اسلام آباد(ایس ایم حسنین)پاکستان 1972 کی طرح چین اور امریکہ کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کرنے کو تیار نومنتخب امریکی قیادت سے قریبی راوبط استوار کرنے کا خواہاں ہے،امریکہ کو سی پیک میں آکر مسابقت اور اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے ۔ یہ بات جمعہ کو وزیر خارجہ نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کی نومنتخب جوبائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں خاطرخواہ اضافے کے لئے پرامید ہے، نومنتخب امریکی قیادت سے قریبی راوبط استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ کو سی پیک میں آنا چاہئے، مسابقت اور اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے ۔امریکہ کو چین کے ساتھ پاکستان کی قربت کو معاشی وسیاسی حریف کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے ،پاکستان نے ایسا کردار 1972 میں بھی ادا کیا تھا۔پاکستان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دورہ بیجنگ میں تاریخی مذاکرات کے لئے راہ ہموار کی تھی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے تاریخی طورپر دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے امکانات پیدا کئے،تبدیلی کی اس فضاءمیں پاکستان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل کے حوالے سے نئی امریکی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہشمند ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں جو موقع میسرآیا ہے، اسے محفوظ بنانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ نومنتخب امریکی انتظامیہ کو افغانستان میں جاری عمل مزید آگے لے کر جانا چاہئے وزیر خارجہ نے کہا کہ طویل عرصے بعد ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، افغان عمل کو آگے بڑھانے کے لئے تمام توانائیاں صرف کر نی ہوں گی ۔آغاز سے اب تک جو کچھ حاصل ہوچکا ہے، اسے محفوظ بنانا اور اس مقام سے آگے بڑھانا چاہئے ،افغانستان میں تشدد کے واقعات پر ہمیں تشویش ہے کیونکہ اس سے صورتحال میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔افغانستان میں امن کے لئے پاکستان نے سر توڑ کوششیں کیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل کے لئے سازگار ماحول کی تشکیل میں ہم نے بہت کٹھن مراحل طے کئے ہیں۔افغانستان میں تشدد پر ہمیں تشویش ہے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس سے ماحول خراب ہوسکتا ہے۔افغانستان میں تشدد کے ذمہ دار ’خرابی‘ چاہنے والے عناصر ہیں، جنہوں نے وار اکانومی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے باہر سے بھی ایسے عناصر اس خرابی میں شامل ہیں جو ہماری پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے قیام کی سوچ کے حامی نہیں ،افغان امن عمل ایک مشترک ذمہ داری ہے لیکن اس کی حتمی ذمہ داری افغان قیادت پر عائد ہوتی ہے ، یہ ان کا ملک ہے، ان کا مستقبل اس سے وابستہ ہے مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری دانست میں مفادات کی یکجائی کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ہماری سوچ اور اہداف نومنتخب امریکی انتظامیہ کی ترجیحات کے مطابق ہیں جنہیں مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔