تحریر: مبشر ڈاہر۔ الریاض سعودی عریبیہ
حکومت پاکستان کو کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنانا ہوگا، مسئلہ کشمیر کوعملی طور پر پسِ پشت ڈالے ایک لمباعرصہ گزر گیا ہے غیر اعلانیہ طور پر مسئلہ کشمیر کو اٹھائے بغیر تجارتی پینگیں اور ثقافتی یلغاریں بڑھانے کی کوششیں کی گئی ہیں اور پاکستانی میڈیا نے میاں نواز شریف کی کاروباری حکمتِ عملی کی اٹھان کی خاطر، دفاعی اداروں کی مخالفت کے باوجود ” امن کی آشا” جیسے پروگرام شروع کیے ۔اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کا بھرپور استعمال بھی کیا۔ اور دفاعی اداروں کی طرف سے بارہا اس قسم کے اقدامات کو مذموم قرار دیا اور تشویش کا اظہار کیا ،مگر بکاؤ میڈیا نے ایسے اقدامات کو میڈیا کی آزادی پر قدغنوں کی آڑ میں دفاعی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے پھر پور ہر زہ سرائی کی ہے ،اور امن کے آشا جیسے بیرونی امداد یافتہ پروگراموں کو بھرپور ترویج و تشہیر کی ہے ۔ اس ثبوت کے طور پر 19 اپریل 2014 کوکراچی میں ٹی وی اینکر حامد میر پر ہونے والے حملے کی محض چند منٹوں بعد اس وقت کے آئی ،ایس، آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کو نہ صرف اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ گھنٹوں افواج پر کھلم کھلا الزام تراشی کی جاتی رہی اور ہر طرح سے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش بھی کی گئی ،بھارتی اخبار ڈیلی میل نیوز اور ہندوستان ٹائمز بھی اس گٹھ جوڑ کو اپنی صفحات کی زینت بنا چکے ہیں
آج کی تحریرکا موضوع ہر گز جیو جنگ گروپ اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی را گٹھ جوڑبے نقاب کرنا نہیں ہے مقصد یہ بتانا ہے کہ کشمیر کاز کو پسِ پشت ڈال کربھی بارہا پاک و ہند حکومتیں دوستی کی بگلیں بجانے کی ناکام کوششیں کر چکی ہیں لیکن یہ تمام تر کاوشیں عملی طور پر کارگر ثابت نہ ہوئیں بلکہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و بربریت کی ان گنت داستانیں، بنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں،نہتے کشمیریوں پر ٹوٹنے والے ظلم و ستم کے آسمان ،پیلٹ گنوں سے مضروبی و معذوری کی ان داستانیں،کتاب و لائبریری کی جگہ بندوق و بارود جیسی ستم ظریفیاں ،افسپا جیسی غیر انسانی و غیر اخلاقی قانونی لعنتیں،جوان و پیر کے لیے شبانہ روز قید و بند کی صعوبتیں،نوجوانوں کی گمشدگیاں اور بے نام قبریں، عفت مآب ماؤں، بہنوں ،بیٹوں کی عصمت دری کی چیخوں نے اس تمام تر میڈیائی یلغاروں، ہرزہ سرائیوں اور کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے ، پاکستان ،آزاد کشمیر،اور مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے دردمندوں، انسانی حقوق پسندوں اور خوداروں نے نے ایسے اداروں اور ایسی فکر کے مفکروں،کرداروں، تخلیق کاروں،اداکاروں اور ان کے معاونوں کو ان کی فکر سمیت دفن کر دیا ہے ،
ماضی میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھی بارہا امن اور کاروبار کے نام پر مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کیا فروری 1999واجپائی، نواز شریف کے اعلامیہ لاہور میں بھی عملی طورپر کشمیر کاز کو پسِ پشت ڈالاگیا۔اور شایدمسٔلہ ِکشمیر کو پس پشت ڈالنے کے پس منظر میں ہی محض پانچ ماہ بعد جولائی 1999 کارگل میں جنگ چھڑ گئی۔اور کشمیر کاز ایک بار پھر دونوں ملکوں کے مابین کھل کر سامنے آ گیا ، پھر جولائی 2001 مشرف ، واجپائی ”آگرہ سمٹ ” میں ایک بار کشمیر ایشو پر کھل بات کی گئی لیکن حکومت ہند نے ”آگرہ سمٹ” پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
آمر جنرل پرویز مشرف پر بے شمارسیاسی و انتظامی اعتراضات ہونے کے باوجود کشمیر ی عوام آج بھی جنرل مشرف کی مسئلہ کشمیرپر اپنائی جانے والی حکمت عملی کے حق میں نظر آتی ہے ۔افواج پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان اور کشمیر کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق حکمتِ عملی اپنائی ہے ، پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت نے تو کشمیر ایشو سے بالکل پہلو تہی برتی ہے اور اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ۔پیپلز پارٹی کی مسئلہ ِ کشمیرپر حکمتِ عملی ان کے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو سے یکسر مختلف ہے ،کشمیر پر لب کشائی کرتے ہوئے ذوالفقار بھٹو ہمیشہ شعلہ نوا اور سخت گیر دکھائی دئیے مگر اس کے یکسر برعکس بینظیربھٹو کی حکومتیں اورکسی جرمِ ناکردہ کی پاداش میں شومی قسمت مسلط ہونے والی زرداری کی حکومت نے مسٔلہِ کشمیر کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی ۔ امیریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے اداریے کے مطابق مطابق آصف زرداری تمام سابقہ پاکستانی حکمرانوں کے برعکس کشمیر میں جاری مسلح تحریکِ آزادی کو دہشت گردی گردانتے رہے ہیں۔اور آصف زرداری مسئلہ کشمیر کو منجمد کرکے حکومت ہند کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے بھی ہامی رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابی جلسوں میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جواں سالہ بلاول بھٹو بھی وہی ساٹھ سالہ پرانے ، چغلے ہوئے جملے ہی دہرا رہا تھے۔
حالیہ برسوں میں بھارت حکومت افغانستان کے ساتھ سفارتی اور بالخصوص تجارتی تعلقات بڑھاتی نظر آرہی ہے جس کی عملی نظارے بھی ہمیں کچھ عرصے سے دیکھنے کو مل رہے ہیں ،امریکہ بھی افغانستان میں بھارتی کردار بڑھانے کا خواہش مندنظر آتا ہے ۔بظاہرتو ایران کے راسطے افغانستان کے ساتھ تجارت کی بھر پور بھارتی کوششیں ہمیں نظر آرہی ہیں لیکن چاہ بہار کے راسطے ہند، افغان تجارت عملی معنوں میں ممکن اور کامیاب دکھائی نہیں دیتی ۔بری ذرائع نقل سے بندر گاہ تک پھر بحری زرائع سے چاہ بہار تک حالانکہ چاہ بہار بندر گاہ کی گہرائی بھی بہت کم ہے ،چاہ بہار سے ٹرین کے زریعے تجارتی اجناس کی افغانستان تک منتقلی پر دوگنا تگنا سفراور اور دوگنے چگنے اٹھنے والے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑیں گے ،جبکہ اس تمام تر مشق کے برعکس واہگہ سے کابل کا سفرمحض چھے سو کلو میٹر بنتا ہے ۔جس میں بار بار لوڈنگ ان لوڈنگ کی صعوبتیں بھی برداشت نہیں کرنا پڑتی،لیکن ان تمام تر تجارتی و سفری سہولتوں سے مستفیدہونے کے لیے بنیادی تنازعہ مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے ،چونکہ پاکستانی عوام نے کشمیری عوام کے ساتھ اپنی مذہبی، جذباتی اور فطری وابستگی کی بنا پر ان تمام عوامل کوعملی طور پر درگور کر دیا ہے جن کے تحت مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر بھارت کے ساتھ تجارتی،سفارتی، معاشی، اخلاقی تعلقات کی بنیادیں رکھی جانی ہیں۔ بھارتی تاجروں اور عوام کو ان تمام تر تجارتی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی حکومت پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے ۔
یہ بات تو اب اظہرمن الشمس ہے کہ حکومت پاکستان روایتی کشمیر پالیسی پر عمل پیرا ہو کر دور دور تک اس مسئلے کا حل حاصل کرتی نظر نہیں آ رہی ، برف کے گولوں سے مسیحائی نہیں کی جاسکتی،حکومت پاکستان کو روایتی کشمیر پالیسی کوچھوڑ کر نئے سرے سے بہتر حکمت عملی تیار کر کے مسئلہ کشمیر سے امریکہ، برطانیہ،یورپی یونین، مشرقِ وسطی اور دیگر اقوامِ عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر کو عالمی امن میں بنیادی رکاوٹ کے طورپرپیش کرنا ہوگا۔گزشتہ دنوں بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ اسلام آباد یاتراپر تھے ،اسلام آباد نے بھر پور طریقے سے ” سب سے پہلے کشمیر” کی فعلا ً حکمت عملی کو اپنا کر بھارت کو واضح پیغام دیالیکن اس سے مزید کچھ اور آگے جاکر خطے کے پائیدار اور مستقل امن کی بنا حاصل کر نے کے لیے پاکستان کو اقوام ِ عالم کے تمام تر سفارتی فورمزپر واضح کرنا چاہیے کہ ہند کے ساتھ تجارت ، اخلاق، محبت، ثقافت،بھائی چارہ، پڑوس داری،سب کچھ لیکن ”سب سے پہلے کشمیر”
تحریر:۔مبشر ڈاہر ۔ الریاض سعودی عریبیہ۔
mobushirdahr@gmail.com
+966500061847
٭٭٭٭٭