تحریر: ایم سرور صدیقی
پاکستان کی تاریخ کے تین کردار ایسے ہیں جن کو سامراجی طاقتوں اور اسلام دشمنوں نے عبرت کا نشان بنانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کا جرم کیا تھا؟ کیا اپنے وطن سے محبت اور اس کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانا نا قابل ِ معافی جرم ہے شاید اسی لئے اقبال نے کہا تھا
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگ ِ مفا جات
انتہا پسند ہندو بھارت کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کررہے تھے ان کے بڑے بڑے جلوس، مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی، مساجد کے آگے بھنگڑے اور متعصبانہ رویہ دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا جیسے بد مست ہاتھی جھومتے جھامتے سڑکوں پر نکل آئے ہوں اقلیتیں بالخصوص مسلمان ڈر اور خوف سے سہمے جارہے تھے۔
ہزاروںانتہا پسندہندو۔۔۔ بھارتی سرکار کی طرف سے کئے گئے ایٹمی دھماکوں کی خوشی منارہے تھے ۔۔۔اس حقیقت سے کسی کو انکار محال ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اس کا جنگی جنون، بر صغیرمیں تھانیدار بننے کی خواہش اور فوجی برتری نے ایک پر امن خطے میں مسائل پیدا کرکے رکھ دئیے ہیں 1966ء ہی سے بھارت نے ایٹمی تجربات شروع کردئیے تھے طاقت کے توازن کیلئے ضروری ہے کہ دوسرے ممالک بھی خود کو ہر لحاظ سے مستحکم بنائیں اسی بنیادپرحالات کی نزاکت کااحساس کرتے ہوئے 1973ء میں اس وقت کے پاکستانی حکمران ذوالفقارعلی بھٹونے فرانس سے ایٹمی پراسیسنگ پلانٹ کے حصول کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا 2 سال بعدہی امریکی کانگریس نے یہ خبر سناکر دنیاکو حیران کردیا کہ پاکستان فرانس سے افٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ کرنے والاہے اس کیلئے 300 ملین ڈالر درکار تھے۔
دوست اسلامی ممالک لیبیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عراق نے پاکستان کو اپنے بھرپور معاونت کی پیش کش کی ان دنوں ذوالفقارعلی بھٹو خود ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین تھے انہوں نے رقم کے حصول کیلئے غلام اسحق خان، آغا شاہی،اے جی این قاضی، منیراحمد اور عزیز احمدکو خصوصی مشن پر ان ممالک روانہ کیا۔ بھٹونے پرجوش اندازمیں کہا تھا ہم گھاس کھا لیں گے لیکن پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رہے گا یہ بات قومی مفادمیں نہیں کہ ہمارے پاس بندوق تو موجود ہو لیکن کارتوس نہ ہوں۔ ذوالفقارعلی بھٹونے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو اکھٹا کرنا شروع کیا اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈمیں خدمات انجام دے رہے تھے۔
وہ 30000 ماہانہ کی تنخواہ چھوڑ کر بھٹو کے ایک خط پر وطن کی خدمت کیلئے پاکستان آگئے یہاں انہیں کہوٹہ لیبارٹری کا انچارج بنادیا ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو 6 ماہ بعد تنخواہ صرف 3000 ماہانہ کے حساب سے دی گئی۔۔۔اس کے بعد پاکستان کا کوئی بھی حکمران آیا تمام تر خوبیوں، خامیوں اور خرابیوں کے باوجود کسی نہ کسی اندازمیں ایٹمی پروگرام جاری رہا۔ یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے جب غلام اسحق خان صدر،محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم تھیں بھارت تیسرا ایٹمی دھماکہ کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھا ان دنوںپاکستان کا سیاسی میدان اکھاڑہ بناہوا تھا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ مد ِ مقابل تھے دونوں بڑے سیاستدان ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک قرار دیتے تھے میاں نواز شریف اپوزیشن میں تھے۔
اپوزیشن بھی ایسی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو دانتوں پسینہ آرہاتھا انہی دنوں میاں نواز شریف آزاد کشمیرکے دورہ پر گئے تو انہوںنے ایک بڑے جلسۂ عام کے دوران ایک چونکا دینے والی بات کہہ ڈالی سیانے کہتے ہیں انہوںنے وہ کہہ دیا جو نہیں کہنا چاہیے تھامیاں نواز شریف نے بھارت کا نام لئے بغیر کہا کوئی بھول میں نہ رہے پاکستان جب چاہے ایٹمی دھماکہ کر سکتاہے۔۔اس انکشاف سے دنیا بھرمیں ایک تھرتھرلی سے مچ گئی تبصروں،تجزیوں بحث مباحثے کا ایک طوفان کھڑاہوگیامحترمہ بے نظیر بھٹو نے اس پر کہاتھا۔۔جلسہ ٔ عام میں بندے زیادہ دیکھ کر میاں صاحب جذباتی ہوگئے تھے ۔۔۔
OOO مئی1998ء کے آغاز میں بھارت نے پھر تین ایٹمی دھماکے کرکے خطے کا امن تہہ ہ بالا کردیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی تھی ہندوستان کی سڑکوںپر روز انتہا پسندہندو، سکھ کے پر ہجوم جلوس نکل رہے تھے جن کی قیادت نریندر مودی ،بال ٹھاکرے جیسے نیتا کررہے تھے ان جلسوں، جلوسوں میں پاکستان کے خلاف نعرے بازی ان کا معمول تھا اور تو اور۔۔۔ تین ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھارت سرکارکا رویہ بدل گیا،ان کے سیاستدان پاکستان کوسبق سکھانے کی باتیں کرنے لگے ایک بارپھر جنگ کی دھمکیاں دی جانے لگیں ان حالات میںپاکستانی عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دبائو بڑھ گیا کہ طاقت کے توازن کیلئے پاکستان کو بھی ایٹمی دھماکہ کردینا چاہیے امریکن سینٹرل کمانڈکے سابق سربراہ جنرل زینی نے اپنی ایک کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے صدر کلنٹن نے ایک اعلیٰ شطحی وفد پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن میاں نواز شریف نے ان سے بات کرنے سے بھی انکار کردیا۔
سینٹرل کمانڈ کا بوئنگ 707 ٹمپاکے ایرٔ پورٹ پر گھنٹوں کھڑارہا لیکن انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں ملی پاکستان میں موجود امریکی حکام نے میاں نواز شریف سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن اپنی بات نہ منوا سکے مایوس ہوکر کبھی امریکی صدر نے پاکستان کو عالمی طور پر تنہا کرنے کی بات کی ۔۔۔کبھی پتھرکے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی تو کبھی 5 ارب ڈالر کے مراعاتی پیکیج دینے کی پیش کش کی اور ایک دن میں میاں نواز شریف سے صدر کلنٹن نے 5 بار ٹیلی فون پر بات کی لیکن میاں نواز شریف ایٹمی دھماکہ کرنے کا اٹل فیصلہ کر چکے تھے چنانچہ میاں نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو 3 بج کر 16 منٹ پر ایک بٹن دباکر بلو چستان کے علاقہ چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کردیا جس کے نتیجہ میں پہاڑکا رنگ تبدیل ہوگیا اور یوں پاکستان جوہری صلاحیت سے مالا مال عالم ِ اسلام کا پہلا اور دنیا کا ساتواں ملک بن گیا جس سے علاقہ کا تھانیدار بننے کے مرض میں مبتلا بھارتی حکومت کا غرور خاک میں مل گیا۔
28 مئی 1998ء کو جب قوم کو پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کرنے کی خبر ملی لوگ اللہ اکبر کے نعرتے لگاتے خوشیسے سرشار سڑکوںپر نکل آئے پورے ملک کی مٹھائی کی دکانوں سے مٹھائی ختم ہوگئی بلاشبہ میاں نواز شریف کے اس تاریخی فیصلہ نے بر صغیر پاک وبنگلہ ہندکی تاریخ بدل کررکھ دی قوم تاقیامت اپنے قومی ہیروز کو خراج ِ تحسین پیش کرتے رہے گی۔ 28 مئی کو یوم تکبیرکا نام دیا گیا یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اوراس کی عظیم نعمت ایٹم بم کے حصول کیلئے شکرانہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے تین کردار ایسے ہیں جن کو سامراجی طاقتوں اور اسلام دشمنوں نے عبرت کا نشان بنانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زورلگادیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کا جرم کیا تھا؟ کیا اپنے وطن سے محبت اور اس کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانا نا قابل ِ معافی جرم ہے شاید اسی لئے اقبال نے کہا تھا
تقدیرکے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگ ِ مفا جات
پاکستان کی تاریخ کے یہ تین کردار ذوالفقارعلی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور میاں نواز شریف ہیںجن کا جرم۔۔۔ اسلام کے قلعہ پاکستان کو ایٹمی قوت بناناہے۔ اسلامی بلاک کی تشکیل، تیل کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی حکمت ِ عملی ومنصوبہ بندی اور ایٹمی پروگرام کا آغاز ایسے جرم تھے کہ عالمی طاقتوں نے انہیں منظر سے ہٹا دیا، ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں معاونت کی میاں نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کئے ان کا جرم بھی ناقابل ِ معافی تھا مشرف دور میں ایک عالمی سازش کے تحت ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی کردارکشی کی گئی ان پر ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کے بھونڈے الزام میں زبردست پابندیاں لگادی گئیں انہیں کئی سال عملاً قید کردیا گیا تھا لوگوںکا خیال ہے کہ عوام کا خوف نہ ہوتا تو پرویز مشرف ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کر چکے ہوتے۔
12اکتوبر 1999ء کو جمہوریت کا تختہ الٹ کرمیاں نوازشریف حکومت برطرف کردی گئی انہیں ہائی جیکنگ کے الزام میں سزا سنائی گئی ان کی حکومت کا خاتمہ کرکے دراصل انہیں ایٹمی دھماکے کرنے کی سزا دی گئی تھی ۔ اب وہ پھربرسرِ اقتدارہیں۔۔ تینوں مرکزی کردار ذوالفقارعلی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور میاں نواز شریف اب تاریخ کا انمول اثاثہ بن چکے ہیں آئیے! پاکستان کے دفاع کو ناقابل ِ تسخیر بنانے والی اس ٹرائیکا کو عقیدت سے سلام پیش کریں کہ زندہ قوموںکی یہی پہچان ہے۔
تحریر: ایم سرور صدیقی