تحریر : میر افسر امان
١٦ دسمبر کا دن جب ہمارا ایک بازو ہماری اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ہم سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ وہ بنیا جس پر ہم نے ایک ہزار سال حکومت کی تھی۔ اس نے سازش کر کے ہمارے بھایئوں کو ہم سے علیحدہ کیا تھا آج پھر اس کی سازشیں جاری ہیں اور ہم ہیںکہ اس کا توڑ نہیں کر رہے۔ ہندوستان نے مکتی باہنی بنا کر غیر بنگالیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ جیسے کراچی اور بلوچستان میں اب بھی ہو رہا ہے۔ امریکی کونسل کی طرف سے اخبارات میں آیا کہ ٦٦ ہزار پاکستانیوں کوقتل کیا گیا تھا۔ ٩٠ ہزار قیدیوں کی بات بھی غلط ہے سقوط ڈھاکہ کے وقت ٣٦ ہزار پاکستانی فوج تھی۔ پاکستانی فوج کی طرف سے٣٠ لاکھ بنگالیوں کے قتل کی خبریں بھی غلط ہیں ۔اس کو تو ایک بنگالی دانشور خاتون اپنی کتاب میں ذکر کر چکی ہے۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مملکتوں کے جغرافیے بدلتے رہتے ہیں ان کی سرحدیں کبھی پھیلتیںہیں کبھی سکڑتیں اس کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ مگر ایک چیز جو مملکتںں کی اصل ہوتی ہے۔ یہ اصل کیا ہے ؟یہ مملکتوں کے نظریات ہوتے ہیں۔
پاکستان کا نظریہ کیا ہے پاکستان کا نظریہ وہ ہے جو اس کے خالق قائد اعظم نے اس کے بننے کے وقت دیا تھا وہ تھا”لاالہ الا اللہ” اگر ہم اس نظریے پر قائم رہتے تو پاکستان کو دشمن توڑ نہیں سکتا تھا۔ جب ہم بنگالی ، پنجابی، سندھی اور پٹھان ہونے کی باتیں کرنے لگے تو پھر بات آگے جا کرحقوق پر گئی اور حقوق کی جنگ چھڑی۔ حقوق کیا ملنے تھے اور کیا ملیں گے۔ بنگلہ دیش پھر ہندوستان کی غلامی میں چلا گیا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ہندوستان کی پالیسی چل رہی ہے وہ چن چن کر نظریہ پاکستان کے حامیوں کو ختم کر رہا ہے اور ہماری پاکستانی حکومت اس کا توڑ نہیں کر رہی۔
کیا ہمارے ملک میں پھر وہی حقوق کی بحثیں نہیں چل رہیں ؟کیا ہم پاکستان کی مفادات کی بات کرتے ہیں یا ہم اپنی اپنی قوم کے مفادات کی بات کرتے ہیں؟ ہماری قوم پاکستان میں سستی بجلی کے لیے بننے والے کالا باغ ڈیم کو نہیں بننے دے رہے اور لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔ ارے بھائی پاکستان رہے گا تو ہم بھی رہیں گے اگر خدا نخاستہ پاکستان کو ہمارے دشمن توڑ دیتے ہیں تو حقوق کی بجائے ہم غلامی میں چلے جائیں جو دنیا میں سب سے حقیر چیز ہے۔ اس وقت ہم دنیا کی بات کرنے کی بجائے برصغیر کی بات کرتے ہیں یہاں ہم آباد ہیں۔ ایک وقت یہاں داراڑ قوم آباد تھی اس کی اپنی تاریخ ،تمدن اور تہذیب تھی ۔ کافی مدت تک وہ اس میں آباد رہے۔ پھر آریا قوم نے اس علاقے پر قبضہ کیا اوردراڑوں کو دبا کر رکھا جیسے حکمران قوموں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ ان کو یہاں سے چلے جانے یا چھوٹا بن کر رہنے پر مجبور کر دیا لوگ اپنے وطن کے گلی کوچے کہاں چھوڑتے ہیں انہوں نے چھوٹا بن جانے پر ہی اپنی سلامتی سمجھی۔
وہ واقعی چھوٹے بن گئے آریوں نے انہیں شودر اور بن جاراے بن کر رہنے پر مجبور کیا۔ پھر یہاں آریا قوم خوب پھلی پھولی ۔اس نے تاریخ، تہذہب اور تہذیب اور تمدن بدلہ اشوک کی برصغیر میں مضبوط اور کامیاب حکومت قائم ہوئی۔اس کے بعد اس کی حکومت چھوٹے چھوٹے راجڑوں میں بٹ گئے مرکزی حکومت ٹوٹ گئی۔ بھات بھات کی بولیاں بولی جانے لگیں۔ پھر وسط ایشاء سے لوگ آئے انہوں نے اس بر صغیر پر حکومت قائم کی۔ مغلوں کی ٦٠٠ سالہ حکومت قائم ہوئے پورے برصغیر میں انہوں نے اپنے اثرات چھوڑے جو آج بھی عمارتوں کی شکل میں موجود ہیں۔جب ان کی حکومت کمزور ہونے لگی تو مغربی قوموں نے ا نہیں اُدھیڑا۔ مغربی قوموں کی جد وجہد کے بعد انگریز قوم برصغیر پر قابض ہوئی۔
انگریزوں کو بمشکل ٢٠٠ سال حکومت کرنے کا موقعہ ملا اس کے بعد برصغیر دومملکتوں پاکستان اور ہندوستان میںتقسیم ہوا۔١٦دسمبر کو پاکستان کا مشرقی حصہ علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ تو آپ نے دیکھا کس طرح مملکتوں کے نقشے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کیا اب ان کو تبدیل ہونے سے کوئی روک سکتا ہے۔ اب بھی غالب قوموں نے دنیا کے نئے نقشے بنائے ہوئے ہیں ہمارے ملک کا بھی ایک نقشہ دنیا میں گردش کر رہا ہے۔ ہمارے الطاف بھائی اس کے انتظار میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو توڑنے کا پلان بنائے بیٹھا ہے میں اس کی مدد کروں گا۔ پاکستان کی محافظ آئی ایس آئی کو نقصان پہنچانے کا خط بھی برطانیہ کو لکھ بھی چکے ہیں جو پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ذولفقار مرزا پاکستان میں آشکار بھی کر چکے ہیں۔بلوچستان میں ہمارے ازلی دشمن ہندوستان علیحدگی پسند بلوچوں کی مدد بھی کر رہا ہے۔ ہماری مغربی سرحد پر ہمارے دوست نما دشمن ملک امریکا جو بقول الطاف حسین پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے اور اس کے تھنک ٹینک نقشے بھی جاری کر چکے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان دشمن حکومت بھی امریکہ اور بھارت کی مدد سے قائم ہو چکی ہے۔ایک سوچے
سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں سیاسی افراتفری بھی پھیلائی جا ری ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنی اپنی کرسیاں بچانے کے علاوہ پاکستان کو بچانے کی کوئی فکر نہیں کررہے۔ کیا محبت وطن نظریہ پاکستان سے محبت کرنے والوں پر فرض نہیں ہے کہ وہ آگے آئیں اور جس طرح قا ئد محترم نے مسلمانوں کو جگایا تھا ایسا ہی سماںپیدا کریں اور لوگوں کو اپنے اصل نظریہ پاکستان کی طرف لوٹائیں ۔ اس میں نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے ساری سیاسی اور دینی جماعتیں ،شعیہ ،سنی، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث سب مل کر ایک ہو جائیں سب نے مل کر ہی پاکستان حاصل کیا تھا سب ملکر ہی پاکستان کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ دشمن کی چال کو ہم سب سمجھنے کی کو شش کریں تب ہی پاکستان بچ سکتا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے آمین۔
تحریر : میر افسر امان