29 اپریل کو پاکستان تحریک انصاف نے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا. بلاشبہ یہ ایک بڑا پروگرام تھا. جلسہ کو بینظیر بھٹو کی 1986ء میں آمد اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے استقبال کے حوالے سے دسمبر 2012ء کے پروگرام سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی جلسہ میں کی گئی طویل تقریر بھی موضوع بحث ہے اور عمران کی جانب سے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے پیش کئے گئے نکات پر بھی گفتگو ہو رہی ہے۔ لیکن جس پر بات نہیں ہو رہی وہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف کا نیا نعرہ ” پاکستان دو نہیں ایک “۔
سینیئر صحافی غلام اکبر جو بھٹو کے جیالے تھے پھر انکے طرز حکمرانی سے مایوس ہو کر” جھوٹ کا پیغمبر” کتاب لکھی۔ آجکل وہ اپنی امیدیں عمران خان سے وابستہ کیے ہوئے ہیں وقتاً فوقتاً عمران خان کی کارکردگی پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں، دو مئی کے کالم میں لکھتے ہیں
“پاکستان دو نہیں ایک…. یہ نعرہ ابہام پیدا کر سکتا ہے جس نعرے کو سمجھانے کی ضرورت پیش آئے اسے اختیار کیوں کیا جائے”
جس رفتار سے دوسری جماعتوں سے انتخابی گھوڑے پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں اسطرح پاکستان تحریک انصاف ایک نہیں دو کا عملی نمونہ بن چکی ہے۔ باقی جماعتوں کے نعروں کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ کے تمام دھڑے، بشمول ن اور ق لیگ، انکی جانب سے کبھی کوئی نعرہ سننے میں نہیں آیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اساس نظریاتی نہیں، ہمیشہ ان جماعتوں کواقتدار تھالی میں رکھ کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ن لیگ نے اقتدار کے 35 سال گزارنے کے بعد، نواز شریف کےسپریم کورٹ سے نا اہلی پر مشہور زمانہ رونا “مجھے کیوں نکالا” کے بعد “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ متعارف کروایا۔ ا یک خبر کے مطابق یہ نعرہ انڈین امریکن تھنک ٹینک کی طرف سے فارن فنڈنگ پر چلنے والی این جی او کے ذریعے دیا گیا، اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار، “ووٹ کو عزت دو” اور ن لیگ کے جلسوں کا موازنہ کیا جائے تو اس خبر کی تصدیق ہونا چنداں مشکل نہیں۔ پیپلزپارٹی کا نعرہ،” روٹی کپڑا اور مکان” بھٹو کی طرح آج بھی زندہ ہے۔ وہ الگ بات کہ بھٹو کی پارٹی کا سفر سیاست کےقبرستان کی جانب تیزی سے رواں ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کا نعرہ” سیاست نہیں ریاست بچاؤ” ڈاکٹر طاہر القادری کے دسمبر 2012ء کے استقبال پر متعارف کروایا گیا، اور دھرنا 2013ء میں اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دفعہ 62 اور 63 کو نافذ کرنے کیلئے حکومت سے معاہدہ ہوا۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے اس معاہدے سے انحراف کیا اور تمام کرپٹ عناصر پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریاستی اداروں کوبھی شاید احساس ہو گیا ہے کہ ریاست کو کرپٹ سیاست سے پاک کرنے کیلئے دفعہ 62، 63 کا نفاذ ضروری ہے اسی لیے پانامہ اور اقامہ کی وجہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا. اس کے علاوہ جہانگیر ترین اور خواجہ آصف بھی نا اہل قرار پا چکے ہیں۔ سیاس پنڈتوں کا اندازہ ہے کہ جوں جوں موجودہ حکومت کے اختتام کا وقت قریب آ رہا ہے مزید نا اہلیاں سامنے آ سکتی ہیں. نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اس عمل میں مزید تیزی کی توقع ہے۔ آئندہ الیکشن تک اتنی نا اہلیاں سامنے آ جائیں گی کہ موجودہ کرپٹ سیاستدان تا حیات نا اہلی سے بچنے کیلئے الیکشن لڑنے سے ہی گریز کریں گے۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ عمران خان، سینٹ الیکشن میں بکنے والے پارلیمینٹیرنز کو شو کاز نوٹس جاری کر کے سیاست کو پاک کرنے کا آغاز کر چکے ہیں. تحریک انصاف کے نظریاتی اور تبدیلی پسند ورکرز بڑی تعداد میں دوسری جماعتوں کے انتخابی گھوڑوں کے تحریک انصاف میں شمولیت پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ انتخابات سے پہلے، ٹکٹ دیتے وقت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت دفعہ 62، 63 کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹکٹ دے گی تو ہی پاکستان (تحریک انصاف) دو نہیں ایک، اس معیار کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگی اور تبدیلی آئے بھی آئے گی اور نیا پاکستان بھی بنے گا۔