تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستان قانون اور آئین ہر شہری کو تحفظ فراہم کرتاہے۔جس کی بنا ء پر آج پاکستان کا نام پوری دنیا میںعزیت اور احترام سے لیاجاتاہے۔دوسری جانب پاکستان میں شروع دن سے ہی چند خاندانوں کی سیاست اور حکمرانی قائم ہے۔اور ان لوگوں کا اپنے قانون اور آئین ہے ۔گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا سعودی حکمرانوں کے ساتھ ملاقات میں سلمان شہاز کیوں موجود تھے؟۔ پاکستان میں شریف خاندان کی بادشاہت ہے جو سرکاری ملاقاتوں میں بھی اپنی اولاد کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ سی پیک متنازعہ ہونے کی ایک وجہ سلمان شہباز ہیں۔ عمران خان اور سلمان شہباز کی سیاسی جنگ شروع ہوچکی ہے ۔لگتاہے کہ اس جنگ سے کئی مزدوں مزیذ روزگاہ سے محروم ہو جائیں گے۔ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے بابا اشفاق احمدنے اپنی ایک تحریر میں انٹنی حضرت صالح کاذکرکیا تھاکہ جو انٹنی حضرت صالح کی تھی ، وہ ایک معجزہ کے طور پر وجود میں آئی تھی قوم ثمود کی طرف صالح کو اللہ نے بھیجا تھا اور وہ بہت اونچے درجے کے نبی تھے انہیں حکم ہوا کہ جا کر اس بے ہودہ قو، کو راہ راست پر لائو۔ وہ بڑی بگڑی قوم تھی بیشتر میں خرابی یہ تھی کہ ان کے پاس دولت بہت زیادہ تھی علاقہ سرسبز تھا اردن کے علاقے سے لیکر عرب تک ، اور مدینے شریف سے لیکر تبوک کے درمیانی علاقے میں ـ وہاں جا کر ثمود کی جغرافیائی حد ختم ہوتی ہے۔
لمبا چوڑا علاقہ تھا اور ثمود کے لوگ اپنے تئیں تکبر کے مارے ہوئے اور اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہوئے اونچے پہاڑوں کو تراش کر چھینی ہتھوڑی سے اسے چھیل چھیل کر ان پہاڑوں کے اندر نہایت خوب صورت محل بناتے تھےـ یہ ان کا بڑا کمال تھا یعنی انہو نے کوئی لینٹر نہیں ڈالا کوئی اینٹ و لنٹر جمع نہیں کیے ، پہاڑ کو چھیلنا کھرچنا شروع کر دیا ، اور اس کے اندر ایسے اعلی درجے کے کمرے بنائے ستون محرابیں بنائیں کہ وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابھی اگر چاہیں تو اردن کے علاقے میں جا کر دیکھ سکتے ہیں سلائیڈیں بھی ملی ہیںـ اگر اپکو جغرافیے کا شوق ہے تو جیو گرافک میگزین میں گاہے بگاہے ان محلات کی وہ تصویریں فوتوگراف کہ صورت میں اور ڈرائینگ کی صورت میں آتی رہتی ہیں۔
تو وہ لوگ بڑے معتبر لوگ تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے تب اللہ نے ایک پاکیزہ نبی حضرت صالح کو ان کے پاس بھیجا کہ جا کر نا کو اللہ کا پیغام دیں تو ان لوگوں کو نبیوں کے اوپر جو اعتراض رہا تھا جتنے بھی نبی ان کے پاس بھیجے گئے ہیں ، ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ آپ کیسے نبی ہو سکتے ہو ؟ آپ ہمارے جیسے انسان ہو ـ اور کہتے تھے کہ تو بازاروں میں چلتا ہے ، اور تیسری بات کہ تو غریب آدمی ہے اور غریب آدمی کیسے نبی ہو سکتا ہے؟ نبی تو بہت امید آدمی کو ہان چاہیے ـ متکبر کو ہونا چاہیے ـ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ تم کیسے نبی ہو سکتے تمھارے بازئوں میں تو سونے کے کنگن بھی نہیں ـ اور جتنے پیغمبر تھے ان کے ساتھ بھی یہی تھا ـ نوح علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی تھا ـ وہ یہی بات دہراتے کہ اگر تو بلند ہوتا اور تیرے اتنے اونچے محل ہوتے جتنے لوگوں کے پاس ہیں تم نے بھی ایسی عمارتیں بنائی ہوتیں اے صالح تو ہم تم کو پیغمبر مان لیتے ـ لیکن اب تو ایک عام آدمی ہے ـ ٹھیک ہے بھلے آدمی ہو لیکن تمھاری اقتصادی ھالت ٹھیک نہیں ہے۔
حضرت صالح نے فرمایا ، آئو تم کون سا معجزہ چاہتے ہو لیکن انہوں نے warn کیا کہ معجزہ رنما ہو جانے کے بعد پھر اگر تم نے خدا کو اور اس کے پیغمبر کو نہ مانا تو پھر تم پر عائب آئے گا ـ خوش نصیب ہیں وہ قومیں جنہوں نے معجزہ طلب نہیں کیا ، لڑائی جھگڑے کرتے رہے لیکن معجزہ ہیں مانگا وہ بچ گئے اگر معجزہ مابگ لیا جائے اور معجزہ طلب کر لیا جائے اور وہ رونما ہو جائے ، پھر بھی نہ مانا جائے تو عائب طے شدہ بات ہے ، انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ہم برداشت کر لیں گے لیکن اگر و معجزہ رونما کرے گا تو ــ دیکھے ان ظالموں نے معجزہ طلب کیا انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ سامنے چٹیل پہاڑ ہے اور وہ بہت چلنا اور مضبوط ہے ، کروڑوں سال سے اپنی جگہ پر مضبوط ہے ہم یہ چاہتے ہی کہ تیرا اللہ اس پہاڑ سے اونٹنی پیدا کر دے ـ اب پہاڑ کا اور اونٹ کا کوئی تعلق نہیں ، اور وہ اونٹنی آئے ہماری بستی میں رہے ـ تو پھر ہم مانیں گے تم پیغمبر ہوجنانچہ انہوں نے دعا کی، اور اللہ سے اس معجزے کو طلب کیا کہ اگر یہ لوگ اس طرح سے ہی مان جائیں تو ان کا فائدہ ہے ان چٹیل چکنے پہاڑوں کے درمیاں میں سے اللہ کے حکم سے اونٹنی نمودار ہوئی اور ان کے آگے چلتی آ رہی ہے ـ پہاڑوں کا قد بت بھی بہت بلند تھا۔
وہ اونٹنی بھی چاندی کا ایک مرقع نظر آتی تھی ، چلتی ہوئی آ گئی اوربستی میں آ کر کھڑی ہو گئی ـ اور ظاہر ہے ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی ہو گی ، وہاں آ کر ـ ان لوگوں نے اسے دیکھا اور حیران و ششدر رہ بھی ہوئے کہ اونٹنی تو پیدا بھی ہو گئی ہے لیکن اب ہم اس کو کیا کریںـ تو صالح نے فرمایا تمھاری خواہش کے مطابق ، تمھاری آرزو کے مطابق یہ اونٹنی انہی پہاڑوں کے درمیاں میں سے پیدا ہو کر آپ کے درمیان آگئی ہے اور اب یہ آپ کی مہمان ہے ـ اب اللہ نے ایک شرط عائد کی ہے کہ بستی کے کونیں سے یہ پانی پئے گی ، اور اس کا ایک دن مقرر ہو گا ، اس دن وہان سے دوسرا آدمی پانی نہیں لے سکے گا، نہ مویشی نہ چرند نہ پرند نہ انسانـ اونتنی ہماری معزز ترین مہمان ہے ـ اسکی دیکھ بھال کرنا ہمارا فرض ہے ـ انہوں نے کہا بہت اچھا ہم ایسا ہی کریں گے۔
کچھ دن تو انہوں نے اونٹنی کو برداشت کیا اور باری کے مطابق جو دن مقرر تھا پانی دیتے رہے لیکن پھر انسان انسان ہے ان میں ایک ایسا آدمی پیدا ہوا جس نے مزید آٹھ ادمیون کو ورغلایا اور وہ نو ہوگئے ـ انہوں نے کہا ، یہ کیا شرط ہے ہم نے اپنے آپ پر عائد کر لی ہے اور اس اونٹنی کی کیا حیثیت ہے، ہم اس کا کسی نہ کسی طرھ سے قلع قمع کر دیں ـ چنانچہ انہوں نے رات کے وقت اس اونٹنی کی کانچیں کاٹ دیں ، کو کہ ٹخنوں کے اوپر کا حصہ ہوتا ہے ـ تو اونٹنی ظاہر ہے وہاں اپاہچ ہو کر بیٹھ گئی ـ صبح کو جب سب بیدار ہوئے ، اور اونٹنی کے پانی پینے کی باری تھی ، لیکن وہ تشریف نہ لائی ، کیونکہ وہ وہاں نہ تھی ـجب حضرت صالح کو علم ہوا یہ واقعہ ہوا ہے ـ تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا ، یہ بہت برا ہوا ہے نہ صرف تم نے معجزے کو جھٹلایا بلکہ اس مہمان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
اب تین روز کے اندر اندر تمھارا قلع قمع ہو جائے گا اور تم نیست و نابود ہو جائو گے اور پھر آنے والی تاریخ میں لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر بتایا کریں گے کہ یہ ثمود کے رہنے کی جگہ تھی اور یہ ان کے محل تھے جو وہران پڑے تھے اور قیامت تک ایسے ہی وہران رہیں گے ـچنانچہ جیسا فرمایا گیا تھا ویسا ہی ہوا ، جیسے کہ باتاتے ہیں کہ ان کے منہ پیلے پو گئے ـ اگلے دن بے حد سرخ ہو گئے اور پھر کالےـ پھر ایسی ایک چنگھاڑ جیسے اجکل بم بنے ہوتے ہیں ، چنگھاڑ آئی ،وہ سارے کے سارے اوندھے منہ گر گئے نینست و نابود ہو گئے تم لوگ بہت بے خیال ہو گئے ہو اور تم لوگوں نے توجہ دینی چھوڑ دی ہے اور تم ایک بہت خطرناک منزل کی طرف رجوع کر رہے ہو ـ دیکھو کہنے لگے ، میں تم کو بتاتا ہو یہ پاکستان ملک ایک معجزہ ہے ، یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے ـ تم بار بار کہا کرتے ہو ہم نے یہ کیا۔
پھر یہ کیا ، پھر سیاست کے میدان میں یہ کیا ، پھر اپنے قائد کے پیچھے چلے ، ہم نے بڑی قربانیاں دیں ہیں ـ ایسے مت کہو ، پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ تھا ، اتنا بڑہ معجزہ تھا اتنا بڑا معجزہ ہے جتنا بڑا قوم ثمود کے لیے اونٹنی کے پیدا ہونے کا تھا اگر تم پاکستان کو حضرت صالح کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گے ، نہ تم رہو گے نہ تمھاری یادیں رہیں گی ، میرے گلے میںموجود صافے کو پکڑ کر کحینچ رہے تھے ـ آپ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میری کیا کیفیت ہو گی ، انہوں نے کہا کہ تم نے صالح کی اونٹنی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ، کئی برس گزر گئے تم نے اس کے ساتھ وہی رویہ رکھا ہوا ہے۔
جو قوم ثمود نے کیا تھا ـ اندر کے رہنے والوں اور باہر کے رہنے والوں دونوں کو warn کرتا ہوں تم سنبھل جائو ورنہ وقت کم ہے ، اس اونٹنی سے جو تم نے چھینا ہے اور جو لوٹا ہے ، اندر کے رہنے والو اس کو لوتائو ، اور اس کو دو ، اور باہر کے رہنے والو سائوتھ ایشیا میں سارے ملکوں کو وارن کرتا ہوں، اس کو کوئی عام سا ، معمولی سا جغرافیائی ملک سمجھنا چھوڑ دیں ، یہ حضرت صالح کی اونٹنی ہے ہم پر اس کا ادب اور احترام واجب ہے ـ اس کو معمولی ملک نہ سمجھنا اور اس کی طرف رخ کر کے کحھڑے رہنا اور اب تک جو کوتاہیاں ہوئیں ہیں ان کی معافی مانگتے رہو۔
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ