تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
گزشتہ روز کراچی میں ایک مسیحی ٹیلویژن کے مرکزی دفتر کو رات کو دو بجے آگ لگا دی گئ۔ رات دو بجے چند نامعلوم افراد ایک مسیحی مشنری ٹی وی کے دفتر میں داخل ہوئے اور دفتر اور اس سے ملحقہ اسٹوڈیو کو آگ لگا کر فرار ہو گئے۔ جس سے دفتر میں موجود ٹی وی کمیرے ، کمپیوٹرز، سی سی ٹی وی کیمرے ، قیمتی سی ڈیز، کتابیں اور بائبلز جل کر خاکستر ہو گیئں۔ گواہی ٹی وی دراصل ایک مسیحی چینل ہے۔ جس سے مسیحی کمیونٹی عبادتی پروگرام، گیت اور زبور اپنے گھروں میں بیٹھ کر سُنتے تھے۔
اس ادارے کو چند دنوں سے دھمکیاں مل رہیں تھیں۔ شکایت بھی کی گئ مگر سننے والا کون ؟ اسی طرح گزشتہ ہفتے پنجاب کے ایک بڑے شہر جہلم میں اقلیتی برادری کے ساتھ ایک اور غیر منصفانہ واقعہ پیش آیا جب احمدی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کی ایک فیکٹری اس سے ملحقہ گھر اور ان کی عبادت گاہ ، احاطے میں موجود 8 کاریں اور دو موٹر سائکل جلا کر خاک کر دیے گئیں۔ خوشقسمتی سے 16 احمدیوں کو زندہ بچا لیا گیا۔ واقعہ کچھ یو ہوا کہ جی ٹی روڈ کے قریب اسمال انڈسٹریل اسٹیٹ کے بلکل پیچھے واقع ایک چِپ بورڈ بنانے والی فیکٹری جو کہ احمدی برادری سے تعلق رکھتی ہے، اس فیکٹری کے سیکیورٹی انچارج قمر احمد طاہر پرالزام ہے کہ اس نے قرآن کے صفحات نظر آتش کئے ہیں۔ جبکہ احمدی کمیونٹی کا یہ موقف ہے کہ ملازم قمر احمد صرف پُرانے اخبارات نزرآتش کر رہا تھا۔
اسے پرانے اخبارات جلاتے دیکھ کر ایک شخص نے چند لوگوں کو اکھٹا کیا اور پھر اس ہجوم نے پولیس میں ملزم قمر کے خلاف توہین مزہب کا مقدمہ درج کر کہ ملزم قمر احمد طاہر کو چار دوسرے لوگوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ باقی چار کو بعد میں تفتیش کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ مگر ملزم قمر کو حراست میں لے لیا۔ اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد اس علاقے کے گرد واقعہ چار سے پانچ گاؤں میں مساجد میں علانات شروع ہو گئے جس سے مشتعل ہجوم اس فیکٹری کے گرد جمح ہو کر نعرے بازی کرنے لگا۔
پھر چند نوجوانوں نے فیکٹری اور اس کے گرد موجود احمدی کمیونٹی کی املاک کو آگ لگا دی۔ اس ہنگامے سے خوفزدہ ہو کہ فیکٹری کے ساتھ ہی واقع گھروں میں موجود ملازمین کے اہل خانہ نے بھاگ کر فیکٹری میں پناہ لی۔ مگر جب فیکٹری میں آگ لگی تو پولیس نے 16 انسانی جانوں کو بچا لیا۔ مگر حالات پولیس کے کنٹرول سے باہر تھے۔ مجبور ہو کر وفاقی حکومت کو حالات پر قابو پانے کے لئے فوج طلب کرنا پڑی۔ مجھے ایک بات سمجھ نہی آئ کہ جب پولیس نے مبینہ ملزم کو گرفتار کر لیا تو پھر ہجوم کو مشتعل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ ملزم تو شانتی نگر میں بھی پکڑا گیا تھا اور ایف آئ آر بھی کٹ گئ تھی۔ تب بھی پورے گاؤں کا جلا دیا۔ جوزف کالونی، گوجرہ ، سانگلہ ہل کے مبینہ ملزمان کے گرفتار ہونے کہ باوجود بھی کیوں یہ گاؤں جلا کر اقلیتوں کی عمر بھر کی پونجی لوٹ لی گئ۔
ایک شخص کی سزا پوری کمیونٹی کو کیوں دی جاتی ہے۔ کیوں اقلیتیوں کی سالوں کی محنت کی کمائ کو چند منٹوں میں راکھ میں بدل دیا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں زنا بالجبر کے کیس میں ایک خاتون کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے چار گواہ میسر نہی ہوتے ، وہاں توہین رسالت کے واقعات میں اقلیتوں کے خلاف چند گھنٹوں میں ہزاروں گواہ اکھٹے ہو جاتے ہیں بلکہ خود ہی منصف بن جاتے ہیں اور خود ہی جلاد کے فرائض انجام دینے لگتے ہیں۔ کیوں رمشا مسیح کے تھیلے میں ادھ جلے قرآن اوراق ڈال کر ان کی توہین کرنے والے کے مولوی کےخلاف خاموشی چھا گئ۔؟ ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں ہماری حکومت ،بلخصوص پنجاب حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے۔
آج تک اقلیتؤں کی جان و مال کو برباد کرنے والے کیوں کیفروکردار تک نہی پہنچے۔ یوحنا آباد میں دہشتگردی کے واقعہ کے خلاف مسیحی مظاہرین کے خلاف مقدمات اور ان کی گرفتاریوں اور سزاؤں میں پھُرتیاں دیکھائ جاتی ہیں۔ مسیحی نمایندوں اسلم پرویز سہوترہ اور دیگر کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ مگر شانتی نگر، تحسیرٹاؤن، گوجرہ، سنمبڑیال، سانگلہ ہل، جوزف کالونی اور اب جہلم کے زمہ دار آزاد ہو جاتے ہیں۔
گوجرہ پر حملے کرنے والوں کے خلاف ویڈیو ثبوت رد کر دیے جاتے ہیں اور کمزور مسیحیوں کا مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ عدالتوں میں شخصی طور پر حاضر ہو کر طاقتور مخالفین کے خلاف گوائ دہیں۔ مسیحی غریب خوفزدہ ہو کر کیس سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ جس سے مجرم آزاد ہو کہ دوسری کاروائ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر دوسری جانب یوحنا آباد میں دہشت گردی کے خلاف مسیحی مظاہرین کو انہی ویڈیوز کا بنیاد بنا کر سزا دی جاتی ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ ہم بھی پاکستانی ہیں اور تم سے زیادہ ہیں۔
تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم