور اس پرقابض ہوئے تھے۔اس کے بعد جب ہندئووں کو انگریزوں کی سرپرستی حاصل ہوئی تووہ مسلمانوں کے لئے ”کریلااور نیم چڑھا” ثابت ہوئے۔آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام درحققت انگریز وںاور ہندئووں کا باہم سیا سی و مذہبی معانقہ اور مسلمانوں کوغلام بنائے رکھنے کے طویل المعیاد منصوبے کا حصہ تھا۔ا س بات کی گواہی کانگریس کے اولین صد ر ۔۔۔سی ڈبلیو چوہدری جو خود بھی ہندو تھے۔۔۔۔۔ نے اپنی کتاب ”انڈین پالیٹکس” میں ان الفاظ میں دی ہے”کانگریس کا قیام وا لئسر ائے لارڈڈرفن کی ایما پر عمل میں لایا گیااس مقصد کی خا طرایلن اوکٹیون ہیوم کو انگلستان سے بلوایا اور ہندو اکابر سے ملاقاتیں کرنے کو کہا گیا تاکہ ایک انجمن قائم کی جاسکے۔وا لئسرائے نے ہیوم کو اس بات کی تاکید بھی کی تھی کہ کم از کم جب تک وہ ہندوستان میں ہے یہ راز فاش نہیں ہونا چاہیے کہ کانگریس کا قیام اس کی ایما پر عمل میں لایا گیا ہے۔”ہیوم کی صدارت اور والئسرائے کی پس پردہ سرپرستی میں کانگریس خوب پھلتی پھولتی رہی تاآنکہ اس کی زمام اختیار کلی طور پر ہندئووں کے ہاتھ آگئی۔ تب جلد ہی آل انڈیا نیشنل کانگریس اسم بامسمیٰ (انڈین نیشنل ازم) یعنی ہندو قومیت کی علمبردار جماعت بن گئی۔
کانگریس کی قوت اور افرادی طاقت میں اضافہ کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہندو راہنما یہ کہتے پھر رہے تھے:
1 ہندوستان کو نظریہ اور عمل کے اعتبار سے ایسی ہندو ریاست بنایا جائے گا جس کا کلچر ومذہب ہندو ہو اورجس کی حکومت بھی ہندئووں کے ہاتھ میںہو۔
2 ہندو مسلم تنازعات کا واحد حل یہ بیان کیا جاتا کہ مسلمانوں کو شدھی (مذہب تبدیل کر کے) ہندو دھرم میں شامل کیا جائے۔
3 کبھی کہاجاتاجب تک ہندوستان بدیشی مذہبوں سے پاک نہیں ہوگا تب تک ہمیں (ہندئووں کو) چین سے سونا نصیب نہیں ہوگا۔
4 اور یہ کہ ہندوستان میں دوقومیں نہیں رہ سکتیں۔بیس فیصد اسلام کے روڑے کو ہضم کرنا ممکن نہیں۔جس نے بھی اس پتھر کو نگلا اس کے پیٹ میں ہمیشہ درد ۔۔۔رہے گا۔
کبھی اس عزم کا اظہار کیا جاتاکہ ا نگریزوں کے جانے بعد ہندوراج قائم کیا جائے گا۔شمال مغرب اور شمال مشرق کے وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیںوہاں فوج متعین جائے گی تاکہ مسلمان سر نہ اٹھا سکیں۔
6 کبھی کہاجاتا ہندو ادارے۔۔۔۔ ہندو مملکت ۔۔۔کے بنیادی ستون ہوںگے۔ مثلا ہندی زبان، سنسکرت زبان، ہندو تاریخ، ہندو تہوار، ہندو سورمائوں کا احترام اور ہندی تہذیب سے محبت وغیرہ۔
7 اور کبھی ہندو اپنے خبث باطن کا اظہار ان الفاظ میں کرتے قرآن کو الہامی کتاب، محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ کا نبی اور کعبہ کو قبلہ والوں ماننے والوں کے لئے سرزمین ہند میں کوئی جگہ نہیں ہو گی۔
8 اور کبھی مستقبل کے ہندوستان میں (نعوذ بااللہ) قرآن کو جلانے، مسلمانوں کو مٹانے اور مسجدوں کو جلانے کے پروگرام بنائے جانے کی باتیں ہوتیں۔
9 اور کبھی ہندوستان کی ہرایک مسجد پرویدک یا آریہ سماج کا جھنڈا نصب کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا۔
ہندو کی تنگ نظری وکم ظرفی اور مسلم دشمنی کی یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں ان سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ہندو انگریز کے جانے کے بعد۔۔۔۔۔کس قسم کا ہندوستان چاہتے تھے اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے کیا عزائم و ارادے تھے۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کاقیام، دو قومی نظریہ کا احیا اور قیام پاکستان کا مطالبہ۔۔۔۔ کانگریس کی ان مسلم دشمن پالیسیوں کا ردعمل ونتیجہ تھا۔الغرض انگریز اور کانگر یس کی ان پالیسیوں نے مسلمانوں کو بیدار وہوشیار کردیا، انہوں نے جان لیا کہ اگر وہ متحد نہ ہوئے توان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا،ان کا دین، عزت، آبرو خطرے میں پڑ جائیں گے،غلامی کی رات طویل تر اورانگریزوں کے بعد وہ ہندئووں کے شکنجہ غلامی میں جکڑے جایئگے۔ چنانچہ مسلمان ۔۔۔۔مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے لگے۔ علامہ محمد اقبال کے دسمبر 1930 ء کے خطبہ الہ آبادنے مسلمانوں کو ایک نئی سوچ وفکر عطا کی اور 23مارچ 1940 ء کو لاہور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس نے مملکت اسلامیہ پاکستان کی صورت میں ان کے لئے راہ عمل اورمنزل متعین کردی ۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان ہندوستان بھر میں بکھرے پڑے اورکمزور ومنتشر تھے۔مگرجس چیز نے مسلمانوں کوبہت کم وقت میں متحد ومتفق کردیا،ان کو ناقابل تسخیر قوت وطاقت بنا دیا،انگریزوں اور ہندئووں کو شکست فاش سے دوچار کردیاوہ نظریہ پاکستان یعنی۔۔۔۔۔۔ کلمہ طیبہ تھا۔
بات یہ تھی کہ ہندو اور انگریز کسی صورت بھی تقسیم ہند اور قیام پاکستان پر راضی نہ تھے۔انگریزوں نے جس ہندوستان پر قبضہ کیا وہ اپنے وقت میں ”بلاد اسلامیہ ہند” کے نام سے معروف تھا۔دوسرے لفظوں میں انگریز نے اپنے وقت کی ایک وسیع وعریض اسلامی مملکت کا خاتمہ کیاتھا۔اس کے بعد انگریز کیوں کر برداشت کرسکتے تھے کہ برصغیر سے ان کے بوریا بسترسمیٹنے کے بعدایک بار پھردنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت معرضِ وجود میں آجائے۔ جہاں ہندئووں کاتعلق ہے ان کی پاکستان دشمنی کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ اولا۔۔۔۔۔ ہندو بھی انگریزوں کی طرح اسلام کے بدترین دشمن تھے۔ ثانیا۔۔۔۔۔ ہندئووں کے 30 کروڑ دیوتا ہیں جن میں ان کی سرزمین بھی شامل ہے۔وہ اپنی سرزمین کو دھرتی ماتا سمجھتے ہیں۔قیام پاکستان کا مطلب گویا دھرتی ماتا کی تقسیم تھا۔اس لئے ہندو تقسیم ہند مخالف اور قیام پاکستان کے دشمن بن گئے۔ پاکستان کی مخالفت کی دوسری اہم اور بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی بنیاد۔۔۔۔ کلمہ طیبہ پر تھی۔
مسلمانوں کا وجود بھی برداشت نہ کرنے والے ہندو ایک حقیقی اسلامی مملکت کا وجودبھلا کیوں کر برداشت کرسکتے تھے۔ سو۔۔۔کانگریس سمیت ہندو جماعتوں کے چھوٹے بڑے رہنما تقسیم ہند،قیام پاکستان اور نظریہ پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ہندو لیڈروں کا کہنا تھا ”نظریہ پاکستان کا مطلب ہے ایک ایسا ملک جہاںزندگی اور طرز حکومت قرآنی اصولوں کے مطابق ہواوراسلامی حکومت قائم ہو۔ہندو قوم خواہ کتنی ہی بزدل اور غیر منظم کیوں نہ ہووہ کبھی برداشت نہیں کرسکتی کہ مسلمان اس قسم کی حکومت قائم کرلیں۔،،لیکن جب انگریزوں اور ہندئووں کی تمام تر مخالفت وعداوت کے باوجود پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا توہندو نیتا آگ بگولا ہوگئے اوران کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے یہاںتک کہ امن و آشتی اور اھنسا کے سب سے بڑے پرچارک گاندھی بھی غصے اور صدمے کی وجہ سے ہوش وحواس کھو بیٹھے اور کہنے لگے”اگر ساراہندوستان بھی جل کر راکھ ہو جائے ہم پھر بھی مطالبہِ پاکستان منظور نہیں کریںگے خواہ مسلمان اسے بزوِر شمشر ہی کیوں نہ طلب کریں۔”
قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک دفعہ کہاتھا”گاندھی کاوہ مقصد نہیں ہوتا جو وہ زبان سے کہتے ہیںاور جو ان کا درحقیقت مقصد ہوتا ہے اسے کبھی زبان پر نہیں لاتے۔”سو۔۔۔ گاندھی کا یہ کہناکہ ”مسلمان خواہ پاکستان بزور شمشیر ہی کیوںنہ طلب کریں”کا یہی مطلب تھاکہ جواہر لال نہرو اور گاندھی سمیت تمام چیلے چانٹے بزور قوت اور بزوِر شمشیر قیام پاکستان کو ناممکن بنانے کے لئے تیار اور آمادہ پیکار ہو چکے تھے۔ اس مقصد کی خاطرانگریزوں کی سرپرستی ورہنمائی میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ تیار کرلیاگیا۔قتل عام کی تیاریوں کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سکھ اور ہندو ریاستوں کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تقسیم ہند سے چھ ماہ پہلے دھڑا دھڑ اسلحہ بننا شروع ہو گیا تھا۔ انگریز حکومت کی بیشتر سر کاری مشینری ۔بھارت کی وزارت داخلہ، بھارت کی فوج اور پولیس ۔۔۔۔ہندوسکھ ریاستوں کے راجے مہا راجے اور ان کی فوج وپولیس۔۔۔۔راشڑیہ سیوک سنگھ، ہندو مہا سبھا،اکالی دل جیسی درجنوںجنونی ہندو تنظیموں کے ہزاروں رضاکاراور لاکھوں کی تعداد میںعام ہندئووںاورسکھوں نے مسلمانوں کا اعلانیہ قتل عام کیا۔حملہ آور ہرطرح کے چھوٹے بڑے دیسی اور جدید اسلحہ سے مسلح ہاتھیو ں اور گھوڑوں پر سوارقافلوں کی صورت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے۔دوسری طرف برطانوی حکومت کے اہلکار اور چانکیہ کے پیروکارامن وشانتی کے بہانے اکثر مقامات پر مسلمانوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر چکے تھے۔مسلمانوں کاقتل عام اس پیمانے پر کیا گیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔دہلی سے واہگہ بارڈر تک تمام ہندوستان مسلمانوں کی لاشوں اور کٹے پھٹے اعضا سے بھر گیا۔
دریاخونِ مسلم سے سرخ ہو گئے ،ان کے کناروں پرمیلوں تک مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے ،کماد اور دھان کے کھیتوں میںکھڑے برساتی پانی میں ہزاروں معصوم بچوں کی لاشیں تیر رہی تھیں، بعض جگہ دو۔۔۔دو ایکڑ تک درختوں کے جھنڈوں اور سر کنڈوں میں مردہ انسانی جسم اٹکے ہوئے تھے۔ الغرض شہر اجڑگئے ،گائوں کے گائوں مٹ گئے، بستیاں ویران اور مسجدیں راکھ ہو گیئں،قرآن جلادیئے گئے،عفت ماٰب خواتین کے برہنہ جلوس نکالے گئے،اجتماعی عصمت دری کی گئی،ماں باپ کے سامنے زندہ بچوں کو نیزوں پہ اچھالا میخوں کے ساتھ درختوں میں گاڑا،تلواروں سے کاٹا اور قیمہ بنا دیا گیا۔بعض جگہ مسجدوں کے منبر ومحراب میں زندہ وشیر خوار بچوں کو میخوں کے ساتھ گاڑ کر نیچے لکھ دیا گیا”یہ ہے مسلمانوں کا پاکستان”۔ہزاروں ایسے واقعات بھی ہیں کہ مائوں کواپنے شیر خوار بچوں کاخون پینے پر مجبور کردیا گیا ۔بہار سے آنے والی ٹرین میں ایک ایسی عورت بھی سوار تھی جسے سات بچوں کا خون پلایا گیا تھا اور وہ ماںصدمے،دکھ اور غم کی وجہ سے پا گل ہوچکی تھی۔ کیا کوئی صاحب اولاد اندازہ کرسکتا ہے کہ اس ماں نے باقی زندگی کیسے بسر کی ہوگی۔۔۔۔۔؟اس طرح کی ایک نہیں ہزاروں المناک داستانیںہیں جنہیں زبان بیان کرنے اور قلم لکھنے سے قاصر ہے۔یہ تھی پاکستان کی قیمت جو برصغیر کے مسلمانوں نے چکائی تھی۔
سچی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں۔ یہ وطنِ عزیز ہمیں تحفے میں نہیں ملا بلکہ اسے حاصل کرنے اور اس چراغ کو روشن کرنے کے لئے لاکھوں زندگیوں کے چراغ گل ہوئے تھے۔آج ان قربانیں کو زندہ کرنے، یاد رکھنے اور بار بار د ھرانے کی ضرورت ہے۔یہ قربانیاں ماضی کا قصہ نہیں ہمارے حال کا حصہ ہیں۔اگر بھارت تقسیم ہند کا زخم نہیں بھولاتو ہم ایک کروڑ مسلمانوں کی ہجرت، 30 لاکھ شہدا کا خون اور ہزاروں مائوں بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کے المناک واقعات کیوں کر بھول سکتے ہیں۔خاص کر ایسے حالات میں کہ جب بھارت کے پاکستان دشمن جذبات ماضی کی نسبت کئی گنا برھ چکے ہیں،سازشیں عروج پر ہیں،بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے کی کو ششیں ہیں،بم دھماکے،دہشت گردی اور تخریب کاری ہے۔مودی حکومت کا سارا ایجنڈا ہی پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔الیکشن میں مودی نے پاکستان کے حوالے سے جن ناپاک عزائم کا اظہار کیا انہیں پورا کرنے کے ارادے ہیں، ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر آئے روز فائرنگ ک سلسلہ جاری ہے،فائرنگ سے شہادتیں ہو رہی ہیں اور بھارت نے پاکستان پر اعلانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔حقیقت یہ کہ اسلام اور پاکستان دشمنی بھارتی حکومت کی بنیاد بن چکی ہے ۔بھارت کی قومی سلامتی کا مشیر اجے دیول کہتا ہے ”ہم نے پاکستان توڑناہے۔”
وزیر اطلاعات راجیہ وردن سنگھ راٹھور کہتا ہے ”ہم نے جو میانمار میں کیا وہی پاکستان میں کریں گے۔ ”بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کو آج بھی پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جارہی ہے۔پہلے افضل گورو۔۔۔اور اب یعقوب میمن کی سزائے موت اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔افضل گورو اور یعقوب میمن کی پھانسی میں جس طرح انصاف کو رسوا اور عدل کو سر عام پھانسی پہ چڑھایا گیا۔۔۔۔۔۔وہ بذات خود ایک المناک، شرمناک اور مسلم دشمنی کی بدترین مثال ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی بھارت سے کسی خیراور بھلائی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ہر گز نہیں۔بات سیدھی سی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کی پاکستان دشمنی بڑھ رہی ہے۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں۔
اصلاح کا سیدھا، سچا اور یقینی راستہ یہ ہے کہ ہم اس مقصداور منزل کی طرف واپس لوٹیں جس کی خاطر پاکستان قائم کیا گیا تھا۔خود کو مضبوط کریں،دشمن کی چالوں کو سمجھیں اوراپنے اندر اتحاد پیدا کریں۔ خوش آئند بات ہے کہ پاک فوج کے جراتمندانہ کردار کی وجہ سے دہشت گرد بھاگ رہے اور بھارت کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے پاکستان استحکام کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور افواج کی استحکامِ پاکستان کی کوششیں اپنی جگہ بجا لیکن سب سے زیادہ ضرورت ۔۔۔۔۔نظریہ پاکستان کے احیا ء وارتقا ء کی ہے۔ اسی نظریہ کی بنیاد پر یہ ملک قائم ہوا ۔۔۔اور اسی نظریہ کے ساتھ ہمارے ملک کا مقدر وابستہ ہے۔اس لئے کہ احیائے نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے۔ پاک فوج کے جراتمندانہ کردار کی وجہ سے دہشت گرد بھاگ رہے اور دشمن کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے لئے قربانیں ماضی کا قصہ نہیں ہمارے حال کا حصہ ہے۔ بھارت رقبے کے اعتبار سے جتنا بڑاہے اس کے حکمران اور سیاستدان ظرف کے اعتبار سے اتنے ہی چھوٹے ہیں۔ کانگریس کا قیام ہندئووں اور اگریزوں کا مسلمانوں کے خلاف سیاسی معانقہ ومعاشقہ تھا۔ مسلم لیگ کا قیام،دو قومی نظریہ کا احیاء اور قیام پاکستان کا مطالبہ کانگریس کی مسلم دشمن پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ برصغیر سے رخصت ہونے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت معرضِ وجود میں آئے۔
تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
امیر جماعة الدعوة پاکستان