تحریر : حسیب اعجاز عاشر
شگفتہ غزل ہاشمی کا شمار دنیائے شعر و ادب کی خوش نصیب شخصیات میں ہوتا ہے،انکے ہاشمی خاندان کی ادبی خدمات کا اعتراف ہر سطح پر کیاجاتا ہے۔ شگفتہ غزل کے والدِ محترم نقش ہاشمی(مرحوم)کواستاد شعراء میں خاص مقام حاصل تھا،جن کی مقبول ترین کتب میں ”صحیفہ جنگ”، صحیفہ ملت”، مرادِ مصطفی” غماں دا پتن” اور ارژنگ” شامل ہیں جبکہ انکے مجموعہِ غزلیات، تاریخ لاہور اور سوشل مسائل کے حوالے تین کتب زیرِ طباع ہیں ۔اِسکے علاوہ نقش ہاشمی نمبر بھی شائع ہو چکا ہے جس میں مایہ ناز ادبی شخصیات کے پُرمغز اور منظوم مکالے شامل ہیں۔انکی شاعری پر تھیسس بھی لکھے جا چکے ہیں۔شگفتہ غزل کے بھائی اختر ہاشمی عہدِ حاضر کے معروف شاعر و ادیب،جن کے تعارف میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔پنجابی اور اُردو ادب کے حوالے سے انکی خدمات بیشمار ہیں،پہلا پنجابی مجموعہ کلام ١٩٧٣ میں شائع ہواانکے تین مجموعہ کلام ،ایک نثری مجموعہ اور ایک سفرنامہ شائع ہو چکے ہیںاور بابر شکیل ہاشمی بھی اپنی شاعری سے اہل ذوق احباب کی سماعتوں کوا راحت بخش رہے ہیں۔
انکی بہن محترمہ رضوانہ سحر ہاشمی کے مجموعہ کلام بھی ادبی لائبریری کی زینت بن چکے ہیں جس میں”دھوپ کا آنچل”ادبی حلقے میں خوب پسند کیا گیا ہے،جبکہ رفعت ناہید ہاشمی، رفعت شمیم ہاشمی اور عفت نوید ہاشمی کے مجموعہ کلام بھی زیرِ طباع ہیں۔شگفتہ غزل کا ایک بیٹا بحثیت آرٹسٹ اپنے جوہرِفن دیکھانے میں مصروف دوسرا پروڈیکشن میں کامیابی کے سفر پر ۔ انکامجموعہ کلام ”تتلیوں کے تعاقب میں ”بھی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کر رہا ہے، فروغِ اُردو ادب کے حوالے کئی تنظیموں سے وابستہ اپنی پرُخلوص خدمات پیش کرنے میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں ،رب جلیل نے انکے مقدر میں مظہرجعفری جیسا ایسا محبت کرنے والا شاعر و ادیب ہمسفر بھی لکھ دیا ،جو انکے ادبی شوق کو خوب جلا بخش رہے ہیں،بے شمار اعزازت انکا مقدر بن چکی ہیں۔
شگفتہ غزل ہاشمی نے زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے قلمی سفر کا آغاز کر دیاتھا اور ٧٣۔ ١٩٧٢ میں اخبار، امروز ،مشرق اور مساوات میںقلم و قرطاس کے ساتھ بچوں کے ادب کے حوالے سے خوب انصاف کیا۔جبکہ میٹرک میں انکا پہلا افسانہ ”غم کے سائے”بھی شائع ہوا۔کالج میں قد م رکھا تو انٹرکالجیٹ طرحی مشاعروں سے اپنی شاعری کا بھی باقاعدہ آغاز کر دیا۔بہترین اداریہ لکھنے پر کالج میگزین”محمل” کی ایڈیٹر مقرر کر دی گئیں۔انہیں اسی کم عمری میں ہی احمد ندیم قاسمی، مستنصر حسین تارڑ ، سعادت سعیداور مسٹر اینڈ مسز امجد اسلام امجد جیسی نامور شخصیات کے انٹرویوز کرنے کے اعزاز بھی حاصل ہوا۔انہیں بہترین، مدیرہ، بہترین شاعرہ اور بہترین صحافی کے اعتراف میں تعریفی شیلڈ و اسناد سے نوازا گیا۔”جیونی آبروئے دیدہ تر شوق شہادت”، ”ناسور برزخ”، ” برگِ آوارہ”، ”شوقِ پرواز ” اپنے دور کے مقبول ترین افسانے میں شمارہوئے۔
ادبی ماحول میں پرورش پانی والی محترمہ شگفتہ غزل ہاشمی میدان شعروادب میں اپنے منفرد لب و لہجہ اور دلکش کلام کے باعث مسلسل پسندیدگی کی اسناد وصول کر رہی ہیں۔ترنم ناز نے کلامِِ شگفتہ ”دل جھلا ہر روز کریندا اپنے نال صلاحواں۔۔ہن نئیں دسنے دکھ کسے نوں ہن نئیں بھرنیاں ہاواں”گایا تواہل ذوق جھوم اُٹھے۔ شگفتہ غزل ہاشمی کا مجموعہ کلام ”تتلیوں کے تعاقب میں ”اہل ذوق احباب کے لئے کسی حسین تحفے سے کم نہیں۔تتلیوں کے تعاقب میں” شگفتہ غزل کے سچے جذبوں کی سچائیوں کا انتہائی شگفتہ و نرم لہجے میں بے ساختہ اظہار ہے۔نظم ہو یا غزل شگفتہ کی دلفریب ادبی ہنر مندیاں ساری اصنافِ شعری میں بہت نمایاں ہیںجو قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہنے دیتی۔شگفتہ کی غزلیات اپنی علامتوں، استعاروں اور اشاراتی اسلوب کے ذریعے آشوب کی منزل کو پہنچان لیتی ہیں۔جہاں انہوں نے اپنے کلام میں دردو غم کے تمام ذائقوں کو سمو دیا ہے جس کا ذائقہ ہر سخن فہم اور زبان شناس بخوبی محسوس کرسکتاہے۔انہوں نے چشمِ احساس، غم تنہائی، فکرِ انسانیت، غمِ جدائی، غمِ ہجراں جیسی ترکیبوں میں اپنی انفرادیت قائم کر کے اپنے اشعار کو شہکار بنا کر قاری کو اپنی تازہ کاری کا یک گونہ احساس بھی دلایا ہے۔
عطاء الحق قاسمی ”تتلیوں کے تعاقب میں ”پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ شگفتہ فطری شاعرہ لگتی ہیںاسی لئے شعری نزاکتوں کا خیال رکھتی ہیں انکی شاعری کسی محدود موضوع کی اسیر بھی محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس میں ہمارے عصری مسائل اور کومل جذبے ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔شگفتہ غزل ہاشمی کے خوبصورت اشعار اہلِ ذوق قارئین کی نذر۔۔۔۔
ہرشکل میں سقراط نظر آتا ہے گویا
ہر شخص نے زہرِ غمِ حالات پیا ہے
یہ زخم کچھ ایسا ہے کہ بھرتا ہی نہیں ہے
اُدھڑا ہے کئی بار کئی بار سلا ہے
چند روز قبل ہی چوپال، ناصر باغ لاہور میں بزمِ انجم رومانی پاکستان کے زیرِاہتمام ”شگفتہ غزل ہاشمی کے نام ایک شام” اورالحبیب ادبی فورم پاکستان کے چیئرمین سینئر صحافی خواجہ ذاکر کی ٦٥ ویں سالگرہ کا انعقادکیا گیا۔میزبان محفل بزمِ انجم رومانی کے صدر ڈاکٹر ایم ابرار کی خوبصورت نظامت نے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔ فلم ڈائریکٹر، کہانی نویس و شاعرنزر علی فرتاش کی زیرِ صدارت اس تقریب کاآغاز تلاوات قرآن پاک سے ہوا جسکی سعادت علامہ خورشید کمال کے حصے میں آئی ، عمرانہ انعم نے پُرسوز آواز میں پُرعقیدت نعتۖ پیش کی اور روحوں کوسکون بخشا۔تقریب میں سعدا للہ شاہ،شبنم مرزا، جاوید شیدا، مظہر جعفری، اختر ہاشمی، مقصود چغتائی، عدل منہاس، قریشی مظہر، علامہ عبدالستار، علی میرا، عاشق راحیل، جاوید شیدا، عاصم بخاری، پروفیشر عاشق راحیل،ابتیاج،منشاء قاضی، گلزار بخاری،گلشن عزیز، طینوش فردوس ،ڈاکٹر ایم ابرار، مظہر قریشی،ناصر چوہدری، سلیم مجوکہ سمیت شہر کی قد آوار ادبی شخصیت نے شرکت کی۔
مقررین نے تقریب کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شگفتہ غزل کی شخصیت و فن کی بدولت ہی اس تقریب میں ادبی شخصیات کشاں کشاںکچھی آئیں ہیں۔انہوں نے ہاشمی خاندان کی خوب لاج رکھی ہے انکا گھرانا ادب کے حوالے سے آفتاب و مہتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔انکی فکر بھی شگفتہ ہے اور غزل بھی۔انہوں نے خوبصورت تقریب کے انعقاد پر ڈاکٹر ایم اے ابرارکی کاوش کو سراہا اور خواجہ ذاکر کو انکی ٦٥ ویں سالگرہ کی دلی مبارکباد بھی پیش کی ۔اور اس امید کا بھی اظہار کیا ایسی خوبصورت محافل کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔شگفتہ غزل نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ادبی سفر پر روشنی ڈالی اور نامور شعراء کے ساتھ اپنے دلچسپ ادبی تعلقات کا تذکرہ بھی کیا۔
انہوں نے مہمانانِ خصوصی اور تمام حاضرین کی شرکت پر تہہ دل سے اظہار تشکر بھی کیا۔مہمانِ اعزازی خواجہ ذاکر نے بھی اپنے اظہار خیال میں منتظمِ محفل ڈاکٹر ایم اے ابرار اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اپنے لئے دعاِ صحت کی اپیل بھی کی۔نزر علی فرتاش نے اپنے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے ہاشمی خاندان کی ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور شگفتہ غزل کے کامیاب شعری سفر پر دلی مبارکباد بھی پیش کی اور خواجہ ذاکر کو بھی انکی سالگرہ پر ڈھیروں دعائیں دیں انہوں نے کامیاب تقریب کے انعقاد پر بزمِ انجم رومانی پاکستان کو تعریفی کلمات سے نوازا۔شگفتہ غزل ہاشمی کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے اور خواجہ ذاکر کی سالگرہ کے حوالے سے کیک بھی کاٹا گیا۔اختتام پر شرکاء ٹھنڈی شام میں چوپال کی گرما گرم چائے سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے ۔شگفتہ غزل ہاشمی کی ایک منتخب غزل پیش خدمت ہے۔
کتنے سندر جگمگ کرتے موتی اشک
پگلی لڑکی پہروں بیٹھ سنجوتی اشک
سینچ رہی تھی اپنے خون سے کشتِ جاں
کیا کاٹے گی یونہی رہی جو بوتی اشک
جیون رات اندھیری اور آنکھیں دیپک
بھیگے بھیگے سے نینوں کی جوتی اشک
سوچ رہی تھی وقت کی چوکھٹ پر بیٹھے
کاش ستارہ بن جاتی نہ ہوتی اشک
خواب نگر جب ہوتے ہیں آباد غزل
ناگن راتیں لمحہ لمحہ روتی اشک
تحریر : حسیب اعجاز عاشر