تحریر: سجاد گل
محترم جناب قائداعظم محمد علی جناح صاحب آپ کی خیر و عافیت مطلوب ہے،اور پُر امید ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے، مگر افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے میں خیریت سے نہیں ہوں ، اتنا عرصہ خط نہ لکھنے کی وجہ بھی یہی تھی،دل اب بھی یہی چاہتا تھا کہ آپ کو اپنے حالات و اقعات سے آگاہی دے کر پریشانی میں مبتلاء نہ کروں ،مگراپنے بیٹوں پنجاب،سندھ، کے پی کے ،بلوچستان اور پیاری بیٹیوںکشمیرو گلگت کے پر زور اسرارپر آج کاغذ قلم تھام کر خط لکھنے بیٹھ گیا۔ آپ کے شہرِ جہاں سے کوچ کے بعدمجھ پر کیا کیا بیتی کچھ نہ پوچھے ،جلد ہی لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا،آپ سمجھ تو گئے ہوں کہ یہ سازش کس کی تھی،کوئی شک نہیں کے بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان اس عمل سے بدامنی اور غیر مستحکمی کا شکار ہو کر اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا،مگر کچھ پُراخلاص اہل کرم کی وجہ سے اسکی یہ خواہش حسرت بن کر اسکے سینہ و قلب میں ہی دم توڑ گئی،
اس کے بعد مجھ پر کچھ ایسے لوگ مسلط کئے گے جن کا وجود مجھ پر انتہائی گراں ثابت ہوا ،ان نالائق حکمرانوں نے میرے بیٹے مشرقی پاکستان کے معاملے میں ایسے نعرے لگائے ”اِدھر ہم …اُدھر تم”کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ مجھے کلمہ ِتوحید کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا،اس روح سے ہم تم کی کہانی کا کیا جواز؟نہایت افسوس اور اور دل پر ہاتھ رکھ کر لکھنا پڑ رہا ہے کہ اسکا نتیجہ یہ ہو اکہ مجھے اپنے عزیز تر بیٹے بنگال (مشرقی پاکستان) سے ہاتھ دھونے پڑے اورمیرا لخت جگر مجھ سے چھن گیا،جس پر گائے کے پجاری نے جشن مناتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے قائداعظم کے دو قومی نظریہ کو پاش پاش کر کے اپنے کلیجے ٹھنڈے کر لئے، آپ یقین کریں میری تو شرم کے مارے آنکھیں ہی جھک گئیں،اسکے بعد قوم نے کچھ کچھ عقل کے ناخن لئے اور کافی حد تک میں بہتری کی جانب رواں دواںہوا،مگر پہ در پہ آنے والے بے ایمان بے شرم بے غیرت بے ضمیر،ڈکٹیٹرڈکیت کرپٹ،لٹیرے ٹھگے جگے، بدمعاش ٹیکس چور اوروطن فروش حکمرانوں نے میرا ستیا ناس کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی،انکی غلط حکمت عملیوں اور روشوں کی وجہ سے قوم اخلاقی طور پر اتنی گر گئی ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے،
گردشِ ایام نے مجھے وہ منظر بھی دیکھایا کہ دو وقت کی روٹی کے لئے صنفِ نازک جسم فروشی کرنے دلالوں کے کوٹھوں پر جا پہنچی، پچاس سالہ بوڑھی ماں جب اپنے بچوں کو تین دن کھانا نہ دے سکی اور فاقے کا یہ عالم برداشت کرتے کرتے تھک گئی تو نٹی جٹی کے پل سے اپنے بچوں کو نیچے پھینکنے کے بعد خود بھی کود پڑی اور جاتے جاتے یہ کہہ گئی ،خدایا اگر میں نے اپنے بچوں کو مار کے ظلم کیا ہے تو تُو نے بھی ہمیں پاکستان میں پیدا کر کے ظلم کیا ہے،جب ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ اپنی تین ماہ کی فیس ادا نہ کر سکا تو اسے کالج سے نکال دیا گیا،اور اس نے بتیس بورپستول لے کر ڈکیتیاں شروع کر دیں اور اسکے ضمیرنے اسے ناخن برابر ملامت بھی نہیں کیا،پتہ ہے کیوں؟کیونکہ وہ سمجھتا ہے اس ملک میں اپنا حق لینے کا یہی بہترین راستہ ہے،قانون کی بات کی جائے تو قانون کے رکھوالے اب مجرموں کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں،خاکی پینٹ اور کالی شرٹ والوں کو لوگ اپنا محافظ نہیں بلکہ اپنا عدو و دشمن سمجھتے ہیں،رشوت تو گویا اس محکمے کا حق بن گیا ہے، غریب آدمی کی ایف آئی آر تک نہیں کاٹی جاتی، البتہ پولیس مقابلے زوروں پر ہیں، پچھلے دنوں بھی ایک پولیس مقابلے میں چار خطر ناک دہشتگرد مارے گے، مزے کی بات یہ کہ چاروں دہشتگرد ہتھکڑیاں پہن کر مقابلہ کر رہے تھے، پولیس پر آدمی کی نظر پڑی نہیں کہ دل میں اسکے لئے کوئی بے ہودہ گالی تول دی،،ان کی حرکتیں ہی کچھ ایسی ہیں۔
سرگودھا کے عارف نائی نے بھوک کے مارے بکری کا ایک بچہ چوری کر لیا،اسے تین سال کی قید سنا دی گئی ،اس کے برعکس بڑے بڑے ٹیکس چور ،ملکی دولت لوٹنے والے اور عوام کا خون نچوڑ کر دولت باہر بھیجنے والے اور لاشوں پر سیاست کرنے والے،ان بد معاشوں کی عزت ہے،لوگ انہیں دور سے سلام کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگ آج مجھ پر حکمرانی کر رہے ہیں،ان اصل چوروں کے کرتوتوں پر قانون حرکت میں آتا ہے نہ کوئی سزا دی جاتی ہے،بس اسی دوہرے معیار کی ریل پھیل ہے،اسی منافقت کا راج ہے،اس بے انصافی اور لاقانونیت کا طوفان بدتمیزی برپا ہے،اسی ظلم و بربریت کی انتہائیں آسمان سے گفت وشنید ہیں،بعض اوقات تو میں خود بھی سوچتا ہوں کہ اس سب کے باوجود میں اب تک کیسے جی رہا ہوں،جینے میں خاص مزہ نہیں بس سسک سسک کر جی رہا ہوں ،بھلا اسطرح سسک سسک کے جینے میں مزہ ہو بھی کیسے ؟ ان حالات نے مجھے شاعر بنا دیا،لگے ہاتھوں حالِ دل شاعری کی زبان میں بھی سن لیں،
میںجی رہا ہوں بے مزا سی زندگی
دکھ در د اور اک سزا سی زندگی
ان غدار حکمرانوں کی غداری کے باعث اور ان منافق سیاست دانوں کی منافقت کی وجہ سے، اہل جہاں کی نظروں کے سامنے میں اپنے آپ کو کمتر سا محسوس کرتا ہوں ،لوگ مجھ پر ہنستے ہیں،دشمن تماشے بناتے ہیں،میرے بیٹوں اور بیٹیوں کی کوئی عزت نہیں، کوئی مثبت پہچان نہیں، پہچان ہے تو ایسی لوگ دیکھتے ہی کہتے ہیں ،دیکھو آگیا پاکستانی ،یہ لوگ بے ایمان ہیں منافق ہیں، خدا کی قسم اگر حقیقت کے اسباق کو ٹٹولا جائے تو ایسی بات نہیں میرے بیٹے اور بیٹیاں بہت اعلیٰ معیار کے عامل ہیں،بس ان حکمرانوں کی وجہ سے میری عزت خاک میں ملی ہوئی ہے،میں شرمندہ و شرمسار ہوں توانہی حکمرانوں کی وجہ سے ، مجھ پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو انہی بے حس حکمرانوں کے سبب ، مجھے برا بھلا کہا جاتا ہے تو انہی بے ضمیر حکمرانوں کی بدولت۔
میرے خیر خواہ وغم خوار کب تم ہوئے
ہاں مگر اس حالت کا سبب تم ہو ئے
اب آپ ہی بتائیے میں ان پست وتنزل حالات میں کیا کروں؟ میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا ،امید ہے آپ جلد خط کا جواب دے کر مجھے اپنے انمول مشوروں سے مستفید فرمائیں گے۔
تحریر: سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009