تحریر : عماد ظفر
پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھاـ ہندوستان بھی آزاد قرار پایا.لیکن انسان ان دونوں مملکتوں میں غلام تھاـتعصب کا غلام مذھبی جنون کا غلام حیوانیت و بربریت کا غلام. یہ اقتباس منٹو کی تحریر آزاد غلام میں سے ہے. آزاد غلام کی یہ اصطلاح منٹو نے دونوں ممالک کے عوام کیلئے استعمال کی تھی. آج دہائیوں پر محیط سفر کے بعد بھی منٹو کی کہی ہوئی بات سو فیصد درست ہے .پاکستان اور ہندوستان میں بسنے والے افراد آج بھی تعصب مذہبی جنون اور حیوانیت کے غلام ہیں. آزادی کا مفہوم سمجھنے کیلئے آزاد فضاؤں میں سانس لینا ازحد ضروری ہوتا ہے فقط پنجرہ تبدیل کرنے یا صیاد کا چہرہ بدلنے سے آزادی نہیں حاصل ہوا کرتی۔
کرسٹینا لیمب نے پاکستان کی آزادی اور سیاسی حالات اور نظام پر ایک کتاب لکھی تھی “waiting for Allah” . اس کتاب کو فورا پاکستان میں پابندی کا شکار کر دیا گیا تھا. اس کتاب کا عنوان بے حد آسان الفاظ میں ہماری قوم کی تعریف کرتا دکھائی دیتا ہے. گوروں کے راج کے دوران پولیس کو مقامی آبادی پر ظلم روا رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا اور کالے قوانین بنا کر حاکمانہ تسلط کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی.عدلیہ بھی گوروں کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع تھی. 1947 آیا برصضیر تقسیم ہوا ہندوستان اور پاکستان معرض وجود میں آئے لیکن گوروں کے بنائے ہوئے قوانین موجود رہے.یوں استحصال پر مبنی نظام جوں کا توں موجود رہا. جناح کی وفات کے بعد سیاسی عدم استحکام کا دور شروع ہوا لیاقت علی خان مارے گئے اور غلام محمد سے لیکر سکندر مرزا تک سب محلاتی سازشوں کے تانے بانے بنتے ایک دوسرے کو پچھاڑتے پچھاڑتے خود پچھڑ گئے۔
پھر ایوب خان کا مارشل لا آیا. جناح جو آج بھی آزاد غلاموں ” کا آئیڈیل ہے اس کی بہن کو ایوب خان نے انتخابات میں دھاندلی سے شکست دی اور آمریت کا بیج اس زمین پر ہمیشہ کیلئے بو دیا.یحیی خان بھٹو اور شیخ مجیب کی مثلث نے پاکستان کو تقسیم کیا اور مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا. جس دن مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اسی دن دو قومی نظریے پر لاتعداد سوالات کھڑے ہو گئے . دو قومی نظریہ کہتا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں جو اپنا مذہبی و ثقافتی تشخص رکھتے ہیں اور مذہب کی بنیاد پر یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہیں گے. لیکن مشرقی پاکستان کی صورت میں اس کا جواب وقت نے خود دے دیا. بچے کھچے پاکستان میں آج تک اقتدار کی جنگ اسی طرح جاری و ساری ہے اور آمریت یا جمہوریت کے نام ہر اشرافیہ چہروں پر آویزاں نقاب بدل بدل کر اسی طرح اپنا راج قائم رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب ہندوستان میں بھی استحصالی نظام جوں کا توں موجود ہے.دونوں ممالک کی اشرٍافیہ آج بھی اپنی اپنی عوام کا خون چوس کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب کے بیج اگاتے رہتے ہیں. اور عوام خود اپنی مرضی سے غلامی کے طوق کو گلے لگا کر خوش رہتی ہے. یہ تصویر کا وہ رخ ہے جسے دیکھنے پر دونوں ممالک میں پابندی عائد ہے.بالخصوص ہمارے ہاں تو فتوی ساز فیکٹریاں فورا غداری اور توہین کے سرٹیفیکیٹ کا اجرا کر دیتی ہے.اب جس ملک میں بچے کا برتھ سرٹیفیکیٹ سرکاری ہسپتال سے حاصل کرنے کیلیئے مہینوں چکر کاٹنے پڑتے ہوں اور غداری و توہین کے سرٹیفیکیٹ فورا سے پیشتر بانٹ دیے جاتے ہوں وہاں تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے کون ان کڑوے حقائق کو سامنے لانے کی جرات کرے جو لوگوں کے بنیادی نظریات اور عقائد سے متصادم ہوں۔
نظریات جو نرگسیت اور حقائق کو مسخ کر کے ذہنوں میں ٹھونسے گئے. جن کی بنیاد صرف اور صرف دونوں ممالک کے عوام کو محکوم رکھنے پر قائم تھی. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج قریب 70 برس بعد بھی ریاست یہ طے نہ کر پائی کہ جناح کا خواب سیکولر ریاست کا تھا یا اسلامی ریاست کا تو پھر کیا یونہی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کی مانند اپنی شناخت کو مسخ ہی کیئے جانا ہے؟ اگر ریاست آج تک عوام کے مسائل کی داد رسی نہیں کرنے پائی تو کیا یہ آزادی کے کھوکھلے نعرے کڑوڑوں افراد کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا کر سکتے ہیں؟ اگر ریاست آج تک گوروں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے کمزوروں کو دبا کر اور ان کا استحصال کرنے کو اپنی رٹ برقرار رکھنا کہتی ہے تو کیا یہ آزادی کے مفہوم کی صریحا غلط تشریح اور تعبیر نہیں ہے. آخر فیض احمد فیض نے کیوں 14 اگست کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ ” یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر… وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔۔
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار ….کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل…. کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل کہیں تو جاکے رکے گا سفینہِ غمِِ دل.” دوسری جانب عوام جنہیں خود غلامی کا طوق پہننے کا شوق ہے ان سے سوال بنتا ہے کہ آخر کب تک سر جھکا کر بھیڑوں کے غول کی مانند جیئے جانا ہے. کب تلک اپنی اپنی دنیاؤں میں بس کر وطن کی تعمیر اور ترقی کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کرتے ہی رہنا ہے. کب تلک ایک دوسرے کو عقائد مسلک مذہب یا محض اختلاف رائے کی بنا پر گاجر مولی کی مانند کاٹتے ہی جانا ہے.کب تک وڈیروں صنعتکاروں پیروں فقیروں اور مذہبی اجارہ داروں کا غلام بن کر رہنا ہے. برصغیر کی تقسیم وڈیروں افسر شاہی یا صنعتکاروں اور مذہبی اجارہ داروں کی حاکمیت کیلئے نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان اس لیئے قائم نہیں ہوا تھا کہ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب کر عصر حاضر سے منہ موڑے ایک شتر مرغ کی سوچ والا معاشرہ وجود میں آئے. مسخ شدہ لاشیں ہوں یا لاپتہ افراد کے ورثا یا پھر فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت کا شکار بننے والی اقلیتیں ہوں یا پھر غربت اور افلاس کی چکی میں پستے ہوئے مزدور یا کڑوڑوِں انسان ان سب کی خالی آنکھوں اور ٹھنڈے چولہوں کے ہوتے ہوئے کونسی آزادی اور کہاں کا جشن. جہاں ایک سنتری یا ایک ایس ایچ او علاقے میں بسنے والے زیادہ تر افراد کو چھٹی کا دودھ دلا دے وہاں آزادی کا جشن کچھ بے معنی سا دکھائی دیتا ہے. آزاد معاشرے اور قومیں انسانوں کیلئے سماج اور قوانین بناتی ہیں نہ کہ سماجی استحصال کو قائم رکھنے کی خاطر جابرانہ قوانین. البتہ “آزاد غلام ” اسیری کے اس قدر شوقین ہوتے ہیں کہ پنجرے میں دھمالیں ڈال کر اسے اپنی آزادی تصور کرتے ہیں اور صیاد کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔
تحریر : عماد ظفر