تحریر : اختر سردار چودھری
مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اس لفظ مقبوضہ کولگے ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اور نہ جانے ابھی کتنی دیر تک یہ لفظ یونہی رہے گا۔ اور ویسے بھی کہنے کو یہ ایک لفظ ہے۔ مگر اس لفظ کے پیچھے ایسی بہت ساری داستانیں چھپی ہوئی ہیں کہ جنہیں بیان کرنے کے لئے بہت وقت درکار ہے۔ آخر کشمیر کب آزاد ہو گا؟ کب تک یہ کشمیری بہن بھائی ظلم سہتے رہیں گے؟ کب تک یہ دشمن ہمارے بہن بھائیوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے؟کب تک آخر کب تک کشمیری بچوں پر ظلم ہوتا رہے گا ؟ آج کشمیر کو جلتے ہوئے عرصہ دراز گزر چکاہے۔ آخر ایک نہ ایک دن تو یہ زندگیوں کے دشمن اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلیں گے۔ آج تک کشمیر کے کئی گائوں کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ہمیشہ ان بے گناہ نہتے کشمیریوں کو صرف دو الفاظ تسلی آمیز لہجے میں کہہ کر ان کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔ مگر کب تک؟ آخر یہ موت کا کاروبار کب تک ہوتا رہے گا؟
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے۔
آج کل کشمیر میں مسلمانوں کا جو حال ہے اگر کبھی کسی مغربی ملک کے ساتھ ایسا ہوتا تو ساری دنیا اس طرف توجہ دیتی۔ شاید اب مغربی ہی سب کچھ ہیں مگر ان بے پناہ کشمیریوں میں کوئی کمی تو نہیں ہے۔ وہاں پر ایسے ایسے لوگ ہیں کہ جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔وہ بھی انسان ہیں وہاں رہنے والے بچے بھی کسی کے بچے ہیں۔ یہ بچے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر کھیلتے ہیں،سکول جاتے ہیں ،سہمے سہمے رہتے ہیں اور جوان اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں آزادی کے لیے ،
ویسے تو مغربی ممالک آزادی ،آزادی کی رٹ لگاتے ہیں ،بھارت بھی یہ کہتا نہیں تھکتا کہ آزادی سب کا حق ہے ،مگر کشمیریوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا رہا اس لیے قدر کرنی چاہیے ان انسانوں کی جو اتنا بڑا محاذ لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کی حسین وادیوں میں بہت پہلے وہاں کے چشموں اور ندیوں میں میٹھا پانی بہتا تھا۔
مگر اب ان ندیوں میں پانی کی بجائے خون بہتا نظر آتا ہے۔ ان بے گناہ کشمیریوں کا خون جو بھارتی درندوں کے ہاتھوں بے گناہ مارے گئے۔ وہاں پر اب پہلے کی طرح امن نہیں رہا۔ پہلے تو وہاں سریلے نغموں کی صدائیں گونجتی تھیں مگر اب وہاں پر لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔ ہم سب کو وہاں پر پہلے درخت ہی درخت نظر آتے تھے۔مگر اب وہاں دور دور تک آگ سے جلتے مکان دکھائی دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا حسن ماند پڑ چکاہے۔ پتہ نہیں کشمیر کے بچوں کے چہرے کب آزادی کی خوشی سے کھِل اٹھیں گے، مگر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی؟ کیا انہیں انسانوں میں سے نہیں سمجھتے؟ کیا وہ ہمارے مسلمان بہن بھائی نہیں؟ کیا ان کو بھی جینے کا حق نہیں؟ کیا مائوں کی گودیں اسی طرح اجڑتی رہیں گی؟ میرے ان سوالوں کا جواب کس کے پاس ہے؟
حکومت کے پاس نہیں تو پھر کس کے پاس۔ کم از کم ہم مسلمانوں میں اتنا جذبہ تو ہونا چاہیے کہ ہم ان کے لئے کچھ آنسو ہی بہا لیں۔ ہمارے جذبے کہاں گئے؟ ہمارے دعوے کہاں گئے؟ ہمارا ضمیر ابھی تک بیدار کیوں نہیں ہوا؟ایک بہت کڑوا سوال اپنی حکومت سے جو اب ہے اور ان سے بھی جو پہلے حکومت میں رہے ہیں ۔پوچھنا یہ ہے کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ذرا سوچیں اور جواب دیں جب ہمارے پاکستان کی شہ رگ ہی دشمن کے قبضے میں ہے تو ۔۔یہ شہ رگ اس سے آزاد کیوں نہیں کروائی جا رہی۔
آخر کب ہمارا ضمیر بیدار ہو کر ہم سے پوچھے گا کہ تم میں اتنا جذبہ کیوں نہیں ہے؟ کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے دعا کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسا لائحہ عمل اپنائیں جس کی وجہ سے کشمیری بھائی آزادی سے ہمکنار ہو سکیں۔۔
تحریر : اختر سردار چودھری