اسلام آباد (یس ڈیسک) وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ بھارت سے پرامن اور بامقصد مذاکرات چاہتے ہیں لیکن کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کئے بغیر بھارت سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ بھارت سے بامعنی اور بامقصد مذاکرات چاہتے ہیں لیکن اس کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کے لئے کوئی اشارہ نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات بھارت نے ختم کئے لہذا اب دوبارہ شروع کرنے کی ذمہ داری بھی اُسی پر عائد ہوتی ہے جب کہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کئے بغیر بھارت کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔
سرتاج عزیر کا کہنا تھا کہ امریکا سمیت کئی ممالک بھارت کی جانب سے امن مذاکرات ختم کرنے پر مایوس ہیں اور امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دورے کے دوران پاک بھارت مذاکرات کی بحالی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سرحد پرکشیدگی کم کرنے اور لائن آف کنٹرول پر امن برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کررہاتھا لیکن بھارت نے اس عمل کو بھی سبوتاژ کیا اور ایسی صورت حال میں بھارت سے مذاکرات کی بحالی کے فوری امکانات نہیں۔
مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے اور افغان صدر کے دورے میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ باہمی اتحاد اور مفاہمت پر مبنی تعلقات قائم کیےجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی واپسی چند ہفتوں میں متوقع ہے۔
تاہم یہ مہاجرین دسمبر 2015 تک پاکستان میں رہ سکتے ہیں، ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ غیرملکی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو سفارتی سہولیات فراہم کرنے لئے ان ممالک میں واقع پاکستانی سفارت خانہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے رہا ہے۔