counter easy hit

ملت کا پاسبان

Mohammad Ali Jinnah

Mohammad Ali Jinnah

تحریر: راجہ سہراب خان
”تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمنان ہوتا ہے ؛یہ مشکل کام تھا اور میں اسے اکیلا کبھی نہیں کر سکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا ۖ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا، اب یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے ”
یہ الفاظ تھے ہمارے قائد محترم محمد علی جناح کے جو انہوں نے اپنی وفات سے تین دن قبل ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے کہے تھے ،وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سے پہلے تک میرے دل میں قائد اعظم کی عظمت بھی تھی ،جزبہء شکر بھی تھا،لیکن محبت نہیں تھی لیکن ان کی یہ بات میرے دل میں ایک درد پیدا کر گئی اور ان کی کہی ہوئی باتوں نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا۔

محمد علی جناح کی سیاسی شخصیت ایک تاریخی معمہ ہے ایک ایسا شخص جو اپنی طرز زندگی اور انداز فکر میں عام مسلمانوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا ۔۔۔جناح سے قائد اعظم کیسے بن گیا۔اس معمے کا حل ڈھونڈتاہوں تو حقائق پر نظر جاتی ہے کہ محمد علی جناح میں خلوص اور دیانت اور ان کے ہم عصر لیڈروں میں (معذرت کے ساتھ )عین اسی صفات کا فقدان تھامسلمان رئوسا اورعمائدین میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں تھی جنہیں انگریز سرکارکی بارگاہ میں قرب حاصل تھااور جن کی بات کو وائسرائے ہند بھی سن سکتا تھا،ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنی خطیبانہ ولولہ انگیزی سے بڑے سے بڑے مجمعے کو بھی مسحور کر سکتے تھے ان کے لیے اپنی تقاریر سے نوجوانوں کو لوہا بنا کر مسلح فوج کے آگے کھڑا کر دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی ‘مگر پھر قوم کے سالار کے طور پر محمد علی جناح کو ہی کیوں چنا گیا؟؟؟؟۔

حقیقت میں مسلمانوںکو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو مخلص اور بے غرض و نڈر ہوانہیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو قوم کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر قربان نہ کرے جو ان کی قربانیوں کی لاج رکھے ،جو کسی صورت ،کسی بھی طریقے ،کسی بھی قیمت پر خریدا نہ جاسکے ،لوگوں نے اوروں کو بھی دیکھا پھر جناح کو بھی اور پھر آخر کار محمد علی جناح کو ہی اس عظیم مقصد کے لیے بطور لیڈر چنا گیا۔

Allama Iqbal

Allama Iqbal

اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ اپنی انتھک محنت اور کوششوں سے انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی علامہ اقبال نے جو عظیم خواب دیکھا تھا انہوں نے اس خواب کو پورا کرنے کی ٹھان لی مسلمانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیااس عظیم لیڈر کے یہ الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں جو انہوں نے آل انڈیامسلم لیگ کونسل میں خطاب کے دوران 21ء اکتوبر 1939ء کو کہے تھے

”میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں میں چاہتا ہوں کہ میں جب مروں تو اس اطمنان اور یقین کے ساتھ مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا یہ گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کیاہے ”

یہ میری کوئی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ میری قائد کے ساتھ محبت کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی آزادی ہے جو قائد اعظم کی کوششوں کی بدولت ہواسوچ کا محور اور مرکز صرف اور صرف پاکستا ن ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستا ن کے نظام کا فیصلہ پاکستان کی عوام نے کرنا ہے اسی عوام نے جنہوں نے خلوص نیت سے پاکستا ن کے قیام کا فیصلہ کیاتھااس لیے اگر قائد اعظم کی کسی بھی تقریر سے لادینیت کی بو آتی تو ہم اسے نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ کھلے ذہن سے اس کا اظہاربھی کرتے کیونکہ میرے نزدیک بابائے قوم سے عقیدت کا تقاضہ ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات کو کھلے اور تعصب سے پاک ذہن کے ساتھ پڑھا جائے، گیارہ اگست کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے پر انہوں نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجہ کا وعدہ کیا وہ مذہبی آزادی کی پیغام دراصل میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہے جو حضورنبی اکرم ۖ نے مدینہ کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا تھا۔

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

قائد اعظم قانون کی حکمرانی ،معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیری نظام کا بھی خاتمہ چاہتے تھے وہ ہر قسم کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے جبکہ آج کا پاکستان رئوسااور جاگیرداروں کا پاکستان بن چکا ہے جن کی کرپشن کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے آج کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی ،معاشی عدل اور مساوات کو پامال کیا جا رہاہے لیکن اس کے باوجود عوام کی سرد مہری کا یہ حال ہے کہ وہ دوبارہ انہی آزمائے ہوئے لوگوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے شیش محل میں بٹھا دیتے ہیںجنہوں نے قومی خزانے لوٹے اور عوام کی جیبوںپر ڈاکے ڈالے اس صورت حال نے ہر طرف مایوسی کے اندھیرے پھیلا رکھے ہیں اور نوجوانوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے غیریقینی میں مبتلا کر کے رکھ دیاہے ایسے حالات میں قائد اعظم کے تصور پاکستان کی شمع جلائے رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کے سامنے ایک آئیڈیل موجود رہے اور وہ قائد اعظم مخالف لابی کا شکار نہ ہوں۔

اگر دیکھا جائے تو ہمیں تو پاکستان بنا بنایا ملا ہے لیکن ہمارے بزرگوں نے اسے حاصل کرنے میں جتنی قربانیاں دی ہے شائد وہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے آج یہ بات سوچنا بھی محال ہے کہ نوزائیدہ مملکت کومسائل کے انبار کا سامناتھاجن میں لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری ،خالی خزانہ،مسائل کا فقدان ،نئی مملکت کے لیے انتظامی ڈھانچے اور مرکزی حکومت کا قیام قابل ذکر ہیں دوسری طرف خود قائد اعظم کی صحت دن بدن گر رہی تھی او ر کئی سالوں کی محنت نے انہیں ہڈیوںکا ڈھانچہ بنا دیا تھاچنانچہ قیام پاکستان کے ایک سال گزرنے کے بعد وہ گیارہ ستمبر 1948ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔

وہ ایک سوئی ہوئی قوم کو جگا کر گئے
شب فراق کو صبح یقین بنا کر گئے
انہی کا ہے ممنون ارض پاک وطن
امیر ورنہ بہت آئے اورآکے گئے

قائد اعظم اگر زندہ رہتے تو کس طرح اپنے وعدے شرمندہ تعبیر کرتے اور کس طرح نئی مملکت کی تعمیر کرتے اس کا اندازہ ان کے اس خطاب سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں14اگست 1947ء میں کیا تھاجس میں انہوں نے نبی اکرم ۖ کو اپنا رول ماڈل قرار دیا تھااور یہی بات ان کی عظمت کی دلیل ہے ہم سلام کرتے ہیں اس عظیم انسان کو جس نے ہمیں ایک آزادملک دیا اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قائد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے

Raja Sohrab Khan

Raja Sohrab Khan

تحریر: راجہ سہراب خان