تحریر : مبشر ڈاہر
یوں تو سعودی عریبیہ فرینڈز آف پاکستان کی لسٹ میں سر فہرست آتا ہے۔ اور ان دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات بہت گہری بنیادوں پر استوار ہیں اور انتہالی عمدہ نوعیت کے ہے، پاکستان کی فیصل مسجد سیلے کر فیصل آباد شہر سے ہوتے ہوئے کراچی میں شاہراہِ فیصل ، شاہ فیصل ٹاؤن اور شاہ فیصل کالونی تک۔اوراسی طرح سعودی عریبیہ کی بری، بحری اورفضائی افواج کی تربیت سے لے کریمن و اسرائیل جنگ تک کے ہراول دستوں کی قیادت تک پاکستانی فوج کے جوان اور فضائیہ کے پائلٹ نظر آتے ہیں اور حرمین شریفین کی پاسبانی کے لیے تو پاکستانی قوم کے لہو کا آخری قطرہ تک حاضر ہے۔ چونکہ یہ دونوں ملک ایک ہی رسی جو اللہ کی رسی اور دین اسلام کی رسی ہے اس کے ساتھ مضبوطی بندھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی عوام سعودی عریبیہ کو حرمین شریفین کی وجہ سے انتہائی قدر اور تقدیس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس تقدیس کی بنا پر ان گنت موقعوں پر اس عملی تقدیس کا اظہار بھی کر چکے ہیں،لیکن دلچسپ امر یہ ہیکہ اس تمام تر مذہبی ہم آہنگی کے باوجود پاکستان کی سعودی عریبیہ کے ساتھ تجارت اس بلند مقام کو نہیں چھو سکی جہاں تک اس کو ہونا چاہیے تھا یا پھر اس کو لے جایا جا سکتا ہے۔
سعودیہ عریبیہ کے ساتھ پاکستان کے تعقات تو دھائیوں پر محیط ہیں لیکن دونوں ملکوں کے مابین جتنے موثر تعلقات ہیں تجارتی حجم کو اس سطح تک نہیں لایا جا سکا اور نہ ہی پاکستانی مصنوعات کو اس سطح تک متعارف کروایا جا سکا۔ حالانکہ پاکستان اپنی ضروریات کی 76 پرسنٹ پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات سعودی عریبیہ سے خریدتاہیگزشتہ سال جس کی مالیت 3.84 بلین امریکی ڈالر بنتی ہے۔
پاکستان کی سعودی عرب ٹوٹل برآمدات کا حجم 0.612 بلین امریکی ڈالر بنتی ہیں ، اس کے برعکس اگر ہم انڈیا کے ساتھ سعودی عریبیہ کا تجارتی حجم دیکھیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر ا?تی ہیکہ انڈیا سے سعودی عریبیہ کی در آمدات کا حجم 8.5 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے، جو پاکستان سے سعودی درآمدات سے تقریبا چودہ گنا زیادہ بنتا ہے، فرینڈ شپ ،عسکری پارٹنر شپ اور سٹریٹجک معاملات پاکستان کے ساتھ اور بزنس انڈیا کے ساتھ کچھ بات عقل میں نہیں آتی۔ اس میں سعودی عریبیہ کے طرف سے کوئی خاص جانبداری تو نظر نہیں آتی ہاں البتہ پاکستانی حکومت اور خاص طور پر وزارت تجارت کی نا لائقیاں خوب دکھائی دیتی ہیں۔
ہمیں سعودی عریبیہ کے ساتھ تجارتی حجم کو کم از کم اس سطح تک تو لانا چاہیے کہ آپسی برآمدات اور درآمدات کے حجم کو برابر بھی کیا جا سکے اور اس کیساتھ معاشی نمو میں استحکام کی سطح چھو کر بڑھوتری کی جانب بڑھا جا سکے، اور یہی عمل ہماری ترقی و بقا کا ضامن ہے۔
اگر پاکستان کی مصنوعات اور سعودی عریبیہ کی ضروریات کو دیکھا جائے تو ہمیں بے شمار ایسی مصنوعات نظر آئیں گی جو پاکستان میں نسبتا افورڈ ایبل قیمت میں دستیاب ہیں جیسے پاکستان کی زرعی پیداوار جیسے چاول، کینو، آم ، کھجور، گندم دالیں اور مصالحہ جات ہیں، اور اسی طرح لائیو سٹاک کی پیداور جیسے تازہ بیف ، مٹن اور فروزن بیف ،مٹن اور حج و قربانی کے سیزن کے لیے بھیڑ، بکریاں، اور گائے وغیرہ پیداوار کے حوالے سے پاکستان اپنی خاص شناخت رکھتا ہے اور اسی طرح دیگر صنعتی مصنوعات گارمنٹس، کاٹن، جینز، جوتے اور لیدر مصنوعات جن کو امریکہ، کینڈا اور یورپ کی منڈیوں میں بے حد پزیرائی مل رہی ہے ان صنعتی مصنوعات کو سعودی عریبیہ جیسی ایک بڑی ایشیائی منڈی میں کیوں متعارف نہیں کروایا گیا، حالانکہ کہ ان میں سے بیشتر مصنوعات سعودی عریبیہ سعودی لوگوں اور یہاں مقیم دیگر ملکوں کے افریقی و ایشائی باشندوں میں بیحد مقبول ہیں۔
خاص طور پر لیدر مصنوعات، اور کشمیری شالیں وغیرہ، لیکن آج تک کسی نے اس طرف توجہ دینے کی کبھی زحمت گوارہ نہیں کی اور ان ہی ان مصنوعات کی کبھی کوئی خاطرخواہ نمائش کی گئی ہے ، اور کی بھی گئی ہے تو محض جدہ ، ریاض، کیپاکستانی سفارتخانوں کی عمارت میں فوٹو سیشن تک محدود رہی ہے۔
پاکستان کی وزارتِ تجارت کو اپنی سو کالڈ گونا گو مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اس طرف بھی کچھ دھیان دینا چاہیے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنی تجارت کو کس کمیت تک فروغ دے سکتے ہیں اور ہمارے ٹارگٹس کیا ہیں ان ٹارگٹس کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کیا تکنیکی و سفارتی راستے اختیار کرنے چاہییں۔ وہ سعودی عریبیہ کی مارکیٹس میں اپنے فنی و تکنیکی ماہرین کی ٹیمیں بھیجنی چاہییں جو یہاں کی مارکیٹ کو سٹڈی کریں اور سعودی عریبیہ کی مارکیٹ ڈیمانڈ اور پاکستانی مصنوعات کے حوالے سے اپنی رپورٹس اور سفارشات مدون کر کے متعلقہ وزارت کو بھجوائیں اور متعلقہ وزارت ان رپورٹس اور سفارشات کی روشنی میں پاکستانی مصنوعات کو بہتر انداز میں تیار کروائے اور مارکیٹنگ اور تشہیر کا ٹھوس بنیادوں پر لائع عمل تیار کیا جائے۔
سعودی عریبیہ میں مقیم پاکستانیوں کو کاروبار شروع کرنے اور کاروباری صلاحیت کو بڑھانے کیلیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور یہاں لوکل قوانین کی آگاہی اور کمپین کی اشد ضرورت ہے، تاکہ نئے بزنس مین کی حوصلہ افزائی بھی ہو سکے اور پرانے بزنس مین کے کاروبار میں بڑھوتری آئے اور پاکستان کی مصنوعات کو ایک مضبوط اور مستحکم منڈی میسر آئے اسی طریق سے اس دوستی کے رشتے کو دوحکومتوں سے دو قوموں کے درمیان پروان چڑھایا جائے تا کہ یہ دوستی بھی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہو سکے۔
تحریر : مبشر ڈاہر