تحریر : سید توقیر زیدی
بیجنگ میں جاری جی 20 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ خطے میں دہشت گردی اور بدامنی کا ذمہ دار ہے۔ جنوبی ایشیا کا صرف ایک ملک دہشت گردوں کی مالی سرپرستی کررہا ہے اور خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے’ تشدد اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی قوتیں اہم چیلنج بنی ہوئی ہیں’ کچھ قومیں اس بات کو اپنی ریاستی پالیسی میں آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
مودی نے کہا کہ وہ ممالک جو دہشتگردی کی حمایت اور مالی سرپرستی کرتے ہیں انہیں تنہا کرنے اور ان پر پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں نوازا جائے۔ دہشتگرد آخر دہشتگرد ہے۔ بیس کا گروپ جی 20 اہم معیشتوں کی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اسکے ارکان میں 19 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک انفرادی طور پر اس کے رکن نہیں۔
جی 20 فورم پر ممبر ممالک معیشت پر بات کرتے ہیں جو اس فورم کا اصل مقصد بھی ہے۔ مگر مودی نے اس پلیٹ فارم کو بھی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی اور زہریلے پراپیگنڈے کیلئے استعمال کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس موقع پر دوسرے ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی پاکستان کیخلاف زہراگل کر انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے رہے۔
آج دہشتگردی ایک عالمی مسئلہ جو ہے’ پاکستان جس کا بری طرح شکار ہے جب تک ہم عالمی برادری کے سامنے دہشت گردی پر اپنا نکتہ نظر نہیں رکھیں گے’ اسے حقائق سے آگاہی نہیں ہوگی۔ اسکے سامنے دوسرا نکتہ نظر بدنیتی سے بھی رکھا جائیگا تو اسکی حمایت ہو سکتی ہے۔ مودی یہی کچھ کررہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم دنیا میں جہاں جاتے ہیں یا بھارت میں غیرملکی سربراہان یا اعلیٰ سطحی وفود آتے ہیں’ انکے سامنے نریندر مودی بذات خود اور پوری حکومتی مشینری پاکستان کو دہشتگرد ملک کے طور پر پیش کرتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے کیلئے جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے۔ ٹاڈا اورپوٹا جیسے بدنام زمانہ اور انسانیت سوز قوانین کا نفاذ بھی کیا گیا۔
برہان مظفروانی کی 8 جولائی 2016ئ کو شہادت کے بعد بھارتی فورسز نے بربریت کی انتہائ کر دی ہے۔ پیلٹ گنوں سے سات ہزار سے زائد افراد شدید زخمی ہوچکے ہیں۔ شہید ہونیوالوں کی تعداد سوکے قریب ہے۔ مگر کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ وادی میں دو ماہ سے مسلسل کرفیو نافذ ہے مگر کشمیری اس کو خاطر میں نہیں لارہے۔ انکے مظاہرے جاری ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی قیادت میں آنے والا بھارتی پارلیمانی وفد مقبوضہ کشمیر سے نامراد و ناکام واپس لوٹ گیا۔ وفد کی سرینگر میں دو دن کی مصروفیات کے دوران کرفیو، محاصروں کریک ڈا?ن کے دوران بھارتی فوج کے تشدد سے 600 افراد زخمی ہوئے، اکثر کی حالت نازک ہے۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کو کچلنے اور قابو میں رکھنے کیلئے پیلٹ گنوں کی جگہ مرچوں والے پاوا گن شیل استعمال کرنے کا اعلان کر دیاہے۔ اس حوالے سے سری نگر میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بتایا کہ پاوا شیل مرچوں والے اور کم نقصان دہ ہیں ان سے انسانی جان کو سنگین خطرہ نہیں ہوتا ہم نے ایک ہزار پاوا شیل منگوا لئے ہیں جو کشمیر پہنچ چکے ہیں۔ راجناتھ سنگھ جو حریت رہنماوں کے بھارتی پارلیمانی وفد سے ملاقات سے انکار پر بھڑکے ہوئے تھے۔انہوں نے کہاکہ حریت رہنما?ں نے ہمارے ساتھیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کشمیریت ہے اور نہ ہی انسانیت، انہوں نے پرانی گردان کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
راجناتھ مقبوضہ وادی کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نریندر مودی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر بھی بھارت کا حق جتاتے ہیں۔ کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے بھارت ہر حربہ آزما رہا ہے’ بربریت اس میں سرفہرست ہے۔ اس ظلم و جبر میں ایک لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں’ خواتین کی عصمت دری بھارتی اور ریاستی درندوں کا معمول ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کے متعلقہ مشن نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ پاکستان مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی مدد کرتا ہے۔ آزادی ہر خطے کے انسانوں کا بنیادی حق ہے۔
بھارت کشمیریوں کو نہ صرف یہ حق دینے پر تیار نہیں بلکہ وہ جدوجہد کرنیوالوں کو پوری قوت سے کچلنے پر عمل پیرا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے اپنے اس ظلم کو جائز اور کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ پاکستان چونکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حامی ہے اس لئے وہ پاکستان کو دہشتگردوں کا پشت پناہ قرار دے کر دنیا کے سامنے واویلا کرتا ہے۔ بلاشبہ اسکے واویلے’ شور شرابے اور پراپیگنڈے سے حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے مگر عالمی رائے اسکی طرف سے یکطرفہ غلط بیانی سے گمراہ ہو سکتی ہے۔ ایسا ہو بھی رہا ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دینے والا امریکہ بھی بھارتی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر پاکستان کے ساتھ بھارتی لہجے میں بات کرتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ کشمیریوں کے مظاہرے اور احتجاج انکی آزادی کی کوشش ہے۔ عالمی برادری کے سامنے حقائق رکھنے کی ضرورت ہے یہ کام پاکستان نے کرنا ہے۔ مظفر وانی کی شہادت کے بعد پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے اور بھارتی ظلم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کیلئے پاکستان کی طرف سے کوششیں کی گئی ہیں۔ اس مقصد کیلئے حالیہ دنوں 22 پارلیمانی ایلچیوں کا تقرر کیا گیا مگر بھارت کے پراپیگنڈے کے توڑ کیلئے یہ سب کچھ ناکافی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بیان میں کہا ہے کہ معصوم کشمیریوں کی آنکھوں میں چھرے مارے جا رہے ہیں’ چھرے لگنے سے مظلوم کشمیری نوجوانوں’ بچوں اور خواتین کی بینائی ضائع ہو گئی’ آنکھوں میں چھرے مارنے والوں کے دل انسانیت کے درد سے خالی ہیں۔ یہ صریحاً ظلم اور ظلم کا آخری درجہ ہے۔ بین الاقوامی برادری کشمیر میں مظالم کا سختی سے نوٹس لے۔ جبرو استبداد سے کشمیری عوام کی آواز کو دبایا جا سکتاہے نہ ہی انہیں حق خودارادیت سے محروم کیا جا سکتا ہے، پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیراعظم کا یوم دفاع کے موقع پر یہ بیان مناسب اور اہم ہے تاہم ان کو زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو جی 20 اجلاس سے قبل اسکے ممبر ممالک کو کشمیر کی صورتحال اور وہاں بھارت کے دہشت گردانہ کردار سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔بھارتی وزیراعظم جہاں دنیا کو پاکستان کے دہشت گرد ملک ہونے کا تاثر قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں’ وہیں وہ پاکستان کو تنہاء کرنے کیلئے بھی سرگرم ہیں۔ وہ مسلم ممالک تک کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی سازشیں کررہے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ اس کا توڑ ہماری مو¿ثر سفارت کاری اور مودی سے زیادہ بڑھ کر سرگرم ہو کر دنیا کے سامنے حقائق رکھنا ہے۔
تحریر : سید توقیر زیدی