تحریر : محمد ارشد قریشی
پتنگ بازی ایک وہ شغل ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے ہاں اس کے انداز ضرور مختلف ہو نگے پاکستان کا میں بھی شائید ہی ایسا کوئی علاقہ ہوگا جہاں پتنگ نہ اڑائی جاتی ہو پاکستان میں تو پتنگ سازی ایک چھوٹی انڈسٹری کی شکل اختیار کرگئی ہے ، پاکستان کے گاؤں دیہاتوں میں میں تو پتنگوں کے میچ رکھے جاتے ہیں ان کی خوب زوق وشوق سے تیاری کی جاتی ہے پتنگ کی ڈور کو تیزدھار بنایا جاتاہے تاکہ پیچ لگتے ہیں حریف کی پتنگ کاٹ دی جائے پاکستا ن کے بڑے شہروں میں تو پتنگ ، مانجھا اور چرخی وغیرہ خرید کر اس شوق کو پورا کیا جاتا ہے جبکہ گاؤں دیہاتوں میں پتنگ، مانجھا اور چرخی خود تیار کی جاتی ہیں اور ان کی تیاری کے بڑے دلچسپ مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں پتنگ کی تیاری تو اس کی شکل و صورت سے واضح ہوجاتی ہے لیکن پتنگ کو اڑانے والے مانجھے کی تیاری کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ سوتی دھاگے کی ریلیں یا گولا لیا جاتا ہے اور اسے کسی بھی سہارے یا درختوں کے گرد گھما دیا جاتا ہے جس طرح الیکڑک کی تاریں ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک لگائی جاتی ہیں اب کسی بھی عام قسم کا چاول لے کر اسے ابال لیا جاتا ہے پھر شیشوں کے ٹکڑے لئیے جاتے ہیں اور اسے باریک کوٹ لیا جاتاہے جب شیشوں کا سفوف تیار ہوجاتا ہے تو اسے ابلے ہوئے چاول میں ملا دیا جاتا ہے پھر تھوڑا سے کپڑے رنگنے والا رنگ ملا دیا جاتا ہے مانجھے پر زیادہ تر کالا رنگ پسند کیا جاتا ہے
اب اسے خوب اچھی طرح مکس کر کے ایک لئی بنالی جاتی ہے پھر ہاتھوں پر کوئی دستانے پہن کر اس لئ کو ہاتھ میں لے کر اس دھاگے کو اس طرح پکڑا جاتا ہے کہ دھاگہ اس لئی کے بیچوں بیچ آجائے اب جہاں جہاں تک دھاگے باندھے ہوئے ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ چلا جاتا ہے تاکہ تمام باندھے گئے دھاگوں پر یہ لئی اچھی طرح لگ جائے اس مرحلے کے ختم ہونے کے بعد ان دھاگوں کو سوکھنے کے لیئے چھوڑ دیا جاتا ہے جب یہ دھاگے اچھی طرح سوکھ جاتے ہیں تو پھر اسے چرخی پر یا ایک گولے کی شکل میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور جب یہ تیار ہوتا ہے تو اس کی دھار کو چیک کرنے کے لیئے اس تیار مانجھے کو کسی دوسرے مانجھے سے ٹکرایا جاتا ہے اور وہ معمولی سی رگڑ سے دوسرے مانجھے کو کاٹ دیتا ہے ۔
پتنگ کے دنیا میں بہت سے نام ہیں لیکن وطن عزیز پاکستان میں زیادہ تر لوگ پتنگ اور گڈی یا گڈے کے نام سے زکر کرتے ہیں ۔اب آتے ہیں بلاگ لکھنے کے اصل مقصد کی طرف آپ نے یہ سوالیہ جملہ تو ضرور سنا ہوگا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی یا انڈہ اب ہم سوچتے ہی رہتے ہیں کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں انڈہ پہلے آیا یا مرغی لیکن جو چیز انسان نے قدرت کی جانب سے عطاء کردہ عقل اور علم سے تیار کی اس کی کوئی نہ کوئی ابتدائی وجہ یا ضرورت ضرور ہوتی ہے اور انسان کی بنائی کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں بلکل اسی طرح میں جب پتنگ کو اڑتے یا اڑاتے دیکھتا تھا تو یہ سوال زہن میں ضرور آتا تھا کہ سب سے پہلے پتنگ کس نے بنائی ہوگی اور اسے یہ بنانے کی کیا سوجھی ہوگی یا پھر جب پہلی بار پتنگ بنائی گئی ہوگئ تو وہ اسی شکل کی ہوگی وغیرہ وغیرہ جب اس بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کی تو بہت ہی دلچسپ اور حیران کن معلومات میسر آئیں ۔
تاریخِ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولّین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا لیکن وہ براہِ راست حملے کا خطرہ مول لینے کی بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودنا پڑے گی اس لیئے اس نے پڑاؤ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑاؤ والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیئے تاکہ اسے ہوا کا دباؤ حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہوگا اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا۔یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی پھر قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استمال کے لیئے کی جانے لگی جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی کے لیئے استمال کی گئی اپنے ساتھیوں کو اپنے ہونے کی جگہ بتانے کے لیئے پتنگیں اڑائی گئیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ ان پتنگوں سے پہنچائے گئے پھر اسکے بعد چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا۔
وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے جسکی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا اور اسے برا شگون سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑ لیا۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لئے سپاہیوں کو بہت سمجھایا بجھایا لیکن وہ مان کے نہ دئیے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی اور اسکی دم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے، اور اسطرح محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لڑائی جیت گئی۔فوج کے بعد یہ کارگر نسخہ بودھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لئے عرصہء دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے۔
چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ اُس زمانے میں جاپان میں ایک سخت قانون نافذ ہوگیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعٰلی سِول اور فوجی افسران اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی ۔مشرقِ بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کسطرح برصغیر پاک و ہند پہنچا، اس بارے میں تاریخ کوئی واضح اشارہ نہیں دیتی البتہ اس ملک میں پتنگ بازی کی اولّین دستاویزی شہادتیں مغل دور کی مصوری میں دکھائی دیتی ہیں۔سولھویں صدی کی ان تصویروں میں اکثر یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ عاشقِ زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر لکھ کر ایک پتنگ سے باندھتا ہے ، پھر یہ پتنگ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر کوچہء محبوب کی فضاؤں میں پہنچتی ہے اور معشوقہء دلنواز کی چھت پر منڈلانے لگتی ہے۔
اہلِ یورپ نے پتنگوں کا احوال پہلی مرتبہ تیرھویں صدی میں مارکو پولو کے سفر ناموں میں پڑھا۔ اس کے بعد سترھویں صدی میں جاپان سے لوٹنے والے یورپی سیاحوں نے بھی پتنگ بازی کے رنگین قِصے بیان کئے۔ایشا کے برعکس یورپ اور امریکہ میں بیسویں صدی کے آغاز تک پتنگوں کا استعمال تفریح کی بجائے موسمیاتی تحقیق اور جنگی جاسوسی کے لئے ہوتا رہا البتہ پچھلے بیس پچیس برس کے دوران مغربی ملکوں میں اسے تفریح کے طور پر بھی اپنایا گیا ہے اور امریکہ میں تو اب پتنگ بازوں کی ایک قومی انجمن بھی بن چکی ہے۔لیکن گزشتہ ربع صدی کے دوران جس ملک میں یہ تفریح ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے وہ ہے پاکستان ،جہاں اب لاکھوں افراد کا روزگار “گُڈی کاغذ” بانس‘ دھاگے اور مانجھے سے وابستہ ہے لیکن اب اس شغل کو بھی کچھ غیرقانونی طریقوں کے استمال اور ان استمال سے انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے بعد بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے جس سے بسنت کے موسم کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں
گلی محلّے کے کھیل کو عمائدین میں اتنی پذیرائی کیسے مل گئی؟ اسکا جواب شاید ملک کی حالیہ تاریخ میں مل سکتا ہےکہ بھٹو دور کے خاتمے پر‘ سن اسّی کی دہائی میں ادب‘ آرٹ‘ کلچر اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد ہو چکی تھیں۔ فلم اور تھیٹر بھی سخت ترین سینسر کی زد میں تھے۔گھٹن کے اس ماحول میں تفریح کی فطری خواہش اتنی شدید تھی کہ پتنگ بازی کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔
پتنگ کے کھلاڑی ڈھیروں کے حساب سے پتنگیں ، ڈور اور چرخیاں خریدتے نظر آتے ہیں لیکن ہر پتنگ کو تول کر اس کا توازن دیکھ کر کہ یہ کنی تو نہیں کھاتی اور ڈور پر انگلی پھیر کر اندازہ لگاتے ہوۓ کہ اس کا مانجھا نرم تو نہیں پڑ گیا۔ہر موقع اور ہر موسم کے لیے پتنگ کی الگ الگ قسمیں ہیں۔ ایک تو پتنگ ہے اور دوسرے گڈی۔ ماہر کھلاڑی عام طور سے پتنگ یا کُپ اڑاتے ہیں اور اس کے پیچ لڑاتے ہیں۔ پتنگ آٹھ کے ہندسے سے ملتی جلتی شکل کی ہوتی ہے جبکہ ُکپ ایسی پتنگ ہوتی ہے جس کا نچلا حصہ خاصا چوڑا ہوتا ہے۔تکونی شکل کو گڈا یا گڈی کہتے ہیں۔ مذکر گڈے کی آدھی تکون کی چھوٹی سی دم ہوتی ہے جبکہ مؤنث گڈی کی دم ذرا بڑی ہوتی ہے۔ رات کو صرف سفید رنگ کی پتنگ یا گڈی اڑائی جاتی ہے۔ رنگوں ، شکلوں اور پتنگ کی اڑتے وقت آواز کی مناسبت سے اس کی او ربھی قسمیں ہیں جیسے پری، مچھر، تیرا، شسترو، گلہری ، پد وغیرہ۔ مچھر پتنگ ہوا میں اڑتے ہوۓ مچھر کی طرح بھیں بھیں کی آواز پیدا کرتا ہے۔
پتنگ بازی کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ اچھا پتنگ باز جانتا ہے کہ مختلف موسموں میں کس قسم کی پتنگ اڑانی ہے۔ جب ہوا تیز ہو تو چھوٹی پتنگ اور بھاری ڈور استعمال کی جاتی ہے اور جب ہوا ہلکی ہو تو بڑی پتنگ اور ہلکی ڈور۔پتنگ کو ہاتھ سے ناپا جاتا ہے جسے گٹھ کہتے ہیں۔ ایک پتنگ آدھی گٹھ سے لے کر پچاس گٹھ تک ہوسکتی ہے۔ ماہر پتنگ باز عام طور پر پانچ سے آٹھ گٹھ کی پتنگ اڑاتے ہیں۔ پہلے عام طور پر کھلاڑی چار گٹھ کی پتنگ اڑایا کرتے تھے لیکن اب چھوٹی پتنگ اڑانا پنسد نہیں کیا جاتا۔پتنگ کاغذ اور بانس کی لکڑی سے بنائی جاتی ہے۔ اچھی پتنگ کا کاغذ جرمنی سے آتا بنگلہ دیش سے آیا ہوا بانس پتنگ بنانے کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ایک عام کاریگر ایک دن میں درجنوں پتنگیں بنالیتا ہےلیکن جو ماہرین ہیں اور پیشہ ور کھلاڑیوں کے لیے پتنگیں بناتے ہیں وہ ایک دن میں دو سے زیادہ پتنگیں نہیں بناتے۔ اب بڑےکاروباری اداروں کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ وہ پتنگوں کو مشینوں سے بڑے پیمانے پر بنائیں اور اسے دستکاری سے صنعت بنادیں۔
اساتذہ فن کا کہنا ہے کہ ایک اچھی پتنگ وہ ہے جو اڑانے والے کی تابعدار ہو۔ اس کو بننے والا اس میں یہ خوبی پیدا کرتا ہے کہ یہ پتنگ فضا میں بلند ہوکر اُڑانے والے کا کہنا مانےایک اچھی پتنگ وہ ہے جو اس سمت میں جاۓ جس سمت میں اسے اڑانے والا لے جانا چاہتا ہے۔ اچھی پتنگ بنانے گُر اساتذہ کے سینوں میں ہیں۔ جو بات سب کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ پتنگ کا معیار اس کے چار بانس کی لکڑیوں میں ہے جس سے کاغذ کو چپکایا جاتا ہے۔ اس بانس کو سرسوں کے تیل میں بھگو کر رکھا جاتا ہے تاکہ اس میں لچک پیدا ہو اور پھر انھیں سُکھانے کے لیے دھوپ میں یا گرمایش کے قریب رکھا جاتا ہے۔ بانس کو جس نفاست سے چھیلا جاۓ گا پتنگ اتنی اچھی بنے گی۔ بانس کو اس طرح چھیلا جاۓ اور انہیں اس طرح موڑا جاۓ کہ بانس کے اندر کا گودا خراب نہ ہوجاۓ۔ پتنگ کی طاقت کا انحصار بانس کے اسی گودے پر تو ہے۔ جو عام پتنگ بنتی ہے اس میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا اس لیے اس میں اور کھلاڑیوں کی پتنگ کے معیار میں فرق ہوتا ہے۔پتنگ بازی ایک کھیل ہے ، ایک آرٹ ہے جس کو سیکھنا پڑتا ہے اور مشق کرنی پڑتی ہے۔ اس کے مقابلوں کے لیے قواعد و ضوابط ہیں۔
ایک پتنگ کو ہوا میں اڑاتے ہوۓ ایک یا دو میل دور تک لے جانا ایک مہارت کا کام ہے۔ اس کے لیے ڈور کو خاص طریقے سے سنبھالنا پڑتا ہے جس میں انگلیاں، ہاتھ اور بازو کی حرکت پر قابو رکھنا ہوتا ہے۔
پتنگ بازی کے مقابلہ دو پتنگ باز ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹے سے کپڑے پر کھڑے ہوتے ہیں اور اس سے باہر نہیں جاسکتے۔ وہ دونوں اپنی پتنگوں کی ڈوریں ایک دوسرے پر سے گزارتے ہیں اور یوں پتنگوں کا پیچ پڑجاتا ہے۔ اس مقابلہ میں ایک پتنگ باز اپنی پتنگ اور ڈور کو آگے کی طرف لےجاسکتا ہے لیکن پیچھے کی طرف نہیں لاسکتا۔ جس کی پتنگ کی ڈور کٹ جاۓ وہ جیت گیا۔ اس مقابلہ میں پتنگ باز ایک جھٹکے سے دوسرے کی پتنگ کی ڈور نہیں کاٹ سکتا۔ پتنگ باز صرف اپنی ڈور کو ایسے تیزی سے آگے بڑھا سکتا ہے کہ دوسری ڈور پر ا س کی کاٹ لگے اوروہ کٹ جاۓ۔
پتنگ بازی کے دنگلوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک تو روایتی قسم ہے جو آگو دنگل کہلاتا ہے جس میں دو پتنگ باز ایک سال تک ایک دوسرے سے پیچ لڑاتے رہتے ہیں اور بوں مقاموں میں سے جو سب سے زیادہ پیچ جیتے وہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ابھی چند روز پہلے چین کے شہر بیجنگ کے ایکسپو پارک میں ایک عالمی پتنگ میلہ 2015 منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے پتنگ بازی کے شوقین حضرات نے شرکت کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔اسی عالمی پتنگ میلے کے حوالے سے اپنے ایک چینی دوست سے بات چیت کے دوران چینیوں کے پتنگ کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ عقائد جاننے کا موقع ملا کہ چینیوں کا عقیدہ ہے کہ پتنگ جتنی اونچی اڑے گی آپ کی پریشانیاں آپ سے اتنی ہی دور ہوجائینگی، کسی کی چھت پر کٹی پتنگ گرجائے تو اسے بدشگونی سمجھا جاتا ہے اور اس پتنگ کو پھاڑ کر جلادیا جاتا ہے ۔
ہمارے وطن عزیز پاکستان میں بدقسمتی سے اس مشغلے کا کئی غیرقانونی طریقوں کے استمال کی وجہ سے زوال شروع ہوچکا اور اب اس پتنگ بازی پر کئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی اب چین کا رخ کرتے ہیں ہر کھیل کے قوائد و ضوابط ہوتے ہیں اگر ان پر سختی سے عمل کیا اور کروایا جائے نہ کہ اس پر پابندی لگادی جائے اگر پاکستان میں بھی پتنگ بازی کے لیئے سال میں ایک دفعہ کوئی کھلی جگہ مخصوص کردی جائے اور پتنگ کی ڈور کی حد پیمائیش متعین کردی جائے تو اس کھیل کو جو اب ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے نہ صرف بچایا جاسکتا ہے بلکہ غیر ملکی سیاح کے لیے باعث کشش ہوسکتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے اور پوری دنیا میں ہماری ثقافت متعا رف کرائی جاسکتی ہے ۔
تحریر : محمد ارشد قریشی