تحریر : طارق حسین بٹ
پانامہ لیکس پاکستانی سیاست میں کیا رنگ دکھائے گی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔میری ذاتی رائے میں میاں محمد نواز شریف ابھی تک جنرل پرویز مشرف کے بیرونِ ملک جانے کے حکومتی فیصلوں کے بوجھ تلے کراہ رہے تھے اور انھیں وہاں سے ں صاف بچ نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی کہ انھیں اچانک پا نا مہ لیکس کے مہلک وار کی زد میں آنا پڑ گیا۔انھوں نے بہتیری کوشش کی کہ جنر ل پرویز مشرف کے معاملے میں حکومتی موقف میں جان ڈال لیں لیکن وہ ایسا کرنے میں مکمل ناکام رہے۔سچ تو یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف جنرل پرویز مشرف کی ملک سے روانگی کے لئے کوئی آئینی ،سیاسی اور اخلاقی جواز ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں ۔عوام کی عمومی رائے ایک اور این آر او کے عمل پذیر ہونے کی نشاندہی کر رہی ہے۔
میڈیا پر آئین بائیں شائیں تو بہت ہوئی لیکن کوئی ایسی منطق جس سے عوام مطمئن ہو جائیں مسلم لیگ (ن) پیش کرنے سے قاصر رہی۔جنرل پرویز مشرف کی بیرونِ ملک روانگی کو عدلیہ کے سر تھوپنے کی ناکام کوششیں بھی کی گئیں لیکن عدلیہ نے جس جرات سے اپنا موقف پیش کیا وہ مسلم لیگ (ن ) کی مزید سبکی کا باعث بنا۔وفاقی وزرا جو آستینیں چڑھا چڑھا کر جنرل پرویز مشرف کو غداری کیس میں سزا دلوانے کے لئے آپے سے باہر ہوتے رہتے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کی بیرونِ ملک روانگی پر سکتے کی کیفیت میں تھے۔کچھ وزرا کو جنرل پرویز مشرف کو سزا مل جانے کا اتنا پختہ یقین تھا کہ عدمِ عمل کی صورت میں انھوں نے استعفوں کی دھمکی بھی دے رکھی تھی۔چائیے تو یہ تھا کہ وہ اخلاقی بڑے پن کا مظارہ کرتے ئے اپنی وزاعروں سے مستعفی ہو جاتے لیکن ہماری آنکھیں ایسا منظر دیکھنے سے محروم رہی ہیں ۔ان سب سے تو جاوید ہاشمی کہیں قد آور ثابت ہوا جس نے جنر ل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا اور پھر تحریکِ انصاف سے اختلاف کی صورت میں پارلیمنٹ سے مستعفی ہو گیا تھا۔غداری کیس کا جو انجام ہوا وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے لیکن ا ستعفے پیش کرنے والوں نے جس طرح اخلاقی بانجھ پن کا مظاہرہ کیا ہے وہ بڑا عبرتناک ہے۔
ہم قومی معاملات میں افعال وکردار کے انحطاط کا رونا روتے نہیں تھکتے لیکن ہم کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جب وفاقی وزرا اپنے الفاظ پر پہرہ دینے سے گریز کریں گئے تو پھر نوجوان نسل کس طرح اعمال کے ترازو میں اعلی کردارکی حامل ثابت ہو گی؟جب پارلیمنٹیرین ،پارٹی عہدیداران اور وزرا وعدہ خلافی کو روزمرہ کا معمول بنا لیں گئے تو پھر نوجوان نسل اعلی کردار کے لئے کہاں سے راہنمائی حاصل کرے گی؟ کبھی یہ کہہ کرکہ معاہدہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا ذا تی مفادات کو گلے لگا لیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ عوام الناس اپنے الفاظ،وعدوں اور معاہدوں پر پہرہ دیں گئے۔یہ بات اظہر منالشمس تھی کی جنرل پرویز مشرف تمام زنجیریں توڑ کر اس ملک سے نکل جائیں گئے اور سب دیکھتے رہ جائیں گئے۔جنرل پرویز مشرف کی پشت پر سب سے طا قت ور ادارہ تھا اور وہ ادارہ اپنے جرنیل کو رسوا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔اب تو حالت یہ ہے کہ تمام ہم پیشہ گروپوں نے اپنی اپنی انجمنیں بنا لی ہیں لہذا کسی ایک ہم پیشہ فرد پر حملہ پورے گروہ پر حملہ تصور ہوتا ہے۔
علماء، ڈاکٹرز، وکلا، ججز، صحافی، کھلاڑی اور طلبا اس کی واضح مثالیں ہیں لہذا جنرل پر ویز مشرف کو پسِ زندان رکھنا اور سزا کا مستوجب ٹھہرانا ناممکنات میں سے تھا۔اگر غداری کیس میں بد نیتی شامل نہ ہوتی تو پھر کسی حد تک توقع کی جا سکتی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کو غداری کیس میں سزا ہو جاتی لیکن جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کے شب خون کی بجائے نومبر ٢٠٠٧ کی ایمر جیسنی کے حکم پر اپنا حساب چکتا کرنا چاہا تو سارا منصوبہ غارت ہو گیا۔حکومت نے عدلیہ کے شانوں پر شکار کرنے کا جو بھونڈا منصوبہ بنایا اس کا ناکامی سے دوچار ہونا فطری تھا۔یہ بات سب کے علم میں تھی کہ افتحار محمد چوہدری کی جنرل پرویز مشرف سے ذاتی مخاصمت تھی اور پوری عدلیہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکلی تھی۔اب جہاں پر ذاتی مخاصمت اتنے بڑے پیمانے پر موجود ہو وہاں پر عدلیہ سے انصاف کی توقع رکھنا نا ممکن تھا۔
اب اگر جنرل پرویز مشرف کو سزا بھی ہو جاتی تو عدلیہ کے دامن سے اس داغ کو دھویا نہیں جا سکتا تھا۔عدلیہ تو ابھی تک ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی والے داغ سے اپنا چہرہ صاف نہیں کر سکیی چہ جائیکہ وہ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں ذاتی مخاصمت کی وجہ سے ایک نئے فیصلے سے زیرِ بار ہو جاتی۔عدلیہ نے ایگزٹ کنڑول لسٹ سے جنرل پرویز مشرف کا نام ہٹانے میں حکومتی سازش کا ساتھ دینے کی بجائے فیصلے کے کلی اختیار حکومت کو سونپ کر اپنی عزت بچا لی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو کل کو سیاست دان عدلیہ کو ایک دفعہ پھر اپنی توپوں کے دھانوں پر رکھ لیتے اور یوں عدلیہ اپنا وقار مزید کھو دیتی ۔جنرل پرویز مشرف کو غداری کیس میں سزا ہونی چائیے تھی لیکن وہ غداری کیس نومبر والی ایمر جیسنی والا نہیں بلکہ ١٢ اکتو بر کے شب خون والا ہو نا چائیے تھا۔مسلم لیگ (ن) نے اندرونِ خانہ اور بیرونِ خانہ عالمی طاقتوں سے کئی قسم کے سمجھوتے کئے ہوئے تھے لہذا حکومت سے مثالی کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔،۔
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب۔،۔کیوں کسی کا گلہ کرے کوئیپی پی پی نے جنر ل پرویز مشرف کے صاف بچ کر نکل جانے پر واویلا کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود کیونکہ پی پی پی نے حصولِ اقتدار کی خاطر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جس طرح کے معاہدے کر رکھے تھے اس کے پیشِ نظر انھیں جنرل پرویز مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔جب کوئی جماعت اصولوں کی بجائے خالی نعروں سے عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔پی پی پی نے جنرل پرویز مشرف کی بیرونِ ملک روانگی پر احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا لیکن عوام کی عدمِ دلچسپی کے باعث اسے ختم کر نا پڑا ۔عوام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جماعت جو اپنی قائد کے قاتل کو اپنے دورِ حکومت میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکی وہ اس کے بیرونِ ملک چلے جانے پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ چوہدری اعتزاز احسن بڑا دھڑلے سے کہا کرتے تھے کہ جنرل پرویز مشرف اگلے سو سال بھی پاکستان کی سر زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا لیکن سب نے دیکھا کی جنرل پرویز مشرف پاکستان آیا اور پھر غداری کیس میں ملوث ہونے کے باوجود بیرنِ ملک روانہ ہو گیا۔اعتزاز احسن اور ان کے قائدین کھلی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہے۔ان کے پاس کڑھنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا کیونکہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں کسی قاعدے اور اصول کو اہمیت نہیں دی تھی۔قاتل اور مقتول جب ایک ہی تھالی میں کھانا شروع کر دیں تو پھر سیاسی پہچان مٹ جایا کرتی ہے اور یہی پی پی پی کے ساتھ ہوا ہے۔بی بی کا لہو اتنا ارزاں تو نہیں تھا کہ اسے یوں بھلا دیا جاتا۔بے وقت کی راگنی نتائج نہیں دیا کرتی بلکہ الٹا نقصان کا باعث بنا کرتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ایشو پر پی پی پی مسلم لیگ (ن) سے بھی زیادہ حساس بننے کی کوشش کر رہی تھی حالانکہ اس کے اپنے دورِ حکومت میں مشرف کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا تھا اور اسے آزادانہ بیرون ملک جانے کی بھی اجازت بھی تھی ۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد اسی جنرل پرویز مشرف کے بیرونِ ملک چلے جانے سے پی پی پی شور شرابہ کرنے کی کوشش کرے گی تو اس کی ساکھ مجروح ہو گی اور عوام میں اس حمائت میں کمی واقع ہوجائے گی۔پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اس کی واضح مثال ہیں جہان پی پی پی کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا ۔ضرور ت اس امر کی ہے کہ پی پی پی کو دوبارہ منظم کیا جائے اور اس کی بنیادان اصولوں پر رکھی جائے جو عوامی مفادات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے ضامن بھی ہوں۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ