تحریر : شہزاد حسین بھٹی
یونانی مفکرہیروڈوٹس کے مطابق ”جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں” ۔ جمہوریت ایک رویے کا نام ہے کہ کچھ لوگ عوام کی بہتری کیلئے کام کریں اور وہ عوام کی نمانیدگی بھی کرتے ہوں، عوام نے ہی انکا انتخاب کیا ہو۔ سابق امریکی صدرابراہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف یوں کی ہے کہ “عوام کی حاکمیت،عوام کے ذریعے،عوام پر” جبکہ سیاست سے مراد ایک ایسا عمل ہے جس سے معاشرے کو معیشت ،عدل و انصاف اور آزادی کے اصولوں کو فراہم کرنا ہے۔ سیاست ایک طریق کار ہے جس کے ذریعے عوامی حلقوں کے مابین مسائل پر بحث یا کارروائی ہوتی ہے اور ریاستی فیصلے عوامی رائے عامہ کی مرضی کے مطابق کیئے جاتے ہیں۔ریاست کا پہلا بنیادی مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے تاکہ عوام کو انکے حقوق ملتے رہیں، اپنے مذہبی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور جمہوری روایات کے مطابق ملک کا نظم و نسق چلایا جائے۔ملوکیت کے معنی ہیں شخصی حاکمیت، یعنی ایک ایسا نظام ہے جس میں ایک شخص طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرتا ہے۔ عوام اس کو اپنا حکمراں تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اسکی مثال بادشاہت یا پاکستان میں آپ اسکو مارشل لا یا جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حکمرانی بھی کہہ سکتے ہیں۔
سید انور محمود کے مطابق پاکستان کی سیاست کا زیادہ عرصہ فوجی حکمرانی میں گذرامگر جمہوری دور میں بھی سیاست سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے گھر کی باندی بنی رہی جس میں غریب صرف جلسوں کی نفری بڑھانے، نعرے بازی کرنے اور ووٹ ڈالنے میں حصہ لیتا ہے، لیکن کسی غریب کا سیاست میں حصہ لینا ناممکن ہے۔ ہمارئے ملک میں جمہوریت سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں اگر جنرل کی غلامی سے جان چھوٹتی ہے تو جمہوریت کے نام پر چند برس بعد ووٹ ڈالکرآقا بدلنے کی اجازت ہوتی ہے، آقا بننے سی پہلے یہ سیاستدان عوام کو خوبصورت خواب دکھاتے ہیں لیکن آقا بنتے ہی انکو یاد بھی نہیں ہوتا کہ عوام سے انہوں نے کیا وعدہ کیا تھا، البتہ وہ دوبارہ جب عوام سے ووٹ مانگتے ہیں تو پھر وہی وعدہ کرتے ہیں جو پہلے کیا تھا، اسکی مثال پیپلز پارٹی کی یہ چوتھی حکومت ہے جو 1970 سے “روٹی کپڑا اور مکان” کا وعدہ کررہی ہے
مگر آج پاکستان کے عوام اور خاص طو پر کراچی اور بلوچستان کے عوام روٹی کپڑا اور مکان کو بھول کر اپنی جان کی امان مانگ رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں جمہوریت کا اندازفکر ایک بھی سیاسی جماعت میں موجود نہیں، بلکہ ہر سیاسی رہنما نے اپنی اپنی جماعت میں ملوکیت قایئم کی ہوئی ہے ۔پاکستان میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس میں کبھی انتخابات ہوئے ہوں اور اگر کبھی ہوئے تو یہ صرف دکھاوہ ہوتا ہے۔ وہ ملوکیت کے سب سے اہم اصول کا پہلے دن ہی اعلان کرتا ہے کہ اس کے بعد اسکا جانشین کون ہوگا۔ پارٹی کو وہ ایک ذاتی کمپنی کے مالک کی طرح چلاتا ہے اور جانشین عام طور پر یا تو اْس رہنما کی بیوی یا اسکی اولاد ہوتی ہے ورنہ اسکے بہن بھائی میں سے کوئی۔
پاکستان بننے سے پہلے کے لیڈر مرحوم خان عبدالغفار خان نیشنل عوامی پارٹی کے قائد تھے، انکے جانشین انکے صابزادے خان عبدالولی خاں ہوئے، انکے بعد کچھ عرصہ انکی بیگم نسیم ولی خان رہیں ، آجکل اُنکے صابزادے اسفندیار ولی خان پارٹی کے سربراہ ہیں، پارٹی پرپابندی کے بعد اس کا نام بدل کر اب عوامی نیشنل پارٹی رکھ لیا ہے، مرحوم مفتی محمود جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ ہوا کرتے تھے ، آجکل انکے صابزادے مولانا فضل الرحمٰن پارٹی کے سربراہ ہیں۔ پاکستان تو مسلم لیگ نے مسلمانوں کے اتحاد سے بنایا تھا مگر مسلم لیگ میں اتحاد نہیں رہا اسلیے اس وقت سب سے زیادہ سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگیں ہیں، البتہ آپکو مسلم لیگ کے ساتھ الف سے ے تک کے حروف ملیں گے، جیسے مسلم لیگ ن، اسکے سربراہ نوازشریف ہیں یہ جماعت انکو ضیاالحق کی طرف سے ملی تھی کیونکہ ہرآمر کے پیچھے ایک نام نہاد مسلم لیگ کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اب یہ مسلم لیگ ن نواز شریف کی ذاتی کمپنی کی طرح سے ہے، 1999 میں جب مشرف نے انکو گرفتار کیا تو انکی بیگم جو ایک گھریلو خاتون ہیں وہ پارٹی کی سربراہی کرتی رہیں جبتک وہ نواز شریف کے ساتھ جدہ نہیں چلی گیں۔
نواز شریف کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلی ہیں، دونوں بھائی اور انکی اولادیں پارٹی کو اپنی کمپنی کی طرح کامیابی سے چلارہے ہیں۔ مسلم لیگ ق دو بھائی یعنی چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی چلارہے ہیںاوراب ان کی اولاد بھی اس دوڑ شامل ہوگی ہے، یہ بھی پارٹی کو اپنی ملکیت کی طرح ہی چلارہے ہیں۔ مسلم لیگ ف یعنی فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا تھے انکے بعد انکے صابزادے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی مسلم لیگ ف کے سربراہ بن گئے۔ آجکل پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹونے بھی 1995 میں مسلم لیگ جناح بنائی تھی، اب اسکی ضرورت نہیں۔ عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، ان کی پارٹی کے اندر بھی کبھی انتخابات نہیں ہوتے جو ہوئے اس کے فیصلوں پر عمل درآمد ہی نہیں ہوتا، ابھی کوئی جانشین تو نہیں چنا مگر وہ بھی پارٹی کو اپنی ملکیت سمجھ کر چلارہے ہیں تاہم انکی دُوسری بیوی تحریک انصاف میں اپنی جگہ بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ مرحوم اکبربگٹی جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ تھے
طلال بگٹی کی وفات کے بعدآجکل انکے صاحبزادے شاہ زین بگتی اسکی سربراہی سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے بانی مرحوم سردارعطااللہ خان مینگل تھے، آجکل انکے صابزادے سردار اختر مینگل اسکے سربراہ ہیں۔ جی ایم سید جیئے سندھ تحریک کے بانی تھے آجکل انکے پوتے سید جلال محمود شاہ قوم پرست جماعت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ ہیں، پارٹی انتخابات کی انکو بھی ضرورت نہیں ہے۔ الطاف حسین پہلے مہاجر قومی مومنٹ اور حالیہ متحدہ قومی مومنٹ ]ایم کیو ایم[ کے بانی اور سربراہ ہیں، پارٹی کے انتخابات اس جماعت میں بھی نہیں ہوتے، الطاف حسین نے کسی کو جانشین تو مقرر نہیں کیا ہے
مگر ایم کیو ایم انکی مرضی سے چلتی ہے، انہوں نے ایک رابطہ کمیٹی بھی بنائی ہوئی ہے مگر آخری فیصلہ الطاف حسین ہی کا ہوتا ہے۔ الطاف حسین بھی ایم کیو ایم کو اپنی ذاتی کمپنی کی طرح ہی چلارہے ہیںـ جماعت اسلامی کے بانی اور امیرمولانا مودودی نے اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، انکی اولادوں میں سے کوئی بھی سیاسی منظر پر نہیں آیا،آجکل امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہیں، جمہوریت تو جماعت اسلامی میں بھی نہیں ہے مگر بظاہر یہ کسی کی ذاتی کمپنی بھی نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور چیرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے انہوں نے پہلے اپنی پارٹی کے دو ممبران معراج محمدخان اور غلام مصطفی کھر کو اپنا جانشین بنایا مگرآگے چلکر ان دونوں کے بھٹو سے شدید اختلافات ہوگے۔ضیاالحق نے جب بھٹو کو گرفتار کیا اور بعد میں پھانسی دے دی بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی سربراہ بن گئیں، تھوڑے عرصے بعد بے نظیر بھٹو اپنی والدہ کی جگہ پارٹی کی سربراہ بن گیں
انکی ناگہانی موت کے بعد زرداری پارٹی کے سربراہ بن گے اور انہوں نے پہلے دن ہی اعلان کردیا تھا کہ پارٹی کا اگلا سربراہ بلاول بھٹو زرداری ہوگا۔اب باضابطہ طور پر بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ سنبھال چکے ہیں۔ ملوکیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی۔ پاکستان میں اسوقت کم و پیش دوسو کے قریب سیاسی پارٹیاں ہیں اور سب کا یہی حال ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناع نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ آگے چلکر پاکستان میں حقیقی جمہوریت اور اچھی سیاست کی جگہ ملوکیت ہوگی۔
یہ ملک جو جمہوری عمل کے نتیجے میں عمل میں آیا وہاں جمہوریت کا فقدان ہےـ یہاں جب ایک جمہوری حکومت برسراقتدار ہوتی ہے اور عوام کی وہ درگت بنائی جاتی ہے کہ عوام جنرل کی آمد پر خوش ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے علم بردارسب سے زیادہ ملوکیت کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما سب سے زیادہ جاگیر دار طبقہ سے آتے ہیں، اور اپنی اغراض و مقاصد کو جمہوریت کا گلا گھونٹ کر پورا کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت اور مارشل لاء میں صرف وردی کا فرق ہے، ورنہ دونوں کا مقصد ملوکیت ہے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی