تحریر : ایم ابوبکر بلوچ چوک اعظم
8مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اکیسویں صدی کے شروع سے ہی پوری دنیامیں آئے روز عالمی دن منائے جاتے ہیں تقریباً ہر دن کسی نہ کسی خاص نسبت سے جڑا ہو ا ہے کسی دن والدین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے تو کوئی دن اساتذہ کے ساتھ منسوب ہے اسی طرح مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن معاشرہ سے انسانیت ختم ہو چکی ہے۔ آئے روز مائوں بہنوں کی عزت کو سر بازار نیلام کیا جا رہا ہے۔اولاد کے دلوں سے والدین کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے،اساتذہ کے حقوق پامال ہو چکے ہیں۔مزدور اسی طرح بدحالی ،غربت کا شکار ہیں اور حالات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عورتوں پہ جبری مشقت کے واقعات عام ہیںہر سال سینکڑوں عورتیں غیرت کے نام پہ قتل کی جاتی ہیں ۔چادراورچاردیواری کا تقدس پامال کیا جارہا ہے جنوبی ایشیاء میں ساٹھ فیصد سے زیادہ عورتیںگھریلو تشدد کا شکار ہیںلیکن قانون نافذکرنے والے ادارے بالکل خاموش ہیں ہمارے معاشرے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے برصغیر سے انگریز تو چلے گئے مگر اپنی زبان ،اپنا کلچر،اپنا عدالتی نظام ہمارے ملک میں چھوڑ گئے
ہم سب محبت رسول کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر حکم انگریز کا مانتے ہیں انگریز کی تعلیم حاصل کرنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں قران پاک صرف کسی کی مرگ پہ پڑھا جاتا ہے۔ملک پاکستان اسلام کے نام پہ حاصل کیا تھا مگر قانون انگریز کا چلتا ہے۔نام تو خدا کا لیتے ہیں نام رسول اللہ کا لیتے ہیں مگر بات انگریز کی مانتے ہیں ۔ہم اور ہمارے حکمران انگریز کی غلامی اختیار کر چکے ہیں۔اس ملک میں امریکہ کی ایماء پہ ہی سب کچھ کیا جارہا ہے ہمارا میڈیا تک غیرملکی ایجنسیوں کا حکم ماننے پہ مجبور ہے۔ ملالہ یوسفزئی کو نوبل پرائز ملتا ہے تو یہ ہماری خوش قسمتی اور باعث فخر ہے اگر ملالہ کومحض تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے اور امن کا پیغام دینے پر اتنی زیادہ پذیرائی مل سکتی ہے تو اسکے مقابلے میں ہماری کم عمر پاکستانی بیٹی سافٹ وئیر انجینئر اوربیش بہاخوبیوں کی مالک ارفع کریم رندھاوا کواتنی جلدی کیوں بھلا دیاگیا؟یہ تو وہ عظیم بچی ہے کہ جس سے بل گیٹس بھی متاثر ہوئے اور داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ایسے عظیم لوگ صدیوں بعد مائیں جنتیں ہیں جوکہ پوری پاکستانی قوم بلکہ ساری انسانیت کی چاہت تھی(اللہ پاک اسے جنت الفردوس میں عالی مقام عطافرمائے اور اسکے درجات بلند فرمائے ،آمین)
اسی طرح ہماری ایک اور عظیم پاکستانی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی (جسکے بارے میں ہم سب پاکستانی بلکہ تمام مسلم قیامت کے دن اللہ پاک کے ہاں جوابدہ ہیںکہ اس پر ہونے والے کفارکے ناجائزمظالم کے خلاف ہم نے کتنی آواز بلند کی اوراسکی رہائی کیلئے کتنی کوششیں کیں؟) کچھ عرصہ قبل میں ایک تحریر کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں یہ انکشاف تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے پاس وہ ڈگری ہے جو پوری دنیا کے صرف چندعظیم لوگوں کے پاس ہے،جب اسی بات کا امریکہ کو علم ہوا تو اس سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوسکا پھر جوبھی ردعمل ہوا وہ سب آپکے سامنے ہے ۔کیا پاکستانی ہونایا پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرناجرم ہے؟؟آج عظیم پاکستانی بیٹی عافیہ صدیقی کو دنیابھر کیلئے نشان عبرت بنا دیا گیا،آخر کیوں؟؟ مفاد پرستی ،ملک پاکستان کی اندرونی ساکھ کو برباد کرنے اور سوچے سمجھے ایک خاص منصوبے کے تحت ایک عام انسان اور کمسن بچی کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا گیا۔جبکہ اسی ملالہ کے بارے میں انکشاف ہوا تھا کہ اسکی ڈائری بی بی سی کا ایک نمائندہ لکھتا رہا ہے
ملالہ صاحبہ کا کہنا تھا کہ طالبان اور مولویوں کو دیکھ کر مجھے پتھر کا زمانہ یاد آجا تاہے اگر امریکہ ،پاکستان کے ساتھ یا پاکستانی بیٹی ملالہ کے ساتھ مخلص ہوتا تو پاکستان ہی کی بیٹی عافیہ صدیقی پہ اتنے ظلم نہ ہوتے ۔کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیاپر دنیا کے10ناپسنددیدہ افراد کاواویلہ ہواجسمیں ملالہ بھی شامل ہے، ملالہ تو علم و امن کی داعی ہے پھر اسے دنیاکے 10ناپسندیدہ ترین لوگوں میں کیوں شامل کیا گیا؟؟ اسکے ساتھ ہی کچھ اخبارات میں بھی یہ خبر شائع ہوئی ۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک انسان معاشرہ میں شر پسندی اور مخالفت کا سبب بنے اسکی وجہ سے لوگ شش وپند میں مبتلا ہوں اور دو گروہ بن جائیں تو اسے اگنور کر دیا جائے کہ حالت نارمل ہوںاگر ایسا ممکن نہیں تو کم ازکم اسے مزید اچھالنے سے گریز کیا جائے۔اگر ملالہ کو علم وامن کے پرچار کی بنا پہ اتنی مقبولیت اور مقام مل سکتا ہے تو ہماری مسلم عظیم یمنی بیٹی جس نے عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی اور اسے نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا لیکن اسے تو اتنی مقبولیت اور مرتبہ نہیں دیا گیا۔
آخر کیوں؟؟ مشرف کے دور حکومت کے دوران مختیاراں مائی کو مغربی میڈیا نے اچھالا اور صدر بش سے ملاقات تک کرا دی حالانکہ مختیاراں مائی کا واقعہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن کیونکہ اسلام اور پاکستان کی بدنامی مقصود تھی پاکستان میڈیا نے بھی نوٹوں کی خاطر مختیاراں مائی کو اچھا لا۔ ملالہ یوسف زئی ملکہ ایلزبتھ سے ملاقات بھی کر چکی ہے اور اسے اپنی کتاب آئی ایم ملالہ پیش کی اسکے ساتھ ساتھ تعلیم کے موضع پہ گفتگو ہوئی ۔ ملالہ یوسف زئی کومحض اس وجہ سے میڈیا پہ اچھا لا گیا کہ طالبان نے ملالہ یوسف زئی پہ قاتلانہ حملہ کیا تھا۔میں آپکے سامنے حقیقی طالبان کا ایک عکس پیش کرتا ہوں۔ایک امریکی صحافی خاتون ریڈلی طالبان کی قید میں رہی اوراسے رہا کیا گیا تو اس نے طالبان کے اخلاقیات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اس امریکی خاتون کا مسلم نام مریم رکھا گیا پھراسی مریم ریڈلی نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی خاطراپنے ملک امریکہ واپس جا کر چندہ بھی جمع کیا۔
ایک ذرائع سے (انکی زبانی )معلوم ہوا کہ وزیرستان کے علاقہ میں آپریشن کیا گیا توعلماء کی صورت میں دینی مدارس کو چلانے والے ایسے طالبان پکڑے گئے کہ جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور انکے ختنے تک نہ ہوئے تھے لیکن وہ لوگ اسلامی شریعت کو جانتے تھے اور بچوں کو مدارس میں عرصہ دراز سے تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں باقاعدہ اسلحہ وغیرہ کی ٹریننگ بھی دیتے تھے اورادھر مقیم تھے ۔اسی طرح ایک اور آپریشن کے دوران ایسے لوگوں کے بارے میں انکشاف ہوا جن کے جسم پہ ٹیٹوز بنے ہوئے تھے۔ آخر یہ سب کیا ہے؟؟ آج پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے محب وطن ہونے کے ناطے دل خون کے آنسو روتاہے اور نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملکی دہشت گردی میں بیرونی ایجنسیاں ملوث ہیں ۔ پاکستان میں نہ ہی انصاف ہے اورنہ قانون پہ عملدرآمد ہے جسکی وجہ سے بڑے سے بڑا مجرم آزاد ہے اور بلا کسی خوف وخطر کے بڑے سے بڑا جرم کر گزرتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہدایت عطا فرمائے ،آمین۔
اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمھیں تھا نہ ہو سکے گا نوٹ۔ لوگو میل کر دیا ہے
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
تحریر : ایم ابوبکر بلوچ چوک اعظم