تحریر: نسیم الحق زاہدی
تھر میں لوگ افلاس کے ہا تھوں لقمہ اجل بن رہیں ہیں با اثر افراد کے پر و ٹو کو لز معصوم انسانوں کو نگل رہے ہیں جاگیر دار نے مز ار ع کے ہا تھ پا ئو ں کا ٹ دیئے مو لوی نے مسجد میں معصوم بچے کی عز ت لو ٹنے کے بعد اُسے بڑی بے دردی سے قتل کر دیا اعلیٰ پو لیس افسر کے بیٹے نے راہ گز ر کو اپنی گا ڑی کے نیچے رو ند ڈالا سیا سی لیڈ ر کے با اثر بیٹے کے حکم پر نہتی خواتین کو سر عام گو لیوں سے بھون دیا گیا پولیس افسر نے رشوت لیکر بے گنا ہ کو تشدد کر کے مار ڈالا وڈیرے نے سر عام غریب کی بیٹی کی عز ت لو ٹنے کے بعد ویڈیو بنا کر بلیک میل کر تا رہا امیر باپ کے بگڑے بیٹے شراب پی کر سر عام فائر نگ کر تے رہے گو لی لگنے سے معصوم بچے ہلاک غریب بیوہ مظلوم بے
بس لا چار کے گھر پر قابض ہو گئے عرصہ دراز سے کتوں گدھوں اور سورکا گو شت کھلا یا جا تا تھا بھاری جر ما نہ لیکر چھو ڑ دیا گیا ڈاکٹر سر کاری ادویات اپنی پر ائیویٹ کلینکس پر سیل کر تاہے سرعام شراب کباب کی محفلیں اُونچی آواز میں ڈیک پر فحش گانے روکنے پر فائرنگ خواتین کے کپڑے پھا ڑ کر برہنہ کر دیا گیا پولیس ملز مان کے ساتھ سا ز با ز ہو گئی ر شو ت سفارش کے بغیر ملا ز مت نہ ملنے پر نو جوان نے تعلیمی ڈگریوں سمت خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی انصاف نہ ملنے پر بو ڑھے باپ نے زہر پی لیا حاکم وقت کے ایک غیر ملکی دورے پر ملکی خزانہ خالی ہوگیا مساجد کو بجلی کے بل میں ٹی وی ٹیکس سود منا فع بن گیا جو اء خانے ،شر اب خانے ، زنا خانے سر عام حاکم شہر کی پشت پناہی مساجد کا تقد س پامال معصوم طالبات پر بم مسجد قبر ستان بن گئی یہ افسانوی با تیں یا کوئی قصہ کہانی نہیں بلکہ اس عظیم خطے کی داستان حقیقت ہے جسے مقد س لہو کا نذرا نہ دے کر حاصل کیا گیا مجھے اس با ت کا بخوبی علم ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا اور حقیقت ہمیشہ تلخ ہو تی مگر میں اپنی زند گی میں اپنا رخت سفر باند ھ چکا ہو ں سو چتا ہو ں کہ پاکستان کیوں بنا ؟
اور اس کے حصول کے لئے کیا کچھ ہو ا ؟ ایک نظر گز ر ے ہوئے سالوں کی طر ف جا تی ہے مسجدیں رنگریزاں شہر کی اہم ترین دینی درس گاہ تھی اور اس میں نہا یت مشکل دنوں اور سخت نا منا سب حالات میں بھی 5وقت کی اذان اور نما ز ہو تی تھی لیکن پاکستان کی صبح آزادی مسلمانوں کے لئے شب قیا مت سے کم نہ تھی 27رمضان المبا رک ریا ستی اور گو ر کھا فوج نے مقامی ہند و اور سکھ بھیڑیوں کی نشاند ہی پر اس مسجد پر ہلہ بو ل دیا سنگین حالات کی وجہ سے محلے کی تمام خواتین نے غنڈ وں اور اکالی درندوں کے متوقع حملے کے پیش نظر اس مسجد میں پنا ہ لے رکھی تھی مگر ان درندوں نے قر آن پاک کے مقدس نسخوں کی بے حرمتی کی نو جوان لڑکیوں نے مسجد کے ملحقہ کنویں میں چھالانگیں لگا کر اپنی آبررویں بچائیں مگر وحشیوں نے مسجد کے اندر عز ت لو ٹیں اور بعد میں قتل کر کے لا شوں کو بر ہنہ چھو ڑ گئے 14اگست 1947ء کو صوفی غلام محمد ترک نے جب میجر پو رن سنگھ مجسٹریٹ علاقہ شریف پو رہ کو سکھ وحشیوں کے انسانیت سوزمظالم کا ذکر کیا تو وہ جا ئے وردات پر چلنے کو آما د ہ ہو گیا شہر بھیا نک تبا ہی کا نقشہ پیش کر رہا تھا جب مسجد رنگریزاں میں پہنچے تو وہاں 11نو اجوں لڑکیوں کی در د انگیز لا شیں اپنی مظلومیت کا اظہا ر کر رہی تھیں پیٹ چاک تھے ایک مکان کی چھت پر لگے پائپ سے خون بہہ رہا تھا
چھت پر چڑ کر دیکھا تو ایک شیر خوار بچے کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے (بحوالہ داستان ترکص ٩٢) بچوں کو پیشا ب تک پلا یا گیا کچھ ظالم ایسے بھی تھے جو ایک ایک عضو کاٹ کر مقتول کے تڑپنے پر لطف اند واز ہو تے تھے ظالم بچوں کو کر پان کی نو ک سے قتل کر تے پائوں تلے روند تے اور کہتے یہ ہے تمہار ا پاکستان (بحوالہ امر تسر میں خون کی ہولی فرخ امر تسری ) پائیل ریا ست پٹالہ کے مسلمانوں نے علاقہ کے تھانیدار سے درخواست کی کہ ہم سے معاوضہ لیکر ہمیں مالیر کو ٹلہ چھو ڑ آئے یہ معا وضہ 5 لاکھ روپے تھا 3اور 4 ستمبر کی درمیانی شب مسلمانوں کا قافلہ چند غیر مسلم شہریوں اور سکھ پولیس کی حفاظت میں نکالا تقریباً 10 میل کے فاصلے پر ایک مید ان میں قافلہ روک دیا گیا سیکھ تھانیدار نے ایک ہو ائی فا ئر کیا قریب چھپے ہوئے 40 ہز ار بلوائیوں جو کہ مسلح تھے حملہ آوار ہو گئے گھنٹوں تک ہولناک منظر آنکھوں کے سامنے رہا ہر طر ف خون ہی خون تھا عورتوں کو اغوا ء کر لیا گیا ایک 20 سالہ نو جوان لڑکی سکتہ کے حالت میں کھڑی تھی اس کے گلے میں قرآن پاک حمائل تھا چند بلوائی اس کے قریب آئے اور قر آن پاک اُتا ر دینے کو کہا انکا ر پر ایک سکھ نے گردن پر وار کیا سر تن سے جد ا ہو گیا درندوں نے قرآن پاک کے اوراق پرزہ پر ز ہ کر دیئے اور دو سری مسلمان لڑکیوں کو ان پر لیٹا کر ان کی عصمت دری کر نے لگے بعد میں انہیں بھی قتل کر دیا گیا (بحوالہ آپ بیتی کا روان سخت جان ایم ۔ ایس ۔ راحت) بریگیڈ ئر برسٹو ہز اروں مسلمان لڑکیوں کے اغواء کا تذ کر ہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ اغواء شد ہ خواتین کا مستقبل بھی بھیانک نظر آتا تھا کیو نکہ ابھی تک خواتین کی ایک بہت معمولی سی تعد اد باز یا ب ہو سکی تھی جنہیں ان کے لواحقین کے سپرد کر دیا گیا عورتوں کی جو لا شیں دستیاب ہو رہیں تھیں ان سے معلوم ہو تا تھا
سکھوں نے انہیں اپنی حوس کا نشانہ بنا نے کے بعد ایک وحشیانہ طریقے سے مو ت کے گھا ٹ اُتار دیا تھا بر یگیڈ ئر کلفر ڈویم چشم دید واقعا ت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں جی ٹی روڈ (گرائونڈ ٹرنک روڈ ) سے لد ھیانے کے درمیان اپنی جیپ پر سفر کر رہا تھا میں نے سٹرک کنا رے تقریباً 40عورتوں کی لا شیں دیکھیں جو سکھوں کی بر بریت کا ہولناک منظر پیش کر رہیں تھیں ان عو رتوں کو بڑی بری طرح چھیر پھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا گڑھ مکتیشرمیںمسلمانوں کی ہزاروں لا شیں بکھر ی پڑی تھیں قصبے کی مسجد کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں لاشیں نہ ہو ں وہ نالی جہاں وضو کیا جا تا تھا اس میں پانی بجائے خون منجمد تھا مسجد کے صحن میں لاشیں دبانے کے لئے ایک گڑھا کھو دا جا رہا تھا ایک تالا ب میں لا شوں کا انبار لگ رہا تھا اس کے ارد گر د دیوار کی تعمیر کی جا رہی تھی ستم یہ تھا کہ پو لیس اسٹیشن کی دیوار کے نیچے بھی لا شوں کا ڈھیر لگا ہو اتھا مکانوں سے ابھی تک دھو اں اُٹھ رہا تھا ایک جاٹ کے ہاں سے ایک لڑکی بر آمد کی گئی اس کی عمر 11,12بر س تھی اور حالت نا گفتہ بہ ایک قد م چلنا محال تھا اس کا بیان یہ تھا کہ جس دن سے یہ مجھ کو لا ئیں ہیں شام کو تھو ڑ ا سا کھا ناپانی دیتے ہیں اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہو تا ہے صبح تک درد کی تکلیف سے بے ہو ش رہتی ہوں
لیکن سول سرجن نے اپنی رپورٹ میں اسے بالغ اور فاحشہ وغیرہ لکھا (بحوالہ آنکھوں دیکھی حفیظ جعفری ) بریگیڈئر برسٹو لکھتا ہے کہ ہمار ا طیا رہ دریا ستلج کے شمال میں راہول نامی بستی پر پر واز کر رہا تھا ہم نے دیکھا کہ ہزاروں سکھوں کا ایک غول بستی کے چا روں طر ف مکھیوں کی طرح بھنبھا رہا ہے اور لو گ جلد ی جلد ی لو ٹا ہو ا مال گاڑیوں میں لا د رہے تھے اور جو لو گ بچ گئے ان کی تعدا د 100 کے لگ بھگ معلو م ہو تی تھی وہ قید ی بنا لئے گئے تھے انہیں لمبی قطاروں میں کھڑ اکر دیا تھا ایسا معلوم ہو تا تھا کہ جیسے ان سب لو گو ں سے پر یڈ کر ائی جائیگی لیکن قریب جا کر دیکھنے پر معلوم ہو ا کہ وہ سب نو جوان عورتوں اور لڑکیوں کی قطا ریں تھیں اور چند سفید داڑھی والے جھتیدران ان کامعائنہ کر رہے تھے ایسا دیکھائی دیتا تھا جیسے کوئی جشن منا یا جا رہا ہے وہ اپنی اپنی پسند کی چیز یں چھانٹ رہے تھے گلی کوچوں میں چا روں طر ف لا شیں ہی لا شیں بکھری پڑی تھیں اند ا ز ا ہو تا تھا ان لو گوں کوبھا گتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنا یا گیا تھا بر یگیڈ ئر برسٹو مسلمان مہاجروں کی سپیشل ٹرینوں پر ہند ئوں سکھوں کے منظم حملوں کا تذکر ہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 11ستمبر 1947ء کو جنک سنگھ اور اس کے ڈو گرہ گر وپ کا ایک عجیب واقع پیش آیا ٹرین پر حملہ ہو ا حملہ آوار 200 کے قریب عو رتوں اور لڑکیوں کو اپنے سا تھ لے گئے
لو گ رات بھر اپنے عزیز وں کی تلاش کرتے رہے صبح ہوئی تو ایک عورت کی جو تی کچھ فاصلے پر ملی اس سے آگے ایک میل کے فاصلے پر جھا ڑیوں میں تقریباً 100 برہنہ عو رتیں ملیں ان میں کچھ زندہ تھیں اور بیشتر عو رتوں کی چھا تیاں و دیگر اعضا ء کا ٹ کر مو ت کے گھاٹ اُتا ر دیا گیا تھا بچے قتل کر دیئے تھے 20 کے قریب بچے رینگ رہے تھے اور اپنی ما ئوں کو تلا ش کر رہے تھے عورتوں کی بر ہنہ لا شیں دیکھ کر انداز ا ہو تا تھا کہ را ت بھر ان عو رتوں کی با ر با ر عصمت دری کر نے کے بعد انہیں قتل کیا گیا تھا کئی ہز ار اکائی گھوڑوں پر سوار تھی انہوں نے دوبار ہ حملہ کیا (بحوالہ جب امرتسر جل رہا تھا از خواجہ افتخار ٨٣٢) یہ سارے واقعات تو ابھی حرف آغاز ہیں اس پاکستان کے حصول کے لئے کیا کیا قر بانیاں دینی پڑیں اگر میں تفصیل میں جائوں تو یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہو گا کہ حصول پاکستان کے لئے جتنا خون بہا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی آخر وہ کونسا ایسا جذبہ تھا کہ لو گوں نے اپنے پیا روں کی اپنے ہا تھوں قر بانیاں دے دیں کیا مو جو دہ پاکستان اقبال کا خواب اور قائد کی آمنگ ہے ؟یہ حقیقت اور موضوع تلخ اور خشک ہے لو گ پڑھنا اور سننا پسند نہیں کرتے مگر میر ا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان پلیٹ میں رکھ کر ہمیں نہیں ملا بلکہ پاک لہو کے سمندر سے اس عظیم ملک کی آبیا ری ہوئی ہے آج مو جو دہ پاکستان میں تو قبل آزادی جیسے ہی حالات ہیں پھر آزادی کس چڑیا کا نام تھا ؟
کل تک کمز وروں کی عز ت ، جان ومال محفوظ نہ تھا اور آج بھی نہیں ہے کل تک ہم ہند ئوں انگریزوں اور سکھوں کے غلا م تھے اور آج وڈیروں جا گیر داروں اور سرداروں کے در کے غلام ہیں پولیس والے تب بھی محافظ نہ تھے اور آج بھی نہیں ہیں کیا مو جو دہ پاکستان اسلام کی تجر بہ گا ہ ہے ؟ درباری ، سرکاری ، اشتہاری ملائوں نے مساجد اور عبادات کو ذریعہ معا ش بنا لیا ہو ا ہے اسلام کے نام پر انتہا پسندی ، فرقہ واریت ، گر وہ بندی ، تعصب کو پروان چڑھایا جا رہاہے جمہوریت جو مسلمان کا نظام حکو مت ہی نہیں عام لو گوں کی حکو مت کے نام پر مظلوموں غریبوں اسحتصال کیا جا رہا ہے چند لو گ عرصہ دارز سے مسلسل اس ملک کو لو ٹ رہے ہیں پاکستان میں ہر شخص آزاد ہو گا ؟ کسی ماں کو اس کی بیٹی کی عز ت کے لو ٹ جا نے کا خوف نہ ہو گا بھائی اپنی بہن کی عز ت کے لو ٹ جانے کے خوف سے اسے خود اپنے ہا تھوں قتل نہیں کر ے گا مظلوم کو انصاف ملے گا، پولیس رشو ت نہیں کھائے گی ، ڈاکٹر ڈاکو نہیں بنے گا ملاں کے فتوؤں میں ر وز شریعت کا کا رو بار نہیں ہو گا قا ضی کا قلم نہیں بکے گا وڈیرہ کسی مزارعے کے ہاتھ پائوں نہیں کا ٹے گا ،
عبا دت کلاشنکوفو ں کے سائے تلے نہیں ہو گی حاکم وقت پتھر کا نہیں ہو گا نبی سے محبت اور گستاخ رسول ۖ کو جہنم وصل کر نے کی سز ا مو ت نہیں ہوگی کوئی کسی کا مال نہیں کھائے گاشراب کباب کی محفلیںنہیں ہونگیں وڈیرہ جا گیردرانہ نظام نہیں ہو گا سب کے حقو ق بر ابر ہو نگے اسلامی اشعا ئر کا مذاق نہیں اُڑیا جا ئے گا سچ بتائیے کچھ بدلہ ہے ؟اگر ہم نے ایسے ہی رہنا تھا تو اپنوں سے دور کیوں ہوئے ؟ جانوں کے نذرانے کیوں دیئے ؟ پاکستان کا مطلب تو لا الہ اللہ تھا اور مقصد محمد الر سول اللہ ۖ تھا جو ہم بھول گئے ہیں بانی پاکستان محمد علی جناح نے لائٹ مائونٹ کو منہ تو ڑ جو اب دیا تھا کہ ہم مسلمان اکبر کی طرز حکومت کے قائل نہیں ہمارا قبلہ مکہ مدینہ ہے ہما را نظام بھی ویسا ہی ہو گا آج ہماری طر ز حکو مت یہو دکی دین رہن سہن رسم و رواج ہند ئوں سکھوں جیسے طو ر طریقے عبادات صلیبوں جیسی آج ہم کیسی ترقی کر رہے ہیں ؟کھانے کو روٹی نہیں پینے کو صاف پانی نہیں رہنے کو چھت نہیں نو جوان ہمارے بے روز گا رہیں ان پڑھ جاہل صاحب اقتدار ہیں ظلم جبر افلاس تشدد اجا ر ادری تو ویسے ہی ہے جاہل عوام آزاد ی کی قیمت کیا جانے ایک سوال جس کا جواب کسی کے پا س بھی نہیں شا ید کیا یہ وہ پاکستان ہے ؟قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال والا یا پھر
تحریر: نسیم الحق زاہدی