تحریر : عقیل خان
کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہئے اس کو جنگ یا جنون نہیں بنانا چاہئے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کومیدان کوئی بھی ہو اس میںفتح ایک کی ہوتی ہے اور اسپورٹس مین اسپرٹ یہ ہوتی ہے کہ انسان فتح کے لئے اپنی پوری جان لڑا دیتا ہے لیکن شکست ہونے کی صورت میں اس کو بھی خوشدلی سے قبول کرلینی چاہیے۔یوں تو ورلڈ کپ کے تمام میچ ہی اپنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں کہیں نہ کہیں سنسنی پائی جاتی ہے۔ تاہم پاک بھارت میچ میں جس قدر سنسنی اور جوش و جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ کسی اور میچ میں نہیں۔ اِس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل کو دیکھنے والوں کی تعداد پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت میں زیادہ ہے اب اگر جوش و جذبے میں کچھ کمی باقی رہ جاتی ہے تو اْس کو پورا کرنے کے لیے دونوں ممالک کا میڈیا بھی بھرپورکردارادا کرتاہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک کھینچائو اور جنگ کی سی صورتحال کو پیدا کردی جاتی ہے۔ جہاں پر شائقین کو ایک دوسرے کے خلاف نازیبا اور نفرت انگیزالفاظ استعمال کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔میڈیا پر ماہرین کرکٹ اور ایسے افراد کو لا کر بیٹھا دیا جاتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے لئے خیر کے جملے تو درکنار بلکہ ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں کہ بس جیت کے سوا دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔دونوں ممالک کے ٹی وی پروگرامات شائقین کرکٹ میں ایسا جذبہ پیدا کردیتے ہیں کہ اْنکی یہ سوچ وہ نہیں رہتی جو کھیل سے جڑی ہوتی ہے۔ سب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ فقط ایک کھیل ہے اور اس کو کھیل کی حد تک ہی دیکھا جانا چاہیے۔ کھیل ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے کھیلے جاتے ہیں لیکن میڈیا مافیا نے پاک بھارت میچ کو ایک جنگ کی صورت دیدی اور ایسا ماحول بنا دیا کہ گویا کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ چھِڑ گئی ہے۔
اب ہمیں بھی اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہئے اور اپنی ٹیم کو برا کہنے یا ان پرتنقید کرنے کے بجائے ان کاحوصلہ بلند کرنا چاہیے۔ میچ میں اگر غلطیاں نہ ہوں تو پھر کوئی بھی ٹیم ہار کا مزا نہیں چکھ سکتی۔جہاں تک اس میچ کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان کرکٹ ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں سے کئی غلطیاں سرزرد ہوئی ۔پہلی بات تو یہ کہ پاکستانی مینجمنٹ کو یونس خان سے اوپنینگ نہیں کرانی چاہیے تھی، اس کا جو نمبر ہے اس پر کھلانا چاہیے تھا۔ اگر ان کی یہ سوچ تھی کہ اگر پہلی گیند پر اوپنر آؤٹ ہوجاتا ہے تو تب بھی یونس نے بیٹنگ کرنا ہوتی ہے تو یہ بہت غلط سوچ تھی کیونکہ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ مسلسل دو یا تین بالز پر کھلاڑی آؤٹ ہوجاتے ہیں تو کیا ٹوڈاؤن یا تھری ڈاؤن سے اوپننگ کرالینی چاہیے؟ اتنے بڑے میچ میں تجربے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ میچ دونوں ملکوں کے لیے جنگ بنا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہمارے دوسرے بیٹسمینوں نے اس میچ کوٹی ٹونٹی سمجھ لیا تو جو بغیر دیکھے چھکے چوکے لگانے کی ٹھان کر آئے تھے ۔وکٹ پر کھڑے ہوکر پہلے وکٹ کاجائزہ تو لو یہ کس طرح کھیل رہی ہے؟
دوسری جانب ہماری ٹیم کی فیلڈنگ انتہائی ناقص رہی،ویرات کوہلی کے کیچ ڈراپ ہونے کی وجہ سے اس نے گراؤنڈ کے چاروں طرف ایسے سٹروک کھیلے جیسے گیند فٹ بال ہو۔ کپتان کی پلاننگ پر کافی انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔عرفان کا جو میڈیا نے ہوا چلائی ہوئی تھی اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ سہیل خان جس کی ٹیم کی جگہ بھی نہیں تھی اس نے پاکستان کی عزت رکھ لی ورنہ ایک بار تو ایسا محسوس ہورہا تھاجیسے بھارت دویا تین وکٹوں پر سکور کا پہاڑ کھڑا کردے گامگرپھر بھی پاکستان باؤلنگ نے بھارت جیسی مضبوط بیٹنگ لائن کو 300تک محدود کرکے ثابت کردیا کہ ہماری باؤلنگ بری نہیں ہے۔
پاکستان بھارت کے میچ کے بعد میڈیا نے اپنے تبصروں میں بڑی بڑی باتیں کی مگرانہوں نے آئی سی سی پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔ ایک بات جوسب نے دیکھی کہ ابھی ورلڈکپ کوشروع ہوئے دودن ہوئے ہیںاور دو دنوں میں ایمپائرز نے دو بہت بڑی غلطی کیں ہیں جس کا ازالہ اب ممکن نہیں۔ اس ایونٹ میں ایمپائر وں نے جو غلطیاں کی ہیں اس پر کوئی تنقید نہیں کررہا پہلے دن ڈی ویلئیر کوغلط آؤٹ دیا اور آج عمراکمل کو۔ تھرڈ ایمپائر جو ویڈیو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے وہ بھی غلطی کرے تو پھر آئی سی سی کا اللہ حافظ ہے۔آئی سی سی کے معافی مانگنے سے وہ غلطی پوری نہیں ہوجاتی اس کے لیے بھی قانون ہونا چاہیے کہ جو ایمپائر غلط فیصلہ کرے اسے فوری ورلڈکپ کے باقی میچوںسے ہٹا دیاجائے اور اسکی جگہ دوسرے ایمپائرز کو تعینات کیاجائے تاکہ اسے بھی اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
خیر ابھی تو پاکستان کی ابتدا ئی میچ تھا ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے اگر پاکستان جوش کی بجائے ہوش سے کھیلے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ ورلڈکپ کانام پاک بھارت میچ نہیں ہے۔بقول عمران خان کہ بھارت کے خلاف میچ میں قومی ٹیم کی پلاننگ ناکافی تھی لیکن ٹیم کو اس ہار سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیئے۔ پاکستان کی جانب سے آج کی شکست کا درست تجزیہ کیا جائے تو آئندہ میچز میں اس ناکامی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ آج کے میچ میں ٹیم کی جانب سے ٹیلنٹ کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا لیکن میگا ایونٹ کے باقی میچز بھی انتہائی اہم ہیں اور ان کے لیے بہتری کی ضرورت ہے۔
ایک میچ میں خراب پرفارم کرنے والے کو ٹیم سے نہیں نکالنا چاہیئے اس لیے اگر ٹیم مینجمنٹ یونس خان کو ڈراپ کرتی ہے تو اس کا یہ فیصلہ غلط ہو گا۔ پاکستان ٹیم کے پاس باؤلنگ اٹیک مضبوط ہے۔اگر بلے باز اچھا پرفارم کر دیں تو محمد عرفان ، وہاب ریاض اور سہیل خان جیسے باؤلر بہترین دفاع کر سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم سے یہی کہوں گا کہ کھیل کو صرف کھیل سمجھو اسکو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ۔جو جذبات ہمارے ملک کے لیے ہوتے ہیں وہی جذبات ان کھلاڑیوں کے ہوتے ہیں مگر کھیل میں ہارجیت تو ہوتی ہے ۔ آخر میں پاکستانی ٹیم کے لیے میں تو یہی کہوں گا کہ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com