تحریر : انجم صحرائی
1999 میں جب الیکٹرانک میڈیا پر صرف PTV کا راج تھا اور روزنا مہ جنگ کے ادارتی صفحات پر مر حوم ارشاد احمد حقا نی کے کالم”حرف تمنا “ہی بیشتر قارئین کی تمنا ہوا کر تا تھے ۔میرا یہ مضمون در اصل حرف تمنا کے لئے ایک خط تھا مجھے نہیں پتہ کہ میری اس تحریر کو حرف تمنا میں جگہ ملی یا نہیں لیکن یہ صبح پا کستان میں بھی شا ئع ہوا تھا ۔ میرے اس مضمون کا عنوان تھا “پا کستا نی قو میت کا مقد مہ ” حرف تمنا کے لئے اس لکھی تحریر میں میرا مو قف کچھ یوں تھا کہ ۔۔ “معذرت کے سا تھ آج کل آپ کا “حر ف تمنا “پو نم اور دیگر علا قا ئی جماعتوں کے نام پر چھا بے لگا نے کی تشنہ خوا ہشوں کا اسیر نظر آ رہا ہے ۔ سر حدوں پر تنا ئو اور غیر اعلا نیہ جنگ کے پیش نظرآج جب کہ قو می یکجہتی کی بات کر نا اہم ضرورت ہے حرف تمنا میں کبھی دل جلے سرا ئیکی کو سرائیکی وسیب کی محرو میاں سنا نے کا مو قع ملتا ہے یہ الگ بات کہ وہ ان محرو میوں کی داستاں سنا تے ہو ئے مشتاق گور ما نی ،غلام مصطفے کھر ،مخدوم قادر بخش جکھڑ ،یو سف رضا گیلا نی ، امجد حمید خان دستی ، میر بلخ شیر مزاری ، اور فا روق لغا ری جیسی عظیم کا میا بیوں کو بھول جا تا ہے کہ یہی کا میا بیاں اس مظلوم وسیب کی محرو میوں کی اصل ذ مہ دار ہیں ۔کبھی کو ئی درد مند پنجا بی ” حرف تمنا ” میں پنجاب کے سا تھ ” ستان” لگا نے کے لئے بے چین نظر آ تا ہے کبھی کو ئی مہا جر تحریک پا کستان میں دی گئی قر با نیوں کو بنیاد بنا کر وطن عزیز کو یر غمال بنا نے کا خوا ہشمند دکھا ئی دیتا ہے اور کبھی پختو نخواہ اور گر یٹر بلو چستان کے علمبردار علا قائی محرو میوں اور مسا ئل کو جواز بنا کر نا کام پا کستان کے شو شے اڑاتے نظر آ تے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ علا قا ئی قو میتوں کے نام پر اپنی کفوں کو کلف لگا کر پھڑ پھڑانے اور لہرانے والے نسلی تعصبات کو ابھار کر قوم کو انتشارو افتراق کی طرف دکھیلنے والے اور لسا نی نفرت کی آگ میں قوم کو جھونک کر توڑ دو اور مردہ باد کے نعرے لگا نے والے نا کام و ناکام دشمنوں نے حرف تمنا میں پناہ حا صل کر لی ہے عوام کے مسا ئل اور علا قا ئی محرو میاں اپنی جگہ ایک حقیقت ان کی نشا ند ہی اور حل کے مطا لبے اپنی جگہ درست مگر یہ کہاں ہو تا ہے کہ گھر کھا نا نہ ملے تو گھر کے مکیں تلاش رزق کی سعی کر نے کی بجا ئے گھر کی دیواریں گرانا شروع کر دیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم میں سے ہر کو ئی اپنی ڈفلی بجا تا ہوا یہ جتا ئے کہ ہم نہیں تو پا کستان نہیں بے شک مضبوط سندھ ، مضبوط پنجاب ،مضبوط سر حد(اس زما نے میں خیبر پختوں خواہ کو صوبہ سرحد کہا جا تا تھا )اور مضبوط بلو چستان ہی مضبوط و مستحکم پا کستان کی ضما نت ہیں مگر کیا یہ انمٹ حقیقت اور سچا ئی نہیں کہ مضبوط و مستحکم پا کستان ہی ان سب اکا ئیوں کے وجود آزادی اور سلا متی کی ضمانت ہے ۔اور کیا یہ بات سب سے زیادہ درست نہیں کہ علا قائی محرومیوں کا ذکر نے والے دا نشور اور سیا ستدان مضبوط عوام ، مضبوط پا کستان کے تحت اپنے مو ضو عات منتخب کرین کہ خیبر سے کراچی تک بسنے والے ایک محنت کش مزدور ، کا شتکار اور سفید پوش پا کستانی کے اقتصادی سما جی معا شی معا شر تی اور سیا سی مسا ئل بہر حال ایک جیسے ہیں۔
مرحوم ضیا ء الحق کے دور میں ارباب اقتدار کی طرف سے ملک بھت کے سیا سی سما جی دانشوروں سے سوال کیا گیا تھا کہ پا کستان کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے ؟کسی نے کہا احتساب ، کسی نے پا نی کی تقسیم اور صوبا ئی خود مختیاری کی بات کی اور کسی نے اسلامی نظام کے نفاذ اور امت مسلمہ کے احیا ء کا ذکر کیا اس مو ضوع پرحکو متی سطح پر منعقد ہو نے والے بڑے بڑے سیمیناروں میں شرکت کا مو قع تو ہمیں نہ ملا مگر ہم نے بھی اس مو ضوع پر اظہا ر خیال کرتے ہو ئے تھریر کیا تھا کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قو می شنا خت کا ہے عظیم تر پا کستان کے حوالے سے پا کستا نیت کے نا طے پا کستانی قو میت کی تشکیل و تر ویج کا ہے بلا شبہ پا کستان کے قیام کی جدو جہد کرتے وقت بر صغیر پاک و ہند کے مسلما نوں نے دو قو می نظریہ کی بنیاد پر مسلم قو میت کے نا طے حصول پا کستان کی جدو جہد کی مگر قیام پا کستان کے بعد با نی پا کستان نے فر ما یا کہ” اب ہم پا کستانی قوم ہیں “دین اسلام میں صرف دو طبقے ہیں ایک اہل اسلام اور ایک کا فر ۔اہل اسلام ہی ملت اسلا میہ ہیں بہت ہی اچھا ہو تا کہ قیام پا کستان کے بعد پا کستان ملت اسلا میہکی نشا ة ثا نیہ کا گہوارہ بنتا مگر بصد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا دین اسلام پر عمل پیرا ہو نے والے دعویدار بھی مختلف فر قوں اور گرو ہوں میں بٹے ہو ئے ایک دو سرے کو نشا نہ بنا ئے رہے اور اسی لئے دینی اور مذ ہبی جما عتیں وطن عزیز میںمسلم قو میت کا قو می جذ بہ ابھا ر نے میں نا کام رہیں شا ئد یہی وجہ ہے کہ سا نحہ پا کستان کو ترقی پسند حلقے دو قومی نظریہ کی نا کا می قرار دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھا رتی وزیر اعظم اندرا گا ند ھی کا یہ کہنا کہ آج ہم نے دو قو می نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے شا ئد ہماری اسی قو می شکست و ریخت پر اظہار مسرت تھا۔ پا کستا نی قو میت کا وہ تصور جس کے بارے با با ئے قوم نے رہنما ئی فر ما ئی تھی بد قسمتی سے وہ جذ بہ بھی ہمارے ہاں پیدا نہ ہو سکا مذ ہبی قیادت نے ہمیں امت مسلمہ اور مسلم قوم کی بجا ئے شیعہ ، سنی بریلوی اہلحدیث اور وہا بی بنا دیا اور سیا سی قیا دت نے ہمیں پا کستا نی بنا نے کی بجا ئے پنجابی ، سند ھی ،بلو چی ، پٹھان یا مہا جر کی شنا خت دی ۔ با با ئے قوم کے بعد آ نے والے حکمرا نوں نے ملک کو لو ٹا ، نو چا اور کھسو ٹا مگر تو جہ نہیں دی تو اس طرف کہ اس ملک کے با سیوں میں وطنی قو میت اور نظر یا تی سیا ست کا شعور اور فہم و ادراک پیدا کیا جا تا ۔ رہی سہی کسر ملک میں طویل عر صہ تک مسلط رہنے والے غیر جمہوری اور مار شل لا ئی حکمرا نوں نے پو ری کر دی کہ انہوں نے اپنے اقتدارو استحکام کے لئے علا قا ئی ، لسا نی مذ ہبی اور فروعی قوتوں کو خوب مال کھلا یا پو سا اور جوان کیا یہاں تک کہ پا کستان کے تو ڑنے کی با تیں کر نے والوں اور با با ئے قوم کو کو سنے والوں کو گلد ستے پیش کئے گئے
لسانی بنیا دوں پر علا قا ئی قو میتیوں کے نعرے لگا کر ہم وطنوں کو لڑانے اور بھڑا نے کی سیا ست کر نے والوں کو نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف تخلیق کیا گیا بلکہ مکمل آبیا ری کر کے تناور درخت بنا یا ۔ کبھی پنجاب کے لیڈر کو پنجاب کی محرومی یاد آ ئی اور “جاگ پنجا بی جاگ تری پگ نوں لگ گیا داغ”کے نعرے نے جنم لیا اور کبھی سرا ئیکی محرو موں کو وسیب کی نما نی دھر تی کی محرو میوں کی آوازیں سنا ئے دینے لگیں اور “اسیں قیدی تخت لا ہور دے ” جیسی انقلابی نظمیں سنا ئی دینے لگیں اور اسی دور میں مہا جر کو اپنا استحصال یاد آ گیا اور اس نے بھی استحصا لیوں کے خلاف بندوق اٹھا نے کی منصو بہ بندی کی ، قو می جھنڈے جلا نے والے معتبر ٹہرے ۔ اسی دور میں پا کستان کی بات کر نے والوں کے لئے پھا نسیاں ، کو ڑے اور سزائیں مقدر بنیں ،طویل مارشل لا کے بعد جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو امید تھی کہ اب ہما رے سیا ستدان ما ضی سے سبق سیکھتے ہو ئے مصلحتوں اور ابن الوقتی سیا ست سے دامن چھڑاکر قو می سیاست کے اک نئے سفر کا آ غاز کریں گے ۔ پا کستان کی بات ہو گی پا کستانی قو میت کی بات چلے گی مگر کچھ بھی تو نہ بد لا وہی سوچ ،وہی رویہ وہی افتراق و تفریق کی سیا ست وہی نسلی تعصب اور وہی لسا نی نفر توں کی بد بو دار گفتگو ۔ کبھی کسی نے اقتدار کی مغبو طی کے لئے مہا جر کا آسرا لیا اور کبھی کسی نے پختو نستان کے علمبرداروں کی آ غو ش میں پناہ لی کسی نے محروم اقتدار ہو کر پنجاب کی پگ کا واسطہ دے کر عوام سے وو ٹوں کی بھیک ما نگی۔
کسی نے بھی پا کستان کا نہ سو چا ، اجتما عی مفاد کا نہ سو چا ۔ کسی نے نہیں سو چا کہ ملک کا اجتما عی مفاد کیسے ہو گا ؟ قوم کی اجتما عی سلا متی کا تقا ضا کیا ہے ؟ با با ئے قوم نے کیا کہا تھا ؟ آئین پا کستان میں کیا لکھا ہے ؟ جس نے پا کستان تو ڑنے کی بات کی ،جس نے پا کستان مردہ باد کا نعرہ لگا یا جس نے علا قا ئی محرو میوں کو جواز بنا کر لسا نی تعصبات کی سیا ست کھیلی ۔ اقتدار کی غلام گر سشوں کے دروازے اس پر کھل گئے سیا ست میں وہی معتبر ٹہرا کیا یہی حق ہے وطن عزیز کا کہ جو اس کو برا کہے اس کا درجہ بلند ہو جو اس کے جھنڈے جلا ئے وہی کا میاب سیا ستدان کہلا ئے آخر کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔با قی اگلی قسط میں
تحریر : انجم صحرائی