تحریر : احسان الحق اظہر
پاکستان تحریک انصاف نے سات ماہ بعد پارلیمنٹ میں واپسی کا اعلان کردیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے یمن کی صورت حال سے متعلق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھرپور شرکت کا فیصلہ بنی گالہ میں چیئرمین عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کیا ۔ پاکستان میں بدانتظامی اوربدعنوانی زوروں پر ہے۔ سیاستدانوں کی ایک دوسرے کیخلاف بدزبانی سے بدامنی یابدعنوانی ختم نہیں ہوگی۔ہرسیاسی جماعت کااپنااپنا ایجنڈا اور جھنڈاہے قومی ایجنڈا کون بنائے گا۔قومی یکجہتی کاراستہ قومی ایجنڈے اورسبزہلالی جھنڈے سے ہوکرجاتا ہے ۔ پاکستان میں مثبت تبدیلی کیلئے شفاف انتخاب کے ساتھ ساتھ بے رحم احتساب ناگزیر ہو چکا ہے۔اگرقومی مجرموں کااحتساب نہ ہوا تو پاکستان میںخونیں انقلاب کاراستہ ہموار ہوگااورپھرسرمایہ داراشرافیہ کوپناہ نہیں ملے گی۔ اقتدارمیں شریک سیاستدان مصلحت پسنداورایک دوسرے کے رازدار ہوتے ہیں لہٰذاء وہ ایک دوسرے کااحتساب نہیں کرسکتے ۔کڑے احتساب کیلئے ایک بااختیار، خودمختار اور غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے ۔ اگرپاکستان میں آئین بنانیوالے خود اس کااحترام اوراس کی پاسداری نہیں کرتے توعوام سے توقعات کیوں رکھتے ہیں ۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے عام آدمی کامعیارزندگی بلندہوگااورنہ اس کی زندگی میں آسودگی آئے گی۔
عمران خان کہتے ہیں کہ ہم 120 دن اسلام آباد میں بیٹھے رہے ۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف اب جوڈیشل کمیشن اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں بھی آواز اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف نے گزشتہ برس 14 اگست کو انتخابی دھاندلیوں کو بنیاد بنا کر لاہور سے ریلی نکالی تھی اور اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیا تھا تاہم 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی آئی نے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کیخلاف تقریباً چار ماہ تک اسلام آباد میں احتجاج کیا۔ اس دوران پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین کی جانب سے حکومت وقت پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے ، اسمبلیوں کو ڈمی اور غیر آئینی و غیر قانونی تک کہا گیا۔
حکومت کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی تحقیقات نہ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھے والے متعدد اراکین پارلیمنٹ نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تھے۔ تاہم یہ استعفی اراکین نے انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت میں قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس جمع کرائے تھے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے استعفی دینے والے اراکین کو انفردی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے کہا تھا جس پر انھوں نے سپیکر کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان راکان کے استعفے منظور نہ کیے جائیں۔
تحریک انصاف کی قیادت نے 22 اگست 2014ء کو اسلام آباد میں دھرنے کے دوران قومی اسمبلی، پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا تاہم خیبرپختوانخوا میں اپنی حکومت قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف کے 34 میں سے بعض ارکان نے اسمبلی سے مستعفی ہونے کی مخالفت کر دی۔ ان میں گلزار خان، ناصر خٹک، سراج خان اور مسرت زیب شامل تھے۔ جنہوں نے 24 اگست کو اپنا علیحدہ گروپ قائم کر لیا۔ 30 اگست کو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مبینہ کارکنوں نے پارلیمنٹ ہائوس اور دیگر سرکاری عمارتوں پر ہلہ بولا تو اگلے ہی روز تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی اس فیصلے کے خلاف بطور احتجاج پارٹی سے الگ ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے اعلان کے باوجود سپیکر نے استعفے منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ سپیکر سردار ایاز صادق کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان ایک ایک کرکے استعفوں کی تصدیق کے لئے آئیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپسی کے فیصلہ پر سیاسی قائدین نے ملے جلے رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ استعفے دینے کے بعد تحریک انصاف کے پاس اسمبلیوں میں جانے کا اخلاقی جواز نہیں رہااس کے ارکان اسمبلیوں میں اجنبی تصور ہوں گے۔ جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ استعفوں پر دستخط کر دینے کے بعد اب پارلیمنٹ میں جانا غیر آئینی ہوگا۔ پی ٹی آئی نے فیصلے میں بہت دیر کر دی۔ اب سپریم کورٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان چار ماہ کنٹینر پر اسمبلی کو جعلی کہتے رہے اب کس منہ سے واپس آ رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم حسین قادری کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واپسی مبارک ہواسمبلیاں انشاء اللہ اپنی مدت پوری کریں گی۔ زعیم حسین قادری کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اس شاندار فیصلے پر مبارک ہو لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ ابھی بھی فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے’ جس کا عمران خان کو انتظار کرنا ہو گاانہوں نے کہا کہ بہتر ہو گا عمران خان دن میں خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور حقائق کا سامنا کرتے ہوئے عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کو مکمل طور پر تسلیم کریں۔ ایم کیوایم کے رہنما فیصل سبزواری نے عمران خان کی جانب سے اسمبلی میں واپسی کے اعلان پرٹوئٹ کیا ہے کہ۔
ساقی میرے خلوص کی شدت تو دیکھنا
پھر آگیا ہوں گردش دوراں کو ٹال کر
اسمبلیوں میں واپسی پر تحریک انصاف کے ارکان کو 7 ماہ کی تنخواہیں آئندہ ہفتے ادا کی جائینگی ۔ قواعد کے مطابق ایوان میں حاضر ہونے کی صورت میں 4 ہزار روپے کا ڈیلی الائونس ملتا ہے تاہم ایوان سے غیر حاضری کی وجہ سے تحریک انصاف کے ارکان ڈیلی الائونس سے محروم رہیں گے ۔ قومی اسمبلی پنجاب اور سندھ اسمبلی ، کے حکام نے تحریک انصاف کے ارکان کو 7 ماہ کی تنخواہیں دینے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ یعنی تحریک انساف کے ارکان قومی اسمبلی سات ماہ سے زائد اسمبلی کی کسی بھی کارروائی کا حصہ نہ بننے کے باوجود لاکھوں روپے کی مراعات حاصل کر کے اس محاورے کو بالکل سچ ثابت کر دینگے کہ … چوپڑیاں ، نالے دو دو۔
تحریر : احسان الحق اظہر