تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
44ہزار فٹ کی بلندی پر منفی 64ڈگری درجہ حرارت پے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے PIAکا دیو ہیکل جہاز سوا تین سو مسافر وں کو اپنی آغوش میں لیے منجمد فضائوں کو چیرتا ہو برق رفتاری سے ہیتھرو ائیر پورٹ لندن کی طرف جا رہا تھا ۔میں ہمیشہ کی طرح شیشے کی کھڑکی سے لگا باہر اڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اچانک بادل پیچھے رہ گئے چاروں طرف سورج کی تیز روشنی پھیل گئی یہ دوپہر کا وقت تھا ۔ ہمارا جہاز شاید پاکستانی پہاڑوں کو چھوڑ کر اب افغانستان کے پہاڑی سلسلے کے اوپر اُڑ رہا تھا ۔ میں اپنی تجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور نیچے دیکھ رہا تھا ۔ میری ہمیشہ سے یہ شدید ترین خواہش رہی ہے کہ میں خالق ِارض و سما کی کائنات کو ہر زاویے سے دیکھوں یہاں تک کہ میری آنکھیں اور دماغ قدرت کے دلفریب نظاروں سے روشن ہو جائیں ۔اِس وقت میرے سامنے دور نیچے ایک ایسا ہی نظارا تھا ۔ دنیامیں تقریباً دس ہزار سے زیادہ مناظر ہیں۔
اِن میں سے تقریباً ہر منظرآپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے بلکہ آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے کہ آپ اسے دیکھ کر مبہوت ہوجاتے ہیں پوری کائنات میں ہزاروں ایسے سحر انگیز مناظر ہیں جو خالق کے ہونے کا واضح ثبوت فراہم کر تے ہیں ۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی جب کسی خوبصورت منظر کو دیکھتا ہے تو وہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اِس کائنات کا کوئی خالق ضرور ہے ۔ کائنات میں بکھرے ہزاروں مناظر اللہ کا پیغام ہیں اور یہ پیغام اللہ کے ہونے کا یقین دلاتا ہے میں جب بھی کوئی سحر انگیز منظر دیکھتا ہو ں تو ربِ ذولجلال کے عشق میں اور زیادہ گرفتار ہوجاتا ہوں ۔ اِس وقت بھی میرے آنکھوں کے سامنے ایسا ہی دل کش منظر تھا ۔ دور نیچے پہاڑوں پر سفید برف پڑی ہوئی تھی بلکہ تمام پہاڑی سلسلے نے سفید برف کی چادر اوڑھ لی تھی ۔ سورج کی تیز روشنی اور کرنوں نے پہاڑوں کو چاندی کا بنا دیا تھا نیچے دور دور تک ایک برفستان تھا۔
پہاڑ ، درخت ، سڑکیں برف میں دفن ہو چکے تھے دور حدِ نگاہ تک برف کا سمندر تھا ایک برفستان جس کا کوئی کنارا نہ ہو ہر طرف دودھیا بر ف کا راج تھا ۔ میری نظریں اور شعور آج سے پہلے ایسے کسی بھی منظر سے آشنا نہ تھے ، خدا اور اُس کے اِس منظر نے مجھے بری طرح اپنے سحر میں جکڑ ا ہوا تھا اور میں اِس سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ میں اُن لوگوں کی عقلوں پر ماتم کر رہا تھا جو خدا کو نہیں مانتے کاش وہ یہ منظر دیکھ لیتے تو یقینا خدا کے وجود کو تسلیم کر لیتے ۔ میری محویت اُس وقت ٹوٹ گئی جب مجھے ائر ہوسٹس نے اپنی طرف متوجہ کیا ۔اُس کے متوجہ کرنے پر میں برفستان کے سحر سے واپس جہاز کے اندر آگیا ۔ جہاز اب ایک خاص بلندی پر اڑرہا تھا بچے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور جہاز کے میزبان عملے نے اپنی میزبانی کی ڈیوٹی سر انجام دینا شروع کر دی تھی جہاز کا مستعد عملہ سب کی نشستوں کے سامنے ٹیبل کو ایڈجسٹ کر تا جا رہا تھا
اُس پر کھانے کی ٹرے بھی رکھتا جا رہا تھا۔ دوسرے مسافروں کی طرح میں بھی اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو ااور مختلف لفافوں میں موجود کھانے کی چیزوں کو نکال کر سامنے رکھنے لگا ۔ جب میں کھانا شروع کرنے لگا تو غیر ارادی طور پر اپنے ساتھی مسافر کی طرف دیکھا جو ٹانگوں سے معذور شخص تھا اور پہلی با رلندن جا رہا تھا حیرت انگیز طور پر اُس کے سامنے نہ تو کھانے کی ٹیبل تھی اور نہ ہی کھانا موجود تھا حیرت کے بعد میں پریشان بھی ہو گیا کہ وہ کھانا کیوں نہیں کھا رہا تو میں نے اُسے کھانے اور جوس کی offerکی تو اُس نے شکر یے کے ساتھ انکا ر کر دیا اُس کے انکار میں ایک عجیب سا خوف بھی تھا۔
میں اپنے کھانے میں مصروف ہو گیا ۔ کھانا میرے مزاج کا نہیں تھا اِس لیے میں تھوڑا کھا کر بیٹھ گیا کہ کب عملہ واپس آکر میری ٹیبل کو صاف کر ے تاکہ میں آزادی سے بیٹھ سکوں اب میں فارغ تھا اِس لیے معذور مسافر کی طرف متوجہ ہو گیا اور اُس سے باتیں شروع کر دیں باتوں کے دوران پتہ چلا کہ وہ اِس لیے کچھ نہیں کھا پی رہا کہ اُسے واش روم جانا پڑے گا اپنی معذوری کہ وجہ سے وہ خوف زدہ تھا کہ پردیس میں اِس جہاز میں کون اُس کی Help کرے گا یا شاید واش روم اُس کی سہولت کے مطابق نہیں تھا ۔اِس دوران ایک خوش شکل ائر ہوسٹس اُس کے پاس آئی اور جھک کر بولی آپ کچھ کیوں نہیں لے رہے۔
تو میں نے اُس ائر ہوسٹس کو معذور مسافر کے خوف سے آگاہ کیا کہ وہ اِس لیے کچھ کھا پی نہیں رہا ۔یہ سن کر ائر ہوسٹس کے چہرے اور ہونٹوں پر شفیق تبسم ابھرآیا اور وہ بہت محبت سے بولی یہ کون سی بات ہے آپ تھوڑا تھوڑا جوس یا پانی پیتے رہیں اور اگر آپ کو واش روم کی ضرورت ہوئی تو ہم آپ کی مدد کریں گے ۔ اُس کی آواز میں نرمی آنکھوں میں حلیمی اور بشرے پر شفقت کی سرخی تھی ۔ معذور مسافر کے چہرے پر فکر اور پریشانی بلکہ خوف کا رنگ نمایا ں تھا ۔ لیکن ائیر ہوسٹس کی شفقت اور محبت سے لبریز گفتگو سے معذور کے ہونٹوں پر گمشدہ مسکراہٹ لوٹ آئی اور چہرے پر آسودگی اطمینان اور شادابی کا رنگ جھلکنے لگا ۔ مسافر زندگی میں پہلی بار کسی جہاز پر بیٹھا تھا سفر کے خوف سے پچھلے کئی گھنٹوں سے اُس نے نہ کچھ کھایا تھا اور نہ ہی پیا تھا۔
ائیر ہوسٹس گئی اور اُس کو زبردستی جوس دے گئی کہ اِس کو قطرہ قطرہ پیتے رہو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔ اب وہ آتے جاتے اُس معذور کو پیا ر سے دیکھتی اور ہر بار کہتی آپ ہمارے سپیشل مہمان ہیں۔اللہ تعالی نے اُس کو مسکراہٹ کی کرامت دے رکھی تھی جس کے پاس مسکراہٹ کی کرامت ہو اُس سے بڑا ولی کون ہو گا ۔ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں یہاں تحمل برداشت ، بردباری ، محبت ایثار قربانی اور خدمت خلق رخصت ہو نہیں رہے بلکہ رخصت ہو چکے ہیں۔
ایسے مردہ معاشرے میں جب بھی کوئی انسان خدمت خلق اور محبت کا اظہار کرتا ہے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔ ائر ہوسٹس کی شفقت سے معذور کا چہرہ خوشی اور اطمینان کے احساس سے روشن ہو گیا تھا۔ وہ آتے جاتے جب بھی گزرتی مسکراہٹ کا نذرانہ اچھالتی جاتی ۔ اُس کے چہرے پر پاکیزگی کا نور پھیلا ہو تا معذور اُس کے شاندار رویے سے خوف سے آزاد ہو کر اطمینان سے سفر کر رہا تھا۔ تقریباً سات گھنٹے کے سفر کے بعد جب ہم لندن کے قریب پہنچ رہے تھے تو مسافر ایک بار پھر پریشان اور خوف زدہ نظر آنے لگا ۔ اب اُس کو یہ خوف تھا کہ وہ کس طرح امیگریشن کاونٹر تک جائے گا ۔ ائر ہوسٹس نے پھر اُس کو حوصلہ دیا کہ آپ کی وہیل چیئر منگوا کر آپ کو سوار کر کے جائوں گی۔
آخر آٹھ گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد جہاز ہیتھرو ائر پورٹ کے رن وے پر لینڈ کر رہا تھا ۔جہاز رکا تو ہر مسافر پہلے نکلنے کے چکر میں تھا میں دل میں ٹھان چکا تھا کہ معذور مسافر کو میں امیگریشن کاونٹر اور پھر باہر لے کر جائوں گا جہاں اُس کے رشتے دار اُس کو لینے آئے تھے ۔ میری اِس آفر کو خوشی سے قبول کیا گیا جب تما م مسافر چلے گئے تو معذور کی وہیل چیئر لائی گئی اُس کو اُس پر بٹھا کر میں آخری مسافر تھا کو جہاز سے نکلا ائر ہوسٹس الوداعی سلام کرتی ہوئی چلی گئی میں اُس کی وہیل چیئر کو چلاتا ہوا ہیتھرو ائر پورٹ کی برقی قمقموں سے سجی روشن رہداریوں سے امیگریشن کائونٹر کی طرف بڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ خدمت خلق اور انسانوں سے پیار کرنے والے ہر جگہ پر خوشبو کی طرح ہوتے ہیں اور خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جولوگوں کے لیے آسانیاں اور خوشیاں فراہم کرتے ہیں یہ ائر ہوسٹس بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھی۔
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org