ان کے ادوار میں چوتھائی صدی کا فرق ہے، مگر پاکستان کو لاحق عارضے کا تشخص دونوں نے ایک ہی جیسا کیا ہے۔
مارک آندرے فرانشے، جو گذشتہ ماہ تک پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے سربراہ تھے، اور ہانس وان اسپونیک، جو 90 کی دہائی میں اسی منصب پر فائز تھے، دونوں نے ہی ایک ایسی معیشت کا مشاہدہ کیا جہاں اشرافیہ اور متوسط طبقہ دونوں کے درمیان وسائل کے حصول کی جدوجہد ملک کو اس کی ترقی سے محروم کیے ہوئے ہے۔
مسٹر فرانشے، جو کہ ایک کینیڈین شہری ہیں، نے گذشتہ ماہ طاقتور طبقے کے بارے میں سچ بول کر کافی ہلچل مچا دی۔
یو این ڈی پی کے سربراہ کے طور پر اپنے آخری انٹرویو میں انہوں نے اشرافیہ کے سامنے چیلنج رکھا، اور وہ بھی الفاظ سے کھیلے بغیر۔”آپ ایسی اشرافیہ نہیں رکھ سکتے جو سستی اور ان پڑھ لیبر کا فائدہ اٹھا کر پیسہ بنائے، اور جب پارٹی کرنے کا وقت آئے تو وہ لندن میں ہوں، جب شاپنگ کا وقت آئے تو دبئی میں ہوں، اور جب جائیداد بنانے کا وقت آئے تو دبئی، یورپ اور نیو یارک میں ہوں۔ اشرافیہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں ملک چاہیے یا نہیں۔”
کوئی 24 سال قبل میں نے ہانس وان اسپونیک کے ساتھ اسلام آباد کلب میں بحیثیت یو این ڈی پی سربراہ ان کے آخری اور رپورٹر کے طور پر میرے پہلے انٹرویو کے لیے ملاقات کی تھی۔
مسٹر ہانس نے بھی پاکستانی اشرافیہ کے بارے میں سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا، مگر وہ ان عطیہ کنندگان کے بھی اتنے ہی خلاف تھے جو کہ ریتی پتھر میں تو سرمایہ کاری کرتی ہے مگر انسانوں پر نہیں۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ مسٹر فرانشے بھی پاکستان سے وہی مشاہدات لے کر جا رہے ہیں جو دہائیوں قبل مسٹر ہانس لے کر گئے تھے۔
اس ملک میں نچلے طبقے کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ حکمران طبقہ غریبوں کی کبھی ختم نہ ہونے والی مشکلات کے بارے میں بے فکر ہے۔
انسانی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری اور عوام کے لیے ملازمتیں شاید ہی کسی کے لیے باعثِ فکر ہوں۔ ان کی کوتاہ نظر میں ترقی کا مطلب صرف ان کے لیے فائدے مند موٹروے ہیں۔
آج پاکستانی ان لوگوں کی یاد میں یومِ دفاع منا رہے ہیں جنہوں نے ہندوستان کے خلاف 1965 میں جانیں دے کر ملکی سرحدوں کی حفاظت کی۔ مگر اس وقت ہمارا بنیادی مقصد اس معاشرے کی ترقی ہونا چاہیے جو ان سرحدوں کے اندر ہے۔
نوجوان پاکستانیوں کی وہ بڑی تعداد جسے پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہونا چاہیے تھا، پاکستان کے لیے بوجھ ثابت ہو رہی ہے، کیوں کہ کام کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر ملازمتوں کی نہیں۔
نجی شعبہ بیوروکریسی کی سستی، پروفیشنل ازم کی کمی، توانائی بحران اور دیگر سہولیات کی کمی کی وجہ سے محدود کردار ادا کر رہا ہے۔ ریاست اب بھی لاکھوں افراد کو ملازمتیں فراہم کیے ہوئے ہے جبکہ ریاستی ادارے اربوں روپے کے نقصانات میں ہیں۔
پاکستان میں سیاسی بحث عوامی ضروریات کے بارے میں مجرمانہ حد تک خاموش ہے۔
پنجاب میں اپوزیشن جماعتیں مزید دھرنوں کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ حکومت اپوزیشن رہنماؤں کی جانوں، جائیدادوں اور بچوں کے لیے خطرات پیدا کر کے ردِ عمل دے رہی ہے۔
پاکستان کا معاشی مرکز کراچی اب ایک اور سیاسی رسہ کشی سے گزر رہا ہے جب سیاسی جماعتوں کی آپسی جنگیں شہر کو پوری رفتار سے چلنے سے روکے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں کوئٹہ میں ایک مشہور وکیل کو ہدف بنایا گیا۔ پھر ان کی موت پر احتجاج کرنے والے ان کے ساتھیوں کو دھماکے میں اڑا دیا گیا۔ اب ہسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں۔
کوئٹہ اس تشدد کی علامت ہے جو پاکستان کو اندر سے تباہ کر رہا ہے۔ دوسرے شہر بھی اس وباء سے محفوظ نہیں ہیں۔ خطرے کی زد میں جو لوگ سب سے زیادہ ہیں، وہ لسانی اور مذہبی اقلیتیں ہیں جو اکثر نفرت کی بناء پر تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔
اس یومِ دفاع پر ہمیں پاکستان کے دو متضاد رخ دیکھنے چاہیئں۔
ایک طرف وہ ہیں جو عالیشان، قلعہ بند ہاؤسنگ اسکیموں میں رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور محفوظ ہیں۔
دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو تشدد زدہ ہیں، غیر محفوظ ہیں، بھوکے ہیں، اور اچھے مستقبل کی امید نہیں رکھتے۔
مجھے حیرت ہے کہ نئے یو این ڈی پی سربراہ اگنیشیو ارتزا پاکستان میں اپنے دور کے اختتام پر کیا کہیں گے۔
کیا وہ بھی اشرافیہ کی جانب سے عوام کے استحصال پر خبردار کرتے ہوئے جائیں گے؟
یا وہ اس ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کی بات کریں گے جہاں ملکی دولت عوام میں تقسیم کی جاتی ہے۔