تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پاکستان پر کل قرضہ تقریباً 21 ہزارارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان اس قدر زیادہ قرضے لے چکا ہے جن کو اتارنا اب شاید کسی کے بس کی بات نہیں۔اولین آمر ایوب خان نے قرضے لینے کی روایت ڈالی مگر ملک میں صنعتیں لگنا شروع ہو گئیں اور ڈیم بھی بنائے گئے ۔مگر ہر ڈکٹیٹر کی طرح اس کے بیٹوں نے اَبو کی صدارتی پوزیشن کا خوب فائدہ اٹھایا ۔صنعتکاروں سے نئی صنعتیں لگانے، نئے روٹ پرمٹ کے اجراء اور ٹھیکیداریوں سے اربوں روپے کمائے۔جب جعلی دھاندلی زدہ الیکشنوں سے ایوب خان صدر قرار پا گئے تو صرف کراچی اور مشرقی پاکستان کی غیور عوام نے ان کی مد مقابل محترمہ فاطمہ جناح کو اکثریتی ووٹ دیے تھے۔ اور تمام تر آمرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود مذ کورہ علاقوں میں ایوبی غرور و تمکنت شکست سے دو چار ہوئی جعلی فتح کا جشن منانے کے لیے گو ہر ایوب کی قیادت میںکراچی میںمسلح جلوس نکالا گیا۔
ایوبی غنڈوں نے ایک ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کرکے لسانیت اوربرادری ازم و فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنیاد رکھ دی جو کہ آج تک جاری و ساری ہے ۔طلباء نے تحریکیں چلا کر ایوب خان کو چلتا کیا تو یحییٰ خان آن براجمان ہوا ۔ اس کی بیوی مکمل کرتا دھرتا تھی۔مال لگائو کام کروائو۔یحییٰ خانی دور صرف عیاشیوں ،نشیلے ٹھمروںاور شباب و کباب کا دور تھا۔اسے نشے میں دھت دنیا و مافیا کی کچھ خبر تک نہ ہوتی تھی صرف ڈکٹیٹر کی وفادار اور ٹائوٹ بیورو کریسی ہی حکومتی امور نپٹاتی تھی اس طرح سرکاری خزانہ کو بے دریغ لوٹا گیاصدارتی کرسی پرمستقل قائم دائم رہنے کی ناپاک ترین خواہش نے ملک دو لخت کرواڈالا۔ اور93ہزار مسلم سپاہ کواس کے غیر قانونی حکم سے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔اسطرح یہ اسلامی تاریخ کی عبرت ناک و شرمناک ترین شکست تھی۔صرف اسلیے کہ اس کی مغربی پاکستانی منتخب اکثریتی لیڈر سے ڈیل ہو چکی تھی۔جو پہلے ہی “اُ دھر تُم اِدھر ہم” کے نعرے لگارہا تھا۔اور جواعلان کر چکا تھا کہ ڈھاکہ میںمنعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میںجو بھی مغربی پاکستان سے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ ڈالی جائیں گی۔اکلوتے ممبر اسمبلی احمد رضا قصوری گئے جو بالآخراس کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل پر منتج ہوا۔
اس دور میں ممبران اسمبلی کو مکمل اختیارات ملے اور انھوں نے سرکاری خزانے کو گنگا میں اشنان کرنا سمجھ کر اس میں خوب ڈبکیاں لگائیں۔اگر 77کے انتخابات میں بزور بلا مقابلہ منتخب ہونے کی روایت نہ ڈالی جاتی تو نہ جمہوریت پر آنچ آتی اور نہ ہی آمریت دوبارہ پنپ سکتی جب بھٹو صاحب اپنے مد مقابل امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کروا کر بلا مقابلہ کامیاب قرار پاگئے توصوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی بلا مقابلہ ہو جانے میں ہی بہتری جانی۔تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بلا مقابلہ منتخب ہو گئے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ صادق قریشی کے مقابل قومی اتحاد کے امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے والد محترم مخدوم علمدار حسین گیلانی کے انکار پر راقم الحروف کو قومی اتحاد کی قیادت نے ملتان کی اس سیٹ پر نامزد کر دیا ۔ تو مجھے اغوا کرکے 110دن تک سخت ترین تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی بلا مقابلہ ہو جانے کی مذموم خواہش قطعی طور پر پوری نہ ہو سکی اس دور میں بھی مقتدر افراد خزانے کو شیر مادر سمجھ کر پیتے ،ڈکارتے عیش و طرب کرتے اربوں میں کھیلتے رہے۔ضیاء الحق کے قابض ہوتے ہی نظام مصطفیٰ کے علمبردار وزارتوں کے جھولے جھولنے لگے اور کارکنوں کی قربانیوں کا قطعاً کوئی خیال نہ رکھا۔
اس دور میں 77اور پھر79میں انتخابات کا ڈول ڈالا گیا مگر نتیجہ صرف التوائے الیکشن رہا۔پھر خود کی غیر جمہوری نام نہاد نامزد مجلس شوریٰ سے کام چلانا چاہا مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔ بالآخر 85میں غیر جماعتی انتخابات کروائے تو مجلس شوریٰ والے ہی بیشتر آگے آئے۔ کہ ان کو فی کس کروڑوں روپے تین فیصد پر ادھار سمجھ کردیے گئے تھے ۔ ادھار یا قرضے تو وہ کیا واپس کرتے انہوں نے سڑکوں ،سرکاری عمارتوں و دیگر سکیموں کی رقوم سے بھی خوب ہاتھ رنگا۔ اسطرح ایک نیا کرپٹ نو دولتیا،سود خورا سیاستدان طبقہ وجود میں آگیا۔موجودہ وزیر اعظم ، کئی وزراء ،کئی اپوزیشنی نعرے باز بھی اسی دور کی پیداوار ہیں ۔فوجی آمروں کا نامزد کردہ وزیر خزانہ اورپھر وزیر اعلیٰ پنجاب کا” اعزاز” بھی نوازشریف کو ہی حاصل ہے ۔ما بعد تو رائیونڈ کے اردگرد کا علاقہ اونے پونے داموں خرید کر اپنے ہندوستانی چک “جاتی امراء “کے نام سے یہاں سٹیٹ قائم کرلی ۔خود ہی اسے ٹیکس فری زون قرار دے کرصنعتیں لگائیں،اربوں کھربوں کما کر پانامہ لیکس اور دیگر ملکوں میں جمع کروائے ۔پلازے فلیٹس خریدے گئے۔
زرداری دور کی وکی لیکس ،سرے محل،سوئس اکائونٹس کی کھربوں رقوم کا آخر کیا بنا؟ یوسف گیلانی ،راجہ رینٹل اور ان کے ادوار کے وزراء کی خزانوں کی لوٹ مار کا کیا حساب کتاب ہوا ؟عمران جو اپوزیشن ہونے کے دعوے دار ہیں۔وہ بھی ویسی ہی نیازی لیکس کے گندے تالاب میں ڈبکیاں لگا چکے ہیں اور ان کے اے ٹی ایم کارڈزاور پارٹی میں موجود دیگر وڈیروںکے تو کیا ہی کہنے۔ہر کوئی نہلے پر دہلا ہے۔ اس طرح سے کرپٹ لالچی نام نہاد سیاسی روپ دھارے کرداروں نے پاک ملکی سیاست کو پلیدگی کا گندا تالاب اور تعفن زدہ ڈھیر بنا ڈالا ہے ملک کو قرضوں میں ڈبویا جارہا ہے جو جب بھی مقتدر بنا اسنے اپنا گھر بھرا۔بیرون ممالک مال و زر جمع کروائے۔
الطاف حسین سالوں پہلے اور زرداری موقع ملتے ہی بیرون ممالک چلے گئے اوروہاں عیش پرستانہ زندگی گزارنے لگے عوام اور پاکستان کس حال میں ہیں کسی کو کیا پرواہ۔قرضے آقائوں نے لیے اور بھریں محکوم یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے! جمع شدہ حرام کالے دھن کو واپس لیے جانا اشد ضروری ہے جب کہ ایوبی آمریت سے لے کر شریفوں کی موجودہ آمرانہ جمہوریت تک سبھی کرپشنی حمام میں الف ننگے ہیں ملکی سیاست کو پاک صاف کرنے اور ملکی سالمیت کابھی یہ تقاضا ہے کہ ایوبی ، یحییٰ خانی، بھٹوی،ضیاء الحقی ،شریفی ،مشرفی ،بے نظیری ،زرداری ادوارکے سبھی صدور ،وزرائے اعظم ،وزراء ،مشیروں اور ان کی اولادیں کڑے احتساب کے عمل سے گزریں ۔جو مجرم ٹھہریں ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں مکمل ضبط کی جائیں تو اربوں ڈالر جمع ہو سکتے ہیں۔
فوری فیصلوں اور ان پر تیز عملدرآمد کے لیے فوجی عدالتیں ہی بہتر حل ہو سکتی ہیں کہ اب شہیدوں کے خاندان کے سپوت موجودہ افواج کے سربراہ ہیں اور ان کی غیر جانبداری اظہر من الشمس ہے اس سارے عمل کو کہیں غلط فہمی سے مارشل لاء کا نفاذ نہ سمجھا جائے یہ تو صرف چند لٹیرے کرپشن سے لتھڑی ہوئی “شخصیات” سے غریبوں کے خون پسینہ سے جمع ہونے والے خزانہ کی رقوم واپس لینا مقصود ہے تاکہ تمام غیر ملکی قرضے ادا کیے جا سکیں۔
بقول شہباز شریف ملکی نظام میں اگر انقلابی تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو خونی انقلاب کوئی نہیں روک سکتا۔اسی کے مصداق ادنیٰ خادم کی معروضات کودر خوراعتنا ء نہ سمجھا گیا توگلی کوچوں ،گوٹھوں،محلوں چکوک سے نچلے طبقات کے مظلوم و مقہور بھوک سے بلکتے خود کشیاں کرتے عوام اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور وڈیرہ شاہی ،جاگیرداری ،سود در سود نو دولتیوں کی ظالمانہ صنعتکاری کے بتوں کو ملیا میٹ کرڈالیں گے۔گندا خون بہہ جانے سے ویسے ہی دیس پاک صاف ہو جائے گا۔ یہ تحریک اسلامی ممالک کے سربراہوںاور عالم اسلام کے مخیر حضرات سے بلا سود قرضِ حسنہ لے کر ملک کے تمام قرضے یکمشت ادا کرکے ملک کو فلاحی مملکت بنا ڈالے گی۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری