تحریر : عقیل خان
اگست کا مہینہ ہماری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہ وہ ماہ ہے جب دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک چاند کی مانند روشن ہو کر ابھرا۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں انگلستان کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کا نام پاکستان ہے۔ قائداعظم کی انتھک کوششوں کی بدولت آج ہم ایک آزاد ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ قائداعظم کا پاکستان حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے قائداعظم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا وہ مقصد آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
ایک فطری عمل ہے کہ جس کا گھر نہیں ہوتا اس کے دل میں آرزو ہی رہتی ہے کہ کاش میرا اپنا ذاتی گھر ہو ۔ جب وہ گھر حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ یہی حال ہمارے مسلمان بھائیوں کا تھا جو انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنے گھر کی کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کی یہ خواہش قائدا عظم محمدعلی جناح نے پوری کردی مگر افسوس قائداعظم کی خواہش ہم آج تک پوری نہ کرسکے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں کو آزما سکیں”۔
مگر آج ہم اپنے اللہ ، رسول ، کتاب کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کے فرمان کو فراموش کرچکے ہیں۔ آج ہم اسلامی اصولوں کی بجائے یہودی کے بنائے ہوئے اصولوں کے تابع ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے صرف اللہ کے نام کی خاطر اپناگھر بار، جائیدادیں چھوڑیں، ہزاروں لوگ شہید ہوئے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں لٹیںصرف اس لئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے دین اسلام کے مطابق زندگی گزارسکیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ میرا پاکستان کیسا ہو؟ ہر بندے کی اپنی سوچ ہے کوئی مثبت اور کوئی منفی سوچ رکھتا ہے۔ کسی کی سوچ پر کوئی پابندی نہیں۔ میں اور میری پاکستانی عوام کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔اس کا جواب میں کچھ یوں دونگا کہ میرا پاکستان ایسا ہو کہ ہر کوئی اس کی مثال دے۔یہ دنیا کے افق پر ایسا ابھرے کہ ہرکوئی چاند کی مانند اس کو دیکھے اور اس کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرے۔ میرا پاکستان اس طرح کا ہو کہ اس کویک نظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آئیں۔مگر یہ کیسے ممکن ہے اس کو تو دیمک کی طرح چاٹنے والے اس کی جڑ وںمیں بیٹھے ہیں۔ اس کو سانپ کی طرح ڈسنے کے لیے آستین میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اس پاکستان کی رکھوالی کے لیے چوروں کو پہرے دار بنا دیا ہے۔ عصمت دری کے پیاسے لوگ اس کے محافظ بن گئے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم سوچتے ہیں کہ پاکستان ایک تریافتہ ملک بن جائے، خوشحال ملک بن جائے، امن کا گہوارہ بن جائے۔میری ہی نہیں ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان ایسا ہوکہ ہرآنکھ دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے۔ اس کے لیے ہمیں خود آگے بڑھنا ہو گا۔
پاکستان میں شرح خواندگی سوفیصد ہو۔ جب شرح خواندگی سو فیصد ہوگی تو پھر پاکستان میں خوشحالی آئے گی۔ اس کے لیے ہم پورے پاکستان میں تعلیمی نظام یکساں کرنا ہوگا۔ امتحانات ایک ساتھ کرانا ہونگے۔ نتائج ایک ساتھ آؤٹ کرنا ہونگے تاکہ جس کو جہاں تعلیم حاصل کرنا مقصود ہو وہ کوئی بھی ٹائم ضائع کئے بغیر اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ انصاف کا بول بالا کرناہوگا۔ کسی بھی طرح کسی امیر کو غریب پر ،کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں ملنی چاہیے۔ حکمران سے لیکر غریب کے لیے ایک ساقانون ہوجس پر سب کو یکساں سزا ملنی چاہیے۔ہر ایک کو انصاف اس کے گھر پر ملنا چاہیے۔ وہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود بھی قانون کا احترام کریں۔ نہ ہم خود کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کریں اور نہ کسی کو کرنے دیں بلکہ اپنے اوردوسرے کے حق کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
قرآن میں ارشاد ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والادونوں دوزخی ہیںتو پھر پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے پھر یہاں رشوت عام کیوں؟بڑے سے بڑاکام اور چھوٹے سے چھوٹا کام ہم رشوت دیکر کرالیتے ہیں۔ یہاں پر جو بھی رشوت لے یا دے اس کو اسلام کے قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے تاکہ میرے قائد کی روح بھی خوش ہو اور ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہو۔ مجھے ایک واقعہ یادآرہا ہے کہ ایک کشمیر ی نوجوان پاکستان آیا تو وہ پاکستان کو دیکھ کر بہت افسردہ ہوا،اس نے کہا کہ ہم کشمیر میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ہر کام اسلام کے قوانین کے مطابق ہوتا ہوگا، وہاں پر کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا ہوگا۔،
حرام چیز سے دوری ہوگی۔پاکستان میں خواتین باپردہ ہونگی۔بے حیائی نام کی کوئی چیز نہ ہوگی، رشوت لینا اور دینا جرم ہوگا۔ نمازکے اوقات میں ہرچیز بند ہوگی ، مساجد لوگوں سے بھری ہونگی مگر افسوس جب آج پاکستان دیکھا تو سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔اس کی بات سن کر دکھ تو کیا آنکھیں نم ہوگئیںکہ ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کا کیا خیال تھا اور آج ان کے سامنے ہمارا کردار کیسا نکلا۔ میرا پاکستان ملاوٹ سے پاک ہو ، ملاوٹ چیزوں کی نہیں بلکہ ہمارے کردارکی بھی ہے ۔ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ ادوایات بھی خالصتاً فروخت کرنی چاہیے تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں مضبوط اور توانا ہوں۔ ہمارا کردار ایک دوسرے کے سامنے ایک سا ہونا چاہیے یہ نہیں کہ سامنے کچھ اور پیچھے کچھ۔
ویسے تو اور بہت سی چیزیں ہیں جن پر ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر ان سب کے ساتھ جو بہت اہم اور ضروری ہے وہ ہے ہمارا مذہب اسلام۔ ہم کو مسلمان ہونے کے ناطے اپنے مذہب کو پوری دنیا میں مثال بن پیش کرنا ہوگا تاکہ دنیا پر یہ ثابت ہو کہ اگر کوئی دین ، مذہب ہے تو وہ صرف اسلام۔ ہمیں اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ ساتھ ایک کتاب(قرآن) کا تھامنا ہوگا۔ ہمیں اپنے آپ کو فرقہ واریت سے دور رکھنا ہوگا۔ حق و سچ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور قرآن مجید وہ کتاب ہے جس میں ہر وہ چیز موجود ہے جو سائنسدانوں جاننے کے لیے برسوں تحقیق کرتے ہیں۔
میں چاہتا ہوں میرا پاکستان ایسا ہو کہ اس میں کبھی فرقہ واریت کے نام جھگڑا نہ ہو۔ دہشت گردی کے نام پر میرے مذہب اور میرے وطن پر کبھی داغ نہ لگے۔ ہم ایک دوسرے کا حق نہ ماریںبلکہ دکھ اور تکلیف میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں۔ کاش یہ جوکچھ میں نے لکھا ہواور میرا رب اس کو قبول کرتے ہوئے میرا پاکستان ایسے بنا دے کہ ہم سب گردن اٹھا کر پوری دنیا میں جی سکیں۔ لوگ میرے پاکستان کی مثالیں دیں اور ہمارے کردار کو اپنائیں۔ اللہ ہم سب کو ایسا بننے اور پاکستان کا نام روشن کرنے کی توفیق دے آمین۔
تحریر : عقیل خان