تحریر: محمد شاہد محمود
سعودی وزیر خارجہ شاہ سعود الفیصل اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں سعودی عرب نے پاکستان سے یمن میں مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔اس رابطہ میں دونوں رہنمائوں نے یمن کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا اور سعودی وزیر خارجہ شاہ سعود الفیصل کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ پاکستان اس صورتحال میں سعودی عرب کی مدد کرے۔
سعودی وزیر خارجہ شاہ سعود الفیصل کی درخواست کے بعدوزیراعظم کی زیر صدارت اہم اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال سمیت خطے میں ہونے والے حالیہ تبدیلیوں کے تناظر میں اہم فیصلے کئے گئے۔اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، چیف آف ایئر سٹاف ایئر مارشل سہیل امان ، وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ، اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سمیت اہم رہنمائوں نے شرکت کی۔اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں جبکہ ان تمام ممالک کی سلامتی بھی انتہائی اہم ہے۔
سعودی عرب کو درپیش سلامتی کے خطرات کا جواب پاکستان سختی سے دے گا اور اس کی علاقائی سلامتی کے خطرے میں پاکستان بھرپور مدد بھی فراہم کرے گا۔سعودی عرب نے یمن میں صدر ہادی کی درخواست پر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن میں حوثی قبائلیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کی گئی ہے جس سے صنعا میں حوثیوں کے زیر قبضہ ملٹری ائربیس تباہ ہوگیا ہے۔ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب یمن کے لوگوں کی حفاظت اور صدر ہادی کی قانونی حکومت بچانے کیلئے ہرممکن اقدامات کرے گا۔ یمن کے صدر عبدالربوہ منظور ہادی کی قانونی حکومت بچانے کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے۔
فوجی کارروائی کو دیگر خلیجی ریاستوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یمن میں فوجی کارروائی کا آغاز سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم پر کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے دوسرے اتحادی ممالک کویت، قطر، بحرین، یو اے ای اور مصر کی مدد کے ساتھ کر یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کی۔ سعودی عرب نے یمن میں آپریشن کیلئے ڈیڑھ لاکھ فوجی تعینات کئے ہیں۔ سوڈان نے کہا ہے کہ وہ زمینی اور فضائی کارروائیوں میں حصہ لے گا۔ کویت نے تیل کی تنصیبات پرسکیورٹی بڑھا دی ہے۔ سعودی عرب میں بھی سکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے۔ عرب لیگ اور برطانیہ نے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔جماعةالدعوة پاکستان کے زیر اہتمام لاہور اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروںمیں سعودی عرب کی حمایت اور سرزمین حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں طلبائ، وکلاء ، تاجروںاور سول سوسائٹی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس موقع پر شرکاء کی جانب سے سعودی عرب کے حق میں زبردست نعرے بازی کی گئی۔ حافظ محمد سعید، عبدالرحمن مکی، مولانا امیر حمزہ و دیگر نے سعودی عرب کے خلاف سازشوں کے توڑ کیلئے ملک گیر سطح پر بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ اس مقصد کیلئے متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے جلد بڑی اے پی سی بلائی جائے گی اورتمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کوایک پلیٹ فارم پر متحد کیاجائے گا۔ایران کو بھی عالم اسلام کا حصہ بننا چاہیے اورصیہونی سازشوں کا شکار ہونے کی بجائے حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے دوسرے مسلم ملکوں کے ساتھ ملکر کردار ادا کرنا چاہیے۔ حرمین کے ساتھ کل بھی ایمان اور اسلام کا رشتہ تھا’آج بھی قائم ہے اوران شاء اللہ کل بھی رہے گا۔حکومت پاکستان نے قوم کی امنگوں کے مطابق سعودی عرب کی مددوحمایت کا بہترین فیصلہ کیاہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ عرب ممالک کے اتحاد کے سربراہ شاہ سلمان کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ حرمین الشریفین کے تحفظ کے لئے تیار ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو عالمی امن اور سلامتی کیلئے عراق ، شام ، یمن اور فلسطین کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے جس کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اقدامات کرنے چاہئیں۔اقوام متحدہ میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ عالمی امن اور سلامتی کے لئے عراق ، شام ، یمن اور فلسطین کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لاکھوں افراد اور خطے کے تمام ملکوں کی معاشرتی طرز زندگی داؤ پر لگ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو عالمی اتفاق رائے سے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔پاکستان کی مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ اسلام امن ، رواداری اور بھائی چارے کا مذہب ہے لیکن اس کا کا تشخص مجروح کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں متعلقہ فریقین کے درمیان مفاہمت کے ذریعے خطے میں پائیدار امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ مذہب ، فرقے ، قومیت یا نسل کی بنیاد پر ہر قسم کے تشدد کو روک کر بے گناہ لوگوں کی جانیں بچائی جائیں۔یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے حکومت کاتختہ الٹنے کی کوشش اوریمنی صدر کی اپیل پر سعودی عرب کی جانب سے یمن میں حوثی شدت پسندوں کیخلاف فوجی آپریشن شروع کیے جانے کے بعدریاض کی دفاعی صلاحیتوں سے متعلق ایک نئی بحث چھڑگئی اور عرب میڈیا پر سعودی عرب کی جنگی صلاحیتوں سے متعلق کچھ تفصیلات سامنے آئیں جو درج ذیل ہیں۔ دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے فہرست میں سعودی عرب کا 28ویں نمبر پر ہے جبکہ اسی فہرست میں خود یمن 79نمبر پر ہے۔ سعودی فضائیہ کے پاس 685 جنگی آلات ہیں جن میں 155 جنگی طیارے، دو پروں والے 236 جنگی جہاز، 18 جنگی ہیلی کاپٹر، نقل وحمل کے لیے 187 طیارے، جنگی تربیت کے لیے 168 جہاز اور182 ہیلی کاپٹر،214 ہوائی اڈے اور جنگی طیاروں کے ‘ٹیک آف’ کے لیے ہنگامی ‘رن ویز’ شامل ہیں۔سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت میں’ایف 15 ایگل’ اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ اسے سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت میں ‘ریڑھ کی ہڈی’ قرار دیا جاتا ہے۔
سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ اس کے جنگی بحری بیڑے سے بھی لگایا جاسکتا ہے ‘ایف 15 اسٹرائیک ایگل’ نامی جنگی بحری بیڑا امریکہ اور جاپان کے بعد سعودی عرب کے پاس ہے۔ یہ بحری بیڑا پیشگی اطلاع دینے والے الیکٹرانک آلات، اپاچی ہیلی کاپٹروں اور مریکی ساختہ کیوا اور سیکورسکی ہیلی کاپٹروں سے لیس ہے۔سعودی بحریہ کے پاس بھی غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طیارے اور ہیلی کاپٹر ہیں جن میں سرفہرست فرانسیسی ساختہ ہیلی کاپٹر’یورکوپٹر’ جدید ترین امریکی جنگی جہاز’ نورتھروپ ایف فائیو’ اور برطانوی ساختہ ‘ٹورناڈو’ شامل ہیں۔سعودی عرب کی بحریہ کے پاس سات بڑے اور چار چھوٹے بحری جنگی جہاز ہیں۔ نیوی کے پاس ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے 39 جنگی کشتیاں اور بارودی سرنگیں صاف کرنے کی تین بھاری مشینیں بھی اس کا حصہ ہیں۔سعودی عرب کی مستقل فوج دو لاکھ 34 ہزار اور ریزرو فوج کی تعداد 25 ہزار ہے۔ سعودی عرب کی بری فوج کے پاس 1210ٹینک، 5472 توپیں، 524 خود کار توپیں ہیں۔ سعودی عرب کے پاس توپوں کی منتقلی کے لیے 432 آٹلری ٹرالر اور 423 میزائل لانچنگ پیڈ ہیں اور وہ اپنے دفاع پر سالانہ 56 ارب 725 ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔
تحریر: محمد شاہد محمود