تحریر: ممتاز حیدر
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارت جامع مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ کہتا ہے مسئلہ کشمیر کو بھول جائیں اور باقی امور پر بات کریں۔ بھارت نے اوفا سمجھوتہ لکھتے وقت کشمیرکا لفظ نہ لکھنے کے لئے کہا تھا، بھارت دہشتگردی پر بات کر سکتا ہے تو دوسرے ایشوز پرکیوں نہیں، اوفا سمجھوتے میں لکھا ہے کہ دونوں ممالک مل کرکشمیر کے مسئلے کاحل نکالیںگے، لائن آف کنٹرول پرکشیدگی انسانی مسئلہ ہے، اسے عالمی فورم پراٹھائیں گے، اقوام متحدہ کولائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزی سے آگاہ کریں گے۔مسئلہ کشمیراس وقت بہت زیادہ اہمیت اختیا رکر گیا ہے۔
کشمیر کے مظلوم مسلمان پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور گلی محلوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر وطن عزیز پاکستان سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے یہ حالات نہیں تھے۔انڈیا کشمیری مسلمانوں کا یہ جذبہ دیکھ کر شدید بوکھلاہٹ اور پریشانی کا شکار ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے دورہ بھارت کے دوران پاکستانی ہائی کمشن کی جانب سے حریت قائدین کو ملاقات کی دعوت دینے پر سید علی گیلانی،میر واعظ عمر فاروق، محمدیاسین ملک، سیدہ آسیہ اندرابی و دیگرکے گھروں پرچھاپے مارے گئے اور نظربند کر دیا جنہیں دنیا بھر کے میڈیاکی سخت تنقید پررہا کیا گیا۔
بھارت نے حریت قائدین کی نظربندیوں سے پاکستان کو سخت پیغام دینے کی کوشش کی لیکن ہندوستانی حکومت کے اس اقدام سے کشمیریوں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی اور ان کا پاکستان سے محبت کا رشتہ مزید پختہ ہو ا ہے۔حریت قائدین کے گھروں پر چھاپوں اور نظر بندیوں سے کشمیریوں میں بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔حکمران آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے مظالم سے دنیا کو آگاہ اور اس کا مذموم چہرہ بے نقاب کریں۔ جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ بھارت خطے کی سپرطاقت ہے اور کشمیر کو بھول جائیں ،کشمیرکوئی مسئلہ نہیں۔ اگرکشمیرکوئی مسئلہ نہیں تو بھارت نے کشمیر میں 7لاکھ فوج کیوں تعینات کی ہے ،کشمیر مسئلہ تو ہے اس لئے فوج رکھ دی ہے۔ تھوڑے عرصے بعد مودی کو یقین ہوجائیگا کہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایشوہے، مودی سرکار نے الیکشن اینٹی پاکستان ایجنڈے پر جیتا ہے، اس لئے ان کے بیانات اور حرکات جارحانہ ہیں، پاکستان بھی ایٹمی قوت ہے ، پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کے پاس بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں، دہشتگردی کے کئی واقعات میں بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا ہے بعد میں وہ جھوٹا ثابت ہوا۔بھارت کی طرف سے مذاکرات کے لئے شرائط رکھنا افسوسناک ہے۔
بھارت کشمیر پر کیوں بات نہیں کرنا چاہتا؟حالانکہ بھارت خود اقوام متحدہ میں گیا تھا۔حریت رہنمائوں سے ملاقات کا بہانہ بنا کر مذاکرات منسو خ کئے گئے درحقیقت بھارت مذاکرات چاہتا ہی نہیں۔ مذاکرات کیلئے پاکستان کا ایجنڈا اوفا کے عین مطابق تھا۔ بھارتی وزیرخارجہ کایہ بیان درست نہیں کہ اوفا میں صرف دہشتگردی کی بات ہوئی، اوفا معاہدے میں لکھا ہے کہ دونوں ممالک مل کرکشمیرکاحل نکالیں۔ پاکستان نے دہشتگردی کے مسئلے پر بات چیت کرنے سے انحراف نہیں کیا،شملہ معاہدے سے اب تک 20سال سے پاکستان حریت رہنماوں سے ملتا رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہونے سے خطے میں کشیدگی کی صورتحال بہتر ہو جائے گی ۔کشمیرکے ایشو پر ریفرنڈم کرایا جائے توعوام فیصلہ دیںگے۔ بھارت کشمیر پر بندوق کے زور پر بیٹھا ہے ،گزشتہ چند دنوں میں لائن آف کنٹرول پرفائرنگ سے 6 جوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان غیرریاستی عناصرکے خلاف جنگ میں مصروف ہے، پاکستان نے ہزاروں جوانوں کی قربانی دی، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو عالمی برداری نے سراہا ہے۔ بھارت کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی پر عالمی برادری کونوٹس لینا چاہئے ،کشمیرسمیت تمام تصفیہ طلب اموردونوں ممالک کے درمیان فلیش پوائنٹ ہیں، دہشتگردی پرپہلے بات چیت کرنا ناقابل قبول ہے ،بھارت 65 سال سے کشمیرکے ایشو کا حل نہیں چاہتا اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے سیاچن، سرکریک ،پانی اور دیگر ایشوز نے سراٹھایا ہے۔
دہشت گردی کا مسئلہ حل ہونے کا کون فیصلہ کرے گا، بھارت دہشت گردی کا پھر کوئی معاملہ گھڑ لے گا۔ بھارت ماہی گیروں کی رہائی جیسے معاملات پر مذاکرات چاہتا ہے۔یہ درست نہیں کہ بھارت سے صرف دہشت گردی سے متعلق بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔ بھارت نے مذاکرات غیرمعینہ مدت کیلئے موخر کئے ہیں۔ بھارت دنیا کو جھوٹا تاثر دینے کیلئے مذاکرات کا ڈھونگ رچانا چاہتا ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی اور دفاع خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ بھارت مذاکرات میں مخلص نہیں اسی وجہ سے بہانے بنا کر مذاکرات سے بھاگا۔ ملک میں جاری دہشت گردی اور ہماری سرحدوں پر جاری بھارتی جارحیت ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی اور مشروط مذاکرات کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ بھارتی رویہ اور جارحیت امن کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان کو معاشی اور امن عامہ جیسے مسائل میں الجھانا اسی سازش کا حصہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ان تمام سازشوں جن میں معاشی اور دفاعی محاذ پر ان سازشوں کو ناکام بنائے گا۔
مذاکرات سے فرار ایک مخصوص ذہن کا آئینہ دار ہے جس سے ہم 68سال سے مقابلہ کر رہے ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج ملک کی سرحدوں اور خودمختاری کا تحفظ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ مودی حکومت کے منفی رویئے کا مقصد خطے کا امن تباہ کرنا ہے۔ پاکستان مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے لیکن بات چیت کیلئے بھارتی شرائط ہمارے لئے ناقابل قبول ہیں۔ بھارت پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کیلئے جارحانہ اقدامات کررہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت نے پاک بھارت مذاکرات کی منسوخی کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی چوہدراہٹ نہ مان کر بہت اچھا فیصلہ کیا ،اقدام جرات مندانہ ہے اور آئندہ بھی سخت موقف اختیارکیا جائے، پاکستان نے مذاکرات سے پہلے بھارت کا نفسیاتی حربہ خاک میں ملا دیا ہے،اب بھارت کو اپنے منفی روئیے کا دنیا کو جواب دینا ہو گا، کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کے تیسرے نہیں پہلے فریق ہیں،سشما سوراج کا موقف درست مان لیا جائے تو واجپائی بھی کشمیری قیادت کو بلا شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کر چکے ہیں، بھارت دن میں خواب دیکھنے کی عادت اب ترک کر دے ،زمینی حقائق کو تسلیم کرکے آگے بڑھے،کشمیری حق خود ارادیت کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، عالمی برادری بھارت کے منفی رویے کا نوٹس لے۔ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریند مودی کی ہٹ دھری اور مذموم عزائم نے جنوبی ایشیا کا امن کو خطرے میں ڈال دیاہے،مودی نے بھارتی ہندوؤں کو اشتعال دلاکر ناصرف پاکستان بلکہ خود بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مسائل پیدا کردیے ،حکومت پاکستان نے جرات مندانہ موقف اختیار کیا۔
عالمی برادری بھارت کی ہٹ دھرمی کا نوٹس لے اور کشمیریوں کو حق دلائے ،8لاکھ قابض فوج نے پورے کشمیرکو ایک کھلی جیل میں تبدیل کرکے قتل گاہ میں بدلا ہواہے،انتہاء پسند مودی حکومت کے جارحانہ عزائم کھل کر سامنے آگے ہیں،مسئلہ کشمیرحل کیے بغیر نہ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہوسکتا ہے اورنہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار اور دیرپا امن قائم ہوسکتاہے،ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا جو ماحول بناتھا ، اسے مودی کے آمرانہ رویہ نے خراب کردیاہے۔ ہندوستان کا مذاکرات سے اچانک پیچھے ہٹ جانا اس بات کو ثابت کرتاہے کہ بھارت مذاکرات نہیں چاہتا۔ مودی کا رویہ کسی بڑے جمہوری ملک کے وزیراعظم کے شایان شان نہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بارڈر ایشوز میں مسلسل اضافہ ہورہاہے بھارت نے رواں برس کئی بار لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے بلااشتعال پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کی ہے جس کی وجہ سے سیالکوٹ بارڈر کے قریبی دیہات سے چالیس ہزار لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ بھارت اپنے رویے پر نظر ثانی کرے اور زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کا موضوع بنائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو سکیں۔
تحریر: ممتاز حیدر