تحریر : انجینئر افتخار چودھری
اور آج وہ پاکستان کے ٹیلیویزن پر درس دیتا ہے۔کسی کو علم ہی نہیں کہ یہ بھیڑیا اپنے اقتتدار میں پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا رہا؟ظلم اور بر بریت کی ایک ایسی کہانی جو پاکستان کے لوگوں کو علم ہی نہیں۔یہ جو چہرے آپ کو معصوم دکھائی دیتے ہیں در اصل بھیڑیے کا روپ ہیں۔جنرل اسد درانی اور جنرل مشرف جنہیں زم زم سے دھونے کا عمل جاری ہے۔ دیکھئے ان کے وہ سیاہ کام جو اب نواز شریف اور آصف علی زرداری کی نالائقیوں کی وجہ سے چھپ رہے ہیں۔میں اس داستاں کو نہ بیان کرتا مگر سوشل میڈیا پر دوستوں نے اسد درانی کی میری پوسٹ پر سوال اٹھائے تو دل کر آیا۔
٢٤ جون ٢٠٠٢ کی سہ پہر کو گوجرانوالے کے بڑے قبرستان میں والد صاحب کے قدموں میں بے جی کو دفن کر کے آئے تو محسوس ہوا کہ محبت کے سوتے دفن کرد یے ہیں بے جی دو ہفتے پہلے بلند فشار خون کا شکار ہوئیں ۔انہیں نلہ ہری پور سے بے ہوشی کے عالم میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال لایا گیا تھا۔میں ان دنوں جدہ سے جنرل مشرف حکومت کی مہربانیوں کا شکار ہو کر پاکستان آیا تھا۔بے جی نے میری اکہتر دن کی اسیری کے صدمے کو جس طرح برداشت کیا وہ ایک دلیر ماں کا ہی کام تھا مجھے میرے دوست اعجازالحق فون پر رابطہ کر کے میری خبر ان تک پہنچاتے تھے۔ہم جدہ میں میاں نواز شریف کی قربتوں کی سزا بگھت رہے تھے جو ان دنوں جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔
اس زمانے کا ایک فرعون نما شخص سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر تھا۔جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری میں پاکستانیوں پر جھپٹ پڑا پہلا بڑا شکار قاری شکیل ہوئے جنہیں پندرہ دن کی اسیری کے بعد میاں نواز شریف نے چھڑوا لیا اس کے بعد عظمت نیازی پر ہاتھ ڈالا گیا ساتھ میں آ فتاب مرزا اور ڈاکٹر قسیم بھی دھر لئے گئے۔ یہ سب مسلم لیگئے تھے۔میں شوقیہ فنکاری کے تحت ایک اخبار کے لئے لکھتا تھا جو ظلم جبر اور فحاشی کے خلاف آواز بلند کرنے کا دعوی کرتا تھا۔میں نے اخبار میں ان پاکستانیوں کی گرفتاری کے خلاف ٹھیک ٹھاک آواز بلند کر رکھی تھی جنرل مشرف امریکہ گئے تو وہاں بھی ایک صحافی سے سوال کروا دیا۔میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ جنرل اسد درانی سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ نے چار پاکستانیوں کو گرفتار کروا کے اچھا نہیں کیا انہوں نے تنک کر جواب دیا چار سو بھی چلے جائیں تو فرق نہیں پڑتا۔
قونصلیٹ کے سول افسران ہمیشہ کی طرح پیار کرنے والے اس ساری صورت حال پر پریشان تھے عسکری سفیر اور اس کا جدہ قونصلیٹ میں نمائیندہ بے چارے پاکستانیوں پر برق گرانے میں مصروف تھے۔یہ پہلے لوگ تھے جو معاشی قتل کروانے میں پیش پیش تھے ورنہ ان سے پہلے جتنے بھی آفیسر ان ذمہ داریوں پر متعین رہے ان کا پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ بڑا اچھا تعلق رہا جدہ کے پاکستانی بریگیڈئر امیر گلستان جنجوعہ کو بھلا نہ پائیں گے جنہوں نے انہیں ایک بہترین درسگاہ دی۔ادارے برے نہیں ہوتے افراد اپنے کاموں سے انہیں بد نام کر دیتے ہیں۔پاکستانی کی گرفتاری پر پوری پاکستانی کمیونٹی پریشان تھی ۔ہم بھی متفکر تھے۔ہوا یہ کہ پاکستانی اسکول کے انتحابت ایشو پر کمیونٹی کے ایک بڑے طبقے کی دوسرے گروپ سے مخالفت تھی اسی کے سلسلے کی ایک تقریب میں جناب سفیر پاکستان سے اختلاف کر بیٹھا جس کا انہوں نے شدید برا منایا اور ہمیں بھی محبان نواز کے ساتھ ٹانک دیا گیا۔ہم نے بعد میں کہہ دیا کے پہلے نہیں تھے اب ہیں۔سچی بات ہے آمریت کے سائے جب بھی پاکستان پر منڈلائے میں نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ جمہوریت ہی بہترین طرز حکومت ہے،یہ بات ریکارڈ کے لئے لکھ دوں کہ عمران خان کی جانب سے ایک بار اشارہ ہوا تو پارٹی میںMartial law over our dead body کی compaignچلانے والوں میں شامل تھا۔خیر ہم ان دنوں دھر لئے گئے۔روز بے جی سے بات کرتا۔
جب پہلی بار فون پر بات ہوئی تو کہنے لگیں۔ او جانے پترا مرداں تے ایوقت آندے رہندے نیں۔ بے جے نے کبھی کسی وقت کسی کی برائی ہمارے سامنے نہیں کی۔والد صاحب نلہ ہری پور سے معاشی ہجرت کر کے اپنے بڑے بھائی کے بلانے پر گوجرانوالہ آ گئے تھے۔میں چندہ ماہ کا تھا والد صاحب محنت کرتے کرتے ایک چھوٹی سی فیکٹری کے مالک بن گئے چوہان میٹل ورکس اس کا نام رکھا۔ہم گجر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ہمیشہ دو تین بھینسیں ہمارے کلے پر ہوتی تھیں کارخانے کے مزدور دن میں ان کی خدمت کرتے البتہ رات کے اندھیرے میں بے جی کام کیا کرتیں۔اللہ نے انہیں شروع سے ہی نماز پنجگانہ ادا کرنے کی نعمت سے نواز رکھا تھا تہجد گزار بھی تھیں۔صبح سویرے لسی جب تیار ہو جاتی تو بے جی بڑی خوش دلی سے محلے داروں میں تقسیم کرتی تھیں۔بچے لسی لینے آتے تو ان کے برتنوں کی ایک قطار سی لگی ہوتی تھیں۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ایک بچی دیر سے آئی تو والد صاحب نے اسے واپس کر دیا۔بے جی کو معلوم ہوا تو اپنے دوپٹے کے نیچے گڈوی رکھ کر ان کے گھر لسی دینے چلی گئیں۔کہا کرتیں۔ امتیاز دے ابو او جانے غریب ہمسائے نیں دعاواں دین گے۔٧١ دن بہت ہوتے ہیں،یوں تو پاکستان میں تحریک ختم نبوت میں بھی سرکاری مہمان رہ چکا تھا مگر پردیس میں اپنوں سے دور اور پھر اس کے اوپر میری اپنی فیملی جدہ میں تھی یہ صدمہ برداشت کرنا کافی مشکل تھا۔میں چھپ چھپ کر فون پر انہیں حوصلہ دیتا۔ادھر میاں نواز شریف کے فون ہمیں آتے ہمیں حوصلہ ملتا،جدہ گھر سے بیگم بتایا کرتیں کہ بیگم کلثوم،نصرت شہباز اور مریم نواز شریف حوصلہ دیتی رہتی ہیں۔ عطائالحق قاسمی،رو ئف طاہر،ڈاکٹر سعید الہی گھر جا کر تسلیاں دیتے کہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔اللہ جنت بخشے قاری شکیل کو وہ تو تڑپ کر رہ گئے۔ہم اندر اب زیادہ مصروف ہو گئے تھے کیوں کہ آئے روز کوئی نیا مہمان آ جاتا تھا۔ہمارے اپنے تعلق تو تھے ہی میرے ساتھیوں کی دوستیاں جنرل مجید ملک،شیخ رشید،اعجازالحق سے تھیں اور میں خود بھی ان سے ایک عرصے سے تعلق رکھتا تھا۔
پھر چند دن تو تڑپنے میں گزرے لیکن بعد ازیں ہمیں یہ بتایا گیا کہ جلد ہی آپ لوگ نکل جائیں گے اور خبر تھی بھی مصدقہ۔لیکن اس دوران میں بھول گیا کہ ماں فون پر تو بڑی دلیر ہے مگر رات کو مصلے پر بہت روتی ہے۔ ایک دو بار میاں نواز شریف نے بھی فون پر بات کر کے تسلی دی۔پھر پتہ نہیں کیا ہوا دو ماہ گزر گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا مجھے جانا ہے۔میں کمپنی سے کہا میرا پاسپورٹ دے دو۔بھلا ہو ان کا انہوں نے میرے ساتھ بہترین سلوک کیا اور ایک روز میں وہاں سے چلا آیا۔کیپٹن صفدر،سہیل ضیاء بٹ کو میں نے کہہ دیا اب انتظار نہیں ہوتا ۔میں ماں کے لئے پریشان ہو گیا۔قونصلیٹ کے افسران کا اللہ بھلا کرے سب بہت اچھے تھے حتی کہ عزت مآب قونصل جنرل چودھری نواز بھی جدہ ترحیل می مجھے ملے آئے ان کی بیگم گھر آتی رہیں میرے ذاتی دوست بہت سے قونصلر وں نے میرا ساتھ دیا۔٢٨ مئی ٢٠٠٢ کو میں جدہ کے حاجی کیمپ سے پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوا جہاز میں دوسری جانب سے میرے بچے پہنچے میری بیگم اور بچوں سے اکہتر دنوں بعد ملاقات ہو رہی تھی۔بال کافی حد تک بڑھے ہوئے تھے مگر ایک قینچی ہمیں ایک تربوز میں رکھ کر بھیجی گئی تھی اس سے ہم کام چلا لیتے تھے۔گیا۔ اگلے روز میں بے جی کے پاس پہنچ گیا۔یہاں آ کر معلوم ہوا مائیں اصل میں سارے دکھ جھیل لیتی ہیں مگرایک دکھ جو برداشت نہیں کر سکتیں وہ ہے اولاد کا دکھ۔ وہ میری معاشی مجبوری پر فکر مند تھیں۔ان سے میرے بچوں کے مستقبل کی فکر کا بوجھ برداشت نہ ہو رہا تھا۔میں اپنی بیگم کے ساتھ گائوں جانا چاہتا تھا ۔میرے چچا چودھری محمد شفیع میری اسیری کے دوران اس جہاں سے رخصت ہو گئے تھے۔بے جی نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ جائوں گی میں اپنی دلیر بہو کو کیسے اکیلے جانے دوں گی جس نے اپنے باپ کے جنازے کو چھوڑ دیا لیکن میرے بیٹے کو پردیس میں اکیلے نہ چھوڑا۔ہم نلہ پہنچے شاید ایک دو دن ہی گزرے تھے کہ ایک دن صبح سویرے کھانے والی جگہ پر سانپ آ گیا بے جی نے اسے مار دیا اور کہنے لگیں پتہ نہیں دشمن کیوں پیچھے پڑ گیا ہے۔
اسی دوپہر کو انہیں ہائی بلڈ پریشر کا اٹیک ہوا ہم انہیں پمز لے کر آئے۔میرے گائوں کا راستہ جو اب ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے ہمیں براستہ خانپور آنے میں چھ گھنٹے لگے۔اس ہسپتال میں والدہ صاحبہ ١٧ دن رہیں کبھی ہوش میں آ تیں اور کبھی بے ہوش۔ہر وقت وہ میری باتیں کرتی رہتیں۔ماں کو میرا اجاڑا مار گیا۔میں تڑپ تڑپ جاتا۔کبھی ہوش میں آتیں تو میں کہتا میں بدلہ لوں گا۔کہتیں وا ولی جان اے،ساریاں گلاں اللہ تے چھوڑ۔پھر کہتیں او جانے۔ وہ سب کی بے تھیں پورے محلے کی بے۔الیکشن میں بیٹا کھڑا ہوا تو مخالف کو بلا کر کہا تم بھی میرے بیٹے ہو۔ان کی یہی کوشش بڑی خوں ریزی سے بچا گئی۔آج نون لیگ اقتتدار میں ہے میں زیادہ لکھنا بہتر نہیں سمجھتا مگر یہ مریم نواز شریف کو علم ہے کہ بے جی نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان کی ا کے والد صاحب سے ملاقات جلد ہو گی۔اس وقت میاں صاحب اٹک قلعے میں تھے،پھر انہیں استغفار کے لئے خصوصی تسبیح بھی بے جی نے دی تھی۔ ان کے انتقال پر میاں صاحب نے فون کر کے ڈھارس بندھائی تھی یہ الگ بات ہے کہ میرا سیاسی سفر جلدہی ان سے علیحدہ ہو گیا۔میاں صاحب نے ایک بار مجھے کہا تھا چودھری صاحب آپ کو میری وجہ سے دکھ پہنچے ہیں کیا خدمت کروں اس وقت کا جواب اپنی جگہ مگر اب میں ان سے درخواست کروں گا کہ اس جمہوریت کے لئے لوگوں نے بہت کچھ دیا ہو گا مگر میں نے ماں دی ہے وہ ماں جو بقول آپ کے آپ کی بھی تھی،سوال صرف یہ ہے کہ مائوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیے آرٹیکل ٦ کا استعمال نہ صرف ہم بے قراروں کو قرار دے گا بلکہ آمنہ مسعود جیسے بے شمار مسنگ پرسنز کے ورثاء اور بلوچ مظلوم بھی اس سے اافاقہ پائیں گے۔ جدہ سے دربدر ہونے والے شہباز دین بٹ،خواجہ امجد،نعیم بٹ، عظمت نیازی اور بہت سوں کی قربانیاں آپ سے یہی سوال کرتی ہیں۔ ہمیں اس مشکل وقت میں ڈھارس بندھانے والوں میں عباس اطہر مرحوم کی تحریر یاد ہے اور اور اسلام نظریہ پاکساتان کے مجاہد جناب مجید نظامی کے حوصلے۔اللہ رب العزت انہیں عمر خضر دے آمین۔بے جی کو اس دنیا سے گئے ١٣ سال ہو گئے ہیں ایسا لگتا ہے تیرہ صدیاں بیت گئی ہیں۔دنیا کی ساری مائیں بہت اچھی ہوتی ہیں مگر ان میں صرف خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو روتا بلکتا چھوڑ جاتی ہیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم جنازہ لے کر نکلے تو سخت گرم موسم میں ہلکی پھوار شروع ہو گئی۔مولانا رحمت اللہ نوری مرحوم نے نماز جنازہ پڑھائی۔حافظ عبدالرحمن مکی نے نے دعا کرائی ہم پسینے میں شرابور جنازہ لے کر نکلے اور دفن کے وقت موسلا دار بارش میں واپس لوٹے۔بڑے قبرستان میں جنازگاہ میں تل دھرنے کوجگہ نہ تھی۔ ہم اس دعا کے منبع کو دفن تو کر آئے مگر آج تک شاید ہی کوئی لمحہ ان کی یاد کے بغیر گزرا ہو۔اللہ رب العزت ان کو کروٹ کروٹ جنت بخشے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔آمین۔اب میرے دوستو کو علم ہو گیا ہو گا کہ جنرل اسد درای کیا چیز ہے۔یہ چلا ہوا کاتوس پاک فوج کے ماتھے کے اوپر لگا کلنک کا ایک ٹیکا ہے۔اس کے مکروہ چہرے کو دیکھ کر مجھے پاکستانیوں کے وہ چہرے یاد آ جاتے ہیں جو رل گئے ان میں دو تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں جن می قاری شکیل اور ارشد خان شامل ہیں۔اک او جانے کا سہارا ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری