تحریر : میر افسر امان
سب سے پہلے تو ہماری ویب انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے ایک موضوع ”میرا پاکستان کیسا ہو؟” کے عنوان سے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو اپنے اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ موقعہ ہی نہیں فراہم نے کیا بلکہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات بھی اعلان کیا۔ میرا پاکستان کیسا ہو، تومیں کہوں جیسا پاکستان کی تخلیق کرنے والے محترم قاعد اعظم محمد علی جناح نے سوچا تھا۔ جیسا شاعر اسلام علامہ اقبال نے اپنی خواب میں دیکھا تھا، یقینا! میرا پاکستان ویسا ہی ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال نے برصغیر میں مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدارتی خطبہ الہ آباد٢٩دسمبر١٩٣٠ء میں تجویز پیش کی تھی”میری خواہش ہے کہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کے صوبوں پر مشتمل ایک ہی ریاست بنا دی جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود مختیاری حاصل کرے خواہ اس کے باہر۔سمجھے تو ایسا نظر آتا کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بلا آخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنے پڑے گی۔
اس سے قبل علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے، غلام مسلم قوم کو اسلام کی نشاةثانیہ کے لیے اُبھارتے رہے تھے۔پھر قائد جیسا سیاسی لیڈر مسلمانوں کو مل گیا۔ جس کی قانونی اور عقلی دلیلوں سے لبریز سیاسی جدو جہد کی وجہ سے پاکستان بنا۔قائد نے تحریک پاکستان کے دوران جتنی بھی سیاسی تقاریر کیں ان میں اسلام کے زندہ جاوید نظریہ اوردو قومی نظریہ کوکو خوب اُجاگر کیا۔ ایک موقعے پر قائد محترم نے اسے ایسے بیان کیا٨ مارچ ١٩٤٤ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”برصغیر میں جس روز پہلا غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوا تھا اسی روز برصغیر میں نئی قوم وجود میں آ گئی تھی۔پاکستان کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی”یہ اس زمانے کی بات جب جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی ۔مسلمانوں کی قومیت کی بنیا کلمہ توحید ہے وطن نہیں۔ بقول علامہ اقبال۔ اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر . خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیۖ.۔دو قومی نظریہ کی تشریع کرتے ہوئے قائد نے ٢٢ مارچ ١٩٤٠ء کو مسلم لیگ کے ٩٧ویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہو ر میں فرمایااسلام اور ہندو مت دو معاشرتی نظام ہیں۔یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔ ایک دسترخوان پر کھانہ نہیں کھاتے۔ان کی رمزیہ داستانیں، ہیرو، قصے اور تاریخ الگ الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے دشمن ہیں۔
ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے۔قومیت کی ہر تعریف سے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ان کے پاس اپنا وطن ، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ضرو ہونی چاہیے ” بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے قیامِ پاکستان سے پہلے٢٢ اکتوبر ١٩٣٩ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا” مسلمانو! میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ دولت،شہرت اور آرام و راحت کے بہت لطف اٹھائے ۔اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں ۔میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کے میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا حق ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدا فعت اسلام کا حق ادا کر دیا اور میرا خدا یہ کہے کہ جناح بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے مسلمان جئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے” ۔ پھر برصغیر کے طول عرض میں مسلمانوں نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ نعرہ مستانہ لگایا۔جہاں پاکستان نہیں بننا تھا وہاں بھی اسلام کی نشاة ثانیہ کی اُٹھان کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے حق میںجد وجہد کی اور اللہ کے فضل سے دنیا کے نقشے پر پاکستان وجود میں آ گیا۔ جنگ اخبار میں ریاض علی شاہ جو کہ قائد اعظم کے معالج تھے کی ڈائری کے حوالے سے کہا کہ موت کے آخری دنوں میں قائد اعظم بیماری سے بہت کمزور ہو چکے تھے اور زبان پر کچھ آتا تھا مگر بول نہیں سکتے تھے ہم نے اُن کو دوائی دی کہ کچھ نہ کچھ گفتگو کر لیں ورنہ جو کچھ بھی بولنا چاہتے ہیں وہ بول لیں کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے اور راہ جائے گی تو قومی نقصان ہو گا۔
ہم نے قائد اعظم کو اس مقصد کے لیے داوئی دی اس کے استعمال کے بعد جو قائد اعظم نے جو جملے کہے وہ یہ ہیں جواخبار جنگ کی ااستمبر ١٩٨٨ء کی اشاعت قائد اعظم کی چالیسویں برسی کے موقعہ پر مضمون شائع ہوا تھا میں بیان کئے گئے ہیںڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا صفحہ کے حوالے سے قائد اعظم کی گفتگو جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ اور کرنل الہی بخش کی موجودگی میں قائد اعظم نے موت سے دو دن پہلے کہا تھا”آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتاکہ مجھے کتنا اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہو گیا اور یہ کام میں تنہا نہیں کر سکتا تھا جب تک رسول ۖ ِ خدا کا مقامی فیصلہ نہ ہوتا اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ خلفائے راشدین کا نظام قائم کریں” پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم نے خود اگست١٩٤٧ء میں ہی ایک واحد ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا جس کا نام ” ڈیپا ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن” ہے اس ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ مشہور نو مسلم علامہ محمد اسد کو بنایا گیا تھا۔
اس ڈاکومنٹ کے مطابق اُن کے ذمے پاکستان کا اسلامی آئین بنانا تھا۔ جس میں اسلامی معاشیات، اسلامی تعلیم اوراسلامی سوشل سسٹم ہو اس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بجٹ کے لیے قائد اعظم نے خود خط پاکستان کے مالیاتی ادارے کو بھی لکھا تھا۔ جو اب بھی ریکارڈ کے اندر موجود ہے۔ ثبوت کے طور پر جس کا جی چائے وہ اوریا مقبول جان کے پاس اس ڈاکومنٹ کو دیکھ سکتا ہ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے، ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے۔اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے۔٢٦مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں قائد نے فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا”قائد کی وفات بعد مسلم لیگی قیادت نے پاکستان میں قائد کے ویژن کے مطابق اسلام کی فلاحی اسلا می ریاست قائم نہیں کی۔ اور وزرتوں کے دوڑ میں لگ گئے ۔اس پر پاکستان کے ازلی دشمن نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان میں اتنی واراتیں تبدیل ہوتیں ہیں جتنی میں دھوتیاں بھی تبدیل نہیں کرتا۔ پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں بار بارکے فوجی مارشل لا نے بھی رکاوٹ ڈالی۔
اب بھی وقت ہے ١٩٧٣ء کے آئین کے مطابق اس ملک میں بتدریج اسلامی قوانیں رائج کرنے چاہیے۔ تا کہ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اور اس کے بعد خلفاء راشدین کی قائم کردہ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہو ۔اس کے قیام سے ملک میں امن وامان ہو گا۔ملک ترقی کرے گا،حق دار کو حق ملے گا۔انصاف کے تقاضے پورے ہو گے۔آسمان سے رزق نازل ہو گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی۔ لوگوں کو روزگار ملے گا۔مہنگاہی ختم ہو گی۔ عوام کوبرابری کی بنیاد پر عزت ملے گی۔یہ قائد کا ویژن تھا اوریہی ہماری ویب کی طرف سے دیے گئے عنوان کی تعبیر ہے میرا پاکستان کیسا ہویعنی میرا پاکستان قائد کے ویژن جیسا ہونا چاہیے۔
تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان