تحریر:جویریه امتیاز
پاکستان کو قائم هوتے هوئے تقریبن ستر برس هونے کو هیں لیکن اس ملک میں جمهوریت آج تک مستحکم نهیں هوسکی, همارے اسلامی جمهوریه پاکستان میں جمهوریت کو همیشه خطرات لاحق رهے هیں, غیر جمهوری قوتوں نے متعدد بار جمهوریت پر شب و خون مارا هے, آئین کو پامال کیا گیا اور جمهوریت کی بساط لپیٹی جاتی رهی, جس کی وجه سے آج بھی جمهوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے هیں, ایک اندازے کے مطابق پاکستان بننے سے آج تک یعنی تقریبن ستر سال میں سے آدھے سے زیاده عرصه اس ملک پر غیر جمهوری قوتوں نے حکمرانی کی هے, دس دس اور باره باره سال تک مسلسل غیر جمهوری قوتوں کے اقتدار میں رهنے کے بعد جب عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف گرنے لگتا هے تو مجبوری میں یا اندرونی اور بیرونی دباء کے نتیجے میں جمهوری قوتوں کو باری دی جاتی هے,
لیکن باری بھی اس طرح دی جاتی رهی هے که سوائے ایک دو جمهوری اور منتخب حکومتوں کے کسی کو بھی پانچ سال کی مدت پوری کرنے نهیں دی گئی, جس سے ملک کا ایک نقصان تو یه هوتا رها هے که جمهوری حکومتوں کی پالیسیوں کا تسلسل ختم هوجاتا هے, ملکی ترقی اور عوامی بھلائی کے جو بڑے اور اهم منصوبے جمهوری حکومتوں نے شروع کئے هوئے هوتے هیں تو غیر جمهوری قوتیں اقتدار میں آتے هی ان منصوبوں کو یا تو بند کر دیتی هیں یا پھر ان پر توجه دینے کی بجائے ان کی جگه پر نئے منصوبے شروع کر دیتی هیں, اسی طرح ملک کا دوسرا نقصان یه هو تا رها هے که جمهوریت غیر مستحکم هوتی رهی هے, هاں یه الگ بات هے که غیر جمهوری قوتوں کو اقتدار پر قبضه کرنے کے مواقع بھی خود نام نهاد جمهوری اور سیاسی جماعتیں هی فراهم کرتی رهی هیں, کیوں که خود هماری جمهوری اور سیاسی قوتیں بھی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر که جمهوریت کو نقصان پهنچانے میں کوئی کسر نهیں چھوڑتی, اس کا واضح ثبوت یه ملتا هے که جب بھی کسی غیر جمهوری قوت نے جمهوریت پر شب و خون مارا هے تو اقتدار کی لالچ میں آکر هماری نام نهاد جمهوری اور سیاسی جماعتوں اور ان کے رهنمائوں نے اس غیر جمهوری قوت کی بھرپور حمایت کی هے,
ایسی هی کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور حمایت ملنے کی وجه سے غیر جمهوری حکمران طویل عرصے تک اقتدار پر قابض هوجاتے هیں, غیر جمهوری قوتوں کو اقتدار پر قبضه کرانے میں همارے منتخب نمائندوں اور جمهوری حکمرانوں کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا بھی اهم کردار رها هے, یه هی وجه هے که متعدد منتخب اور جمهوری حکومتیں کرپشن اور دیگر اسی طرح کے الزامات کی بنیاد پر هی ختم کی جاتی رهی هیں, آج همارے ملک میں جمهوریت تو بحال هے, منتخب وزیراعظم اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ بھی موجود هے لیکن ماضی کی طرح آج بھی منتخب پارلیمنٹ اور جمهوری حکمرانوں کے اختیارات پر کئی سوالات اٹھائے جارهے هوتے هیں, یعنی جمهوری حکومتوں کو تھوڑا بهت جو بھی عرصه اقتدار دیا جاتا هے تو اسے بھی لولی لنگڑی جمهوریت سمجھا جاتا هے, کیونکه کها جاتا هے که عوام کی منتخب حکومتوں کو مکمل طور پر بااختیار بھی نهیں بنایا جاتا, اب تو خود سیاستدانوں کی جانب سے یه آوازیں بھی اٹھنے لگی هیں که پارلیمنٹ کی مدت پانچ سال سے کم کر که چار سال کرنی چاهئیے, کیوں که پانچ سال کا عرصه بهت زیاده هوتا هے,
اس لئے باری کے انتظار میں بیٹھی هوئی سیاسی جماعتوں سے پانچ سال تک انتظار نهیں هوتا, ویسے تو کسی حد تک یه ایک حقیقت بھی هے که پهلے دو تین سال تو جمهوری حکومتوں کے جیسے تیسے گذر هی جاتے هیں لیکن سازشیں اور سیاسی بحران آخری دو سالوں میں مزید شدت اختیار کر جاتے هیں, بحرحال مدت کے حوالے سے تو کوئی بھی فیصله عوام کے منتخب نمائندوں, حکومت وقت اور پارلیمنٹ نے خود هی کرنا هے, لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نهیں کر سکتا که همارے ملک میں جمهوریت کے استحکام اور مستقبل پر آج بھی بهت بڑا سوالیه نشان لگا هوا هے, گذشته تقریبن آٹھ برس سے ملک میں جمهوریت بحال تو هے لیکن جمهوریت پر خطرات هر وقت منڈلا رهے هوتے هیں, جمهوریت کے لئے هر وقت اس غیر یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کے لئے هماری سیاسی اور جمهوری قوتوں سمیت اصل مقتدر قوتوں کو ملکر سنجیدگی سے سوچنا هوگا اور اقدامات بھی کرنے هونگے.
تحریر:جویریه امتیاز