تحریر : فاروق احمد بودلہ
چشمِ عالم محوِ حیرت ہے،پاک بھارت تعلقات اپنے مستقبل کے پر پیچ، خمداراور دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے انجانی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔نہیں معلوم ،لمحہ بھر میں فریق ِثانی ،گرگٹ کا روپ دھارکر حالات کارخ یکسر بدل دے،کہ گفت و نشست کا سارا اختیار اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے، سو جو چاہے اس کی نگاہ ِ کرشمہ سازکرے، اسی لئے موجودہ حالات میں کسی فیصلہ، انجام،نتیجہ،حاصلِ سعی جیسی تمام اصطلاحات کو باوقعت تصور کرنا طرزِاحمقانہ کے سوا کچھ نہیںلہٰذ ا قوی امکان یہ کہ دو طرفہ منظرنامے میں یکطرفہ خلوص بے ثمر ہی ٹھہرے،اس بارے سابق سیکرٹری خارجہ کی تشویش بجاجس کا تذکرہ بعد میں،ابھی ذکر چند ماہ پہلے کے قصہ کا جب سر حدوں پر مترنم آتشبازی او ر اس سے ہم آہنگ سشما سوراج کے تیز دھاری بیانات کا سلسلہ پیہم رہا،نواز ،مودی ملاقاتوں کے سحر نے تند خو وزیر ِخارجہ کے مزاج کو نرمی میں ملفوف کرنیکا ہنر سکھایاتو پاکستان کے دورے کے دوران مروّت کی گلپاشی کرتی نظر آئیں۔حالات نئی کروٹ لے رہے تھے ،شکوے ،گلے فراموش کر کے، پاکستان نے دہشتگردی کے ضمن میں عظیم خسارے برداشت کرنے کے باوجوددشنام طرازی سے احتراز کرتے ہوئے امن کی پائیدار کوششوں کو بامراد بنانے کی غرض سے نہایت فراخدامنی کا ثبوت دیا اور بھارت کیساتھ تعلقا ت کی بہتری کو امیدِ روشن سمجھا ۔ دونوں ممالک جانتے ہیں کہ کشیدگی ترقی و خوشحالی کیلئے ایسا زہر ہے جس کا کوئی تریاق نہیں،سو یہ بات بھی مسلمہ کہ جب بھی فریقین میں صلح جوئی کی بنیاد رکھی جاتی ہے ،کچھ عاقبت نااندیش اس کو لرزہ خیز کرنے میں تامل نہیں کرتے۔
سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ ہو،قونصلیٹ پر حملہ ہویا پٹھان کوٹ کی معرکہ آرائی ،مقصد ایک ہی، امن عمل کو سبوتاژ کرنا،سو وقتی کامرانی ہاتھ آئی۔ ائیر بیس حملے کے حوالے سے سوائے چند ایک کے، بھارتی زعماء کی جانب سے پاکستان کو تنقید کے نشتر نہ چبھونے کی غیر رسمی روش کی پاکستانی میڈیا نے ستائش کی تاہم وقتاً فوقتاً بھارتی وزیرِ دفاع منوہر پاریکر شعلہ بیانی کرتے رہے،اگرچہ پہلی بار ایسا ہوا کہ بھارت کو کوئی گزند پہنچنے پرپاکستانی حکومت اور ایجنسیوں کو موردِالزام ٹھہرانے کی بجائے نان سٹیٹ ایکٹرز کو ذمہ دار قرار دیاتاہم وزیر ِدفاع اور وزیرِٹرانسپورٹ نیتن گڈگری کے پے در پے جملوں کے وارناجانے کیا کیا اشارے کر رہے تھے،اینٹ کا جواب پتھر سے دینے جیسے محاوروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت نے بلا تامل وتاخیر ،حملے کے حوالے سے بھارت سے تعاون کا فیصلہ کیا اور مہیاکیجانیوالی ناکافی معلومات کے باوجود بھی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ان افراد کو زیرِحراست بھی لیا جن کے ملوث ہونیکا بھارتی حکام کو بڑا یقین ہے، اس کے برعکس یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ بھارتی کرنل موہت سرِعام سمجھوتہ ایکسپریس حملے کا اعتراف کرتا ہے، ہمارے لیڈروں کو کیا سونگھ گیاجو اس کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا، بھارت بظاہر نہایت متحمل رہ کر دنیا کے سامنے اپنا خوشنما چہرہ آشکار کر رہا ہے مگر نوازشریف کے دورہ کے دوران سری لنکن حکومت پر پاکستان سے جنگی طیارے جے ایف 17تھنڈر نہ خریدنے پر دباؤ ڈالا،ناصرف دباؤ بلکہ سری لنکا کو دی جانیوالی امداد کو پاکستان سے معاہدہ نہ کرنے سے مشروط کر دیا،بالکل ویسے ہی جیسے پٹھان کوٹ حملے کے بعد مذاکرات کو پاکستان کے دہشتگردوں کیخلاف کارروائی سے جوڑ دیا۔
گزشتہ ہفتے سرتاج عزیز صاحب نے میڈیا کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات 15جنوری کو طے شدہ شیڈول کیمطابق ہونگے،خاکسار کو تشفّی نہ ہوئی ،علیحدگی میں سوال کا اعادہ کیاتوجواب …..محتاط رویّے شاید وقت کی ضرورت مگر بھارتی میڈیا شتابی یا پھر عداوت میں یہ ملاقات کب کی مسترد کر چکا،چونکہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے،بہرکیف تاحال امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیے،اگرچہ یہ مذاکرات وقوع پذیر ہوتے بھی ہیں تو بہت سے مسائل ایسے ہیں جو پٹھان کوٹ معمہ سے بھی دیو قامت ہیں،امید ِواثق ہے کہ وہ مذاکرات کا حصہ ہی نہیں ہونگے اور اگر ہوئے بھی تو حسبِ روایت یہ گفت و شنید نتیجہ خیزنہیں ہوگی، بھارتی زعماء اگر حقیقی طور پر امن کے خواہاں ہیں تو انہیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ مذاکرات کی نشست سے حکومتوں کے مابین ا بہام اور شکوک و شبہات رفع ہونگے اور ایئر بیس حملے متعلق تحقیقات میں بھی پیشرفت ہو گی۔
سب سے غور طلب بات یہ کہ مسئلہ کشمیر پٹھان کوٹ سے زیادہ گھمبیرالجھن ہے جس کا سلجھاؤ ناگزیر ہے،کیا اس میں شک کی گنجائش ہے کہ کشمیر جہاد کونسل نے حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے تو اس کے کیا محرکات ہیں؟شاید تنگ آمد بجنگ آمد۔اویس لغاری کی بات دل کو بھائی،کہاکہ مذاکرات ائیر بیس حملے سے شروع ہو کر کشمیر پر ختم ہونا چاہیں۔جمعرات کی سہ پہر صحافتی نشست میںسابق وزیرِخارجہ خورشید محمود قصوری نے برملا کہا” خارجہ پالیسی پیروں کے ہاتھوں میں نہیں دی جا سکتی کہ وہ پھونک مار کر ٹھیک کر دیں،پاکستان کے مفاد کیلئے ایک سرجن کی طرح فیصلے کرنا ہونگے جس میں بعض اوقات بڑے خسارے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں،ماضی کا خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پاکستان جوہری طاقت نہ بنتا تو معلوم نہیں کیا حشر ہوتا”یہ الگ بات کہ ” موسٹ فیورٹ نیشن ”سے اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان مودی سرکار کی اجارہ دارانہ آرزوؤں پر مشوّش ہوئے ،کہا”مودی نے ہمارے حکمرانوں کو نچایا ہواہے اور ڈائیلاگ کی کھونٹی پرپاکستان کو ٹانگ رکھاہے۔
اب ہم انتظار کرتے رہیں”…خواہ مخواہ میں ٹانگ رکھا ہے؟”جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں”مذاکرات کے حوالے سے بھارتی تیور بدلیں تو ایسی کیا افتاد آپڑی کہ ہم پاتال سے لپٹے رہیںاور کوئی سر کا تاج بن جائے ،مذاکرات محض برابری کی بنیاد پر ،ہمسایہ ملک کے حکام اور عوام کے پیچیدہ و ناپسندیدہ روّیوں کے پیشِ نظر، تعلقات کو سودوزیاں کی کسوٹی پر جانچناناگزیر ہے،بھارت اندرونی ہاتھ ملوث ہونے بارے خود احتسابی بھی کرے،پاکستانی تعاون عالمی سطح پر مثبت رویّہ مگر اربابِ اختیار کیلئے چند باتیں ذہن نشین کرنا لازم،بلوچستان،کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونیوالی سازشوںاورتخریب کاریوں کے ٹھوس شواہد پیش کرنے پر بھارت کا سابقہ بے اعتنائی کارویّہ واضح ہے، کیاآئندہ وہ بھی ایسے ہی معاونت کرے گا جس کا وہ پاکستان سے تقاضا کر رہا ہے؟کیا کشمیر کامسئلہ بھی مجوزّہ مذاکرات کا بنیادی حصہ ہوگااور اس پر بھی بامعنی تصفیہ طلب امور زیرِبحث لائے جائیں گے؟ایسے سوالات پاکستانی حکام کے گمان کا حصہ بننا ضروری ہیں اوریہ بھی کہ قائداعظمکے 1940ء کے ایک خطاب کیمطابق ”البیرونی نے 11ویں صدی میں کہا تھاکہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ دھارے ہیں جو کہیں بھی مل نہیں سکتے”۔
تحریر : فاروق احمد بودلہ