تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295 سی (295ـc) کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے۔1987سے اب تک 1300 افراد پر توہین رسالت کے الزامات لگ چکے ہیں ۔توہین رسالت قانون پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق اس قانون کے تحت اب تک ساڑھے نو سو سے زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں ہندو،احمدی ہی نہیں مسلمانوں کے خلاف مقدمات بھی شامل ہیں۔480مقدمات مسلمانوں کے خلاف جبکہ ساڑھے تین سو مقدمات احمدی فرقے کے اراکین کے خلاف ہیں،عیسائیوں کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات کی تعداد 120 کے قریب اور ہندو شہریوں کے خلاف چودہ مقدمات درج کئے گئے ہیں۔اب تک توہین رسالت کے سب سے زیادہ مقدمات پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس قانون کے تحت آج تک کسی ملزم کے خلاف عدالتی کاروائی مکمل نہیں ہو سکی یعنی آج تک ملک کی کسی عدالت نے توہین رسالت کے قانون کے تحت کسی پھانسی کو سزا نہیں دے سکی۔عدالت میں ایسے کیسز کا منصفانہ ٹرائل ناممکن ہوتا جارہا ہے روایت یہی ہے کہ ان کیسز میں کورٹ ٹرائل سے قبل ہی مبینہ ملزم کو مشتعل گروہ سزا دے دیتا ہے۔بعض کیسز میں کچھ لوگوں نے ذاتی رنجش کی بناء پر ایک دوسرے پر یہ الزام لگائے جو بعد ازاں عدالت میں ثابت نہیں ہوئے۔
یہ 2010ء کی بات ہے اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پاکستان میں قانون توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیاـ اس کے نتیجہ میں علماء کی ایک بڑی تعداد نے سلمان تاثیر کو واجب القتل قرار دے دیا اور 4 جنوری 2011ء کو سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور ایلیٹ پولیس کے جوان ملک ممتاز حسین قادری نے اسلام آباد کے علاقے ایف ـ6 کی کوہسار مارکیٹ میں انہیں قتل کر دیا۔
ممتاز قادری کو یکم اکتوبر 2011ء کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا تھا۔بعدازاں اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کی گئی تھی جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے مجرم ممتاز قادری کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی تھی ،اس موقع پر سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس ریکارڈ پر موجود ہیں۔
” کہ اگر لوگوں نے توہین مذہب کے مرتکب افراد کو خود ہی سزائیں دینے کا فیصلہ کر لیا تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی اور مخالفین ایک دوسرے پر توہین مذہب کے الزامات لگا کر دشمنی نکالنے کی کوشش کریں گے۔”عدالت نے مجرم کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر سے استفسار کیا تھا کہ توہین مذہب کے قانون میں کسی کو ذاتی حیثیت میں کیا اختیار دیا گیا ہے اور کیا ایک شخص خود ہی جج بن کر توہین مذہب کے مرتکب افراد کو سزا دے سکتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو مروجہ قانون کو دیکھنا ہو گا۔ دوسری طرف ممتاز قادری کے بقول اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ سلمان تاثیر نے اس کے بقول توہین رسالت کے قانون کی مخالفت کی تھی۔
28اور 29فروری کی درمیانی شب کو اڈیالہ جیل کے حکام نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے ممتاز قادری کو پھانسی دے دی۔جس پر پورے ملک میں مذہبی تنظیموں کی طر ف سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اب ایسے میںبہت سے سوالات نے جنم لیا ہے احتجاج کے اس سلسلے کے بعد اور ملک میں خوف وہراس کی کیفیت موجود ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں قانون توہین رسالت موجود ہے تو پھر کسی فرد کو یہ اختیار کیسے حاصل ہے کہ وہ کسی کو سزا دے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کی موجودگی میںکوئی کیونکر کسی انسانی جان کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
اس صورتحال میںچیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد شیرانی کا بیان حوصلہ افزاء ہے ان کا کہنا ہے”ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ لینے کی سزا دی گئی میں ممتاز قادری کے مذہبی جذبات کی عزت کرتا ہوں مگر اس سے زیادہ پاکستان کے آئین اور قانون کا احترام کرتا ہوں۔”ایسی گھمبیر صورتحال میں علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں لوگوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کریں۔
ظاہری سی بات ہے ناموس رسالت پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کرسکتا مگر ایک سوال جو اس وقت پورے پاکستان کی عوام مذہبی جماعتوں سے پوچھ رہی ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد احتجاج اور ٹریفک کا نظام درہم برہم کر کے انہیں کس گناہ کی سزا دی جارہی ہے۔
تحریر : فرخ شہباز وڑائچ