تحریر: واٹسن سلیم گِل
پاکستان میں دہشتگردی کا جن جو کہ پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو نگل گیا ہے۔ اور ایسے زخم دے گیا ہے ۔ کہ جسے مندمل ہونے میں شاید کئ دہایئاں درکار ہوں۔ کئ ماؤں سے ان کے بچے اور کئ بہنوں سےان کے بھائ ایسے بچھڑے کہ اب وہ ان کو کبھی نہی دیکھیں سکیں گے۔ ایک طرف دہشتگردی کا یہ جن جس کو بڑی مشکل سے ضرب عضب کی بوتل میں قید کیا گیا ہے۔ اور دوسری جانب ہمارا سب سے بڑا دشمن بھارت جو ہر وقت اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب ہم زرا سے بھی کمزور ہوں اور وہ ہمیں آ دبوچے۔ خدا کے فضل سے ہماری بہادر افواج نے ہمیشہ اس ازلی دشمن کے دانت کھٹے کئے ہیں۔ اور ہمیں اب بھی رب الجلال کے بعد اپنی بہادر افواج پر یقین اور بھروسہ ہے۔ اندرون پاکستان آج جو حالات ہیں وہ پہلے کبھی نہ تھے۔ آج اندرونی اور بیرونی دونوں محازوں پر ہم جنگ میں مصروف ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کامیابی میں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کا برابر کا ہاتھ ہے۔ آج کے حالات ایسے ہیں کہ اگر ہماری سیاسی قیادت میں بحران پیدا ہوا تب بھی ہمیں اس جنگ میں نقصان ہو گا اور عسکری قیادت کی جانب سے بھی غلط فیصلے ہمیں اس جنگ میں نقصان سے دوچار کر سکتے ہیں۔
ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کی مفاہمت اور یکجہتی نے دہشتگردی کی اس جنگ میں زبردست کامیابی حاصل کی ہیں ، مگر اس وقت ہمارے وطن عزیز میں جو بحران جنم لے رہا ہے اگر اس بحران سے نجات حاصل نہ کی گئ تو خدا نہ کرے ، مگر اس کا نقصان ہمارے وطن عزیز کو ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی پارٹیوں میں کرپشن کی بھرمار ہے۔ اور اس میں بھی شک نہی ہے کہ یہ کرپشن کا پیسہ دہشتگردی کی آبیاری بھی کر رہا ہے۔ رینجر کی جانب سے سندھ میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن نہایت کامیاب ہے۔ کراچی میں لوگ سکون کی نیند سو رہے ہیں ۔ مگر سندھ کے خراب حالات کا زمہ دار صرف سندھ کی دو جماعتوں کو ٹھرانا دانشمندی نہی ہو گی۔ اس میں ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں بھی زمہ دار ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اور کراچی میں عدم استحکام کا الزام اور نقصان بھی اسی جماعت کو ہے۔ مگر ایم کیو ایم کے نقصان کا فائدہ کسے ہو رہا ہے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ جب یہ ہی ایم کیو ایم شور مچا رہی تھی کہ کراچی میں طالبان اور دہشتگرد مضبوط ہو رہے ہیں تو سب ان کا مزاق اڑاتے تھے۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کرپٹ، لینڈ مافیا، بھتہ خور تو ہو سکتیں ہیں مگر اتنی بڑی جماعتوں کو مجموعی طور پر دہشتگرد قرار دینا غلط ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے کاندھے استمال ہو رہے ہوں مگر سندھ کی دو سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانا اس آپریشن کو نقصان پہنچائے گا۔ اور اس کا فائدہ دہشتگردوں کو ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم اور دوسرے کرپٹ لوگوں کے خلاف ایکشن لینا بلکل جائز ہے مگر رینجر کی جانب کی سے یہ اقدام ان کے اختیارات سے تجاوز ہے۔ یہ تو ایسا ہوا کہ کل رینجر بھولے کو گرفتار کرے گی اور کہے گی کہ تمہارا اکاؤنٹ جس بنک میں تھا اسے ڈاکوؤں نے لوٹا ہے اور وہ رقم اب دہشتگردی میں استمال ہو رہی ہے۔ اس لئے ہم تمہیں گرفتار کر رہے ہیں۔ دہشتگرد چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت آپسی جھگڑوں میں الجھے اور دھیان دہشتگردوں سے ہٹ جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کرپشن کے الزامات صرف پی پی پی اور ایم کیو ایم پر ہی نہی بلکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر ہیں۔ ایم کیو ایم کو زخم لگے تو پیپلز پارٹی نے نمک پاشی کی اب پیپلز پارٹی کو چوٹ لگی ہے تو نواز لیگ کھیل رہی ہے۔ کرپشن کے الزامات تو سب پر ہیں۔
تو کیا ان کے بعد اے این پی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، پی ٹی آئ کا نمبر بھی آئے گا۔ میڈیا کی آزادی سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب کرپٹ سیاستدان الیکشن نہی جیت سکتے۔ اس کا نمونہ ہم 2013 کے الیکشن میں دیکھ چکے ہیں۔ کرپشن کرنے والے سیاستدان کو احتساب عدلیہ اور عوام پر چھوڑ دیا جائے اگر فوج یہ کام کرے گی تو پھر ہم ایک ان دیکھے مارشل لا کی جانب چل پڑٰیں گے۔ اور غلطیاں تو ہر ادارے میں ہوئ ہیں۔ ہمارے انٹیلجنس ادارے بھی کامرہ ائر بیس ، جی ایچ کیو ، مہران بیس ، سانحہ پشاور جیسے حملوں سے بے خبر رہے ہیں۔
ہماری ایجنسیاں ہماری سیاسی پارٹیوں کو توڑتی اور بناتی رہیں ہیں۔ فرشتے کہیں بھی نہی ہیں۔ سڑک پر سبزی بیچنے والا، دودھ ، پھل بیچنے والا یا پھر صنعت کار، زمیدار، چوہدری، سیاستدان ، عدلیہ ، بیروکریٹ اور قانون نافز کرنے والے ادارے میں ہر جگہ اچھے برے لوگ ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اور ادارہ اپنی ہیود اور قیود میں رہ کر کام کرے ۔ سیاسی بحران پیدا ہوا تو بوٹوں کی چاپ سُنائ دے گی۔ مگر اس دفعہ بوٹ والوں کہ لئے حکومت کرنا پھول تو کیا کانٹوں کی سیج بھی نہی ہو گی بلکہ شعلوں کی سیج ہو گی۔ کیوں کہ یاد رہے کہ دہشتگردی کا جن ابھی ضرب عضب کی بوتل میں قید ہے ابھی ہلاک نہی ہوا ہے ۔ عدلیہ اور میڈیا کا موڈ بھی پہلے جیسا نہی ہے۔ خارجی طور پر بھی ہمارے لئے مشکلات بہت ہیں۔ ایک طرف بھارت ہے تو دوسری طرف ہمارا نام نہاد دوست افغانستان ہم پر الزام لگا رہا ہے۔ امریکا کی ” ڈو مور” کی رٹ ختم ہونے کا نام نہی لے رہی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ ہماری فوج بھی کوئ ایسا خطرہ مول نہی لے گی جس کا نقصان ہمارے پیارے وطن پاکستان کو ہو۔
تحریر: واٹسن سلیم گِل
ایمسٹرڈیم