counter easy hit

فرانس مرکز نگاہ

Pakistan

Pakistan

تحریر: شاہ بانو میر
پاکستان کو اس کا “” دوست “” ہر بار سبز باغ دکھا کر جھانسا دیتا ہے بین القوامی بڑے کھیل میں ایک مہرہ بنا کر اسکو آگے رکھتا ہے مطلوبہ ہدف پورا کرتا ہے اور اس کے بعد ایک دم آنکھیں پھیر لیتا ہے پاکستان کے ایک نوجوان بچے سے اس “” دوست “” کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ اس کے دو رخی انداز کو آسانی سے بیان کرے گا مگر حکومت خواہ جمہوری ہو یا آمرانہ افسوس کہ کوئی حکومت اس کو نہ سمجھ سکی اور نہ اس سے دامن چھڑا کر کسی دوسری سمت اپنا جھکاؤ کر سکی کیا پاکستان کی ضروریات کیلیۓ خاص طور سے دفاعی حربی ضروریات کیلیۓ کیا صرف پاکستان اسی ملک پر انحصار کرے؟ اگر ایسا کمزور سیاست کرنے والے اپنی کرسی کو محفوظ کرنے کیلئے ایک پوری قوم کو گروی رکھ سکتے ہیں تو اب ان کو اپنی سوچ مُبارک ہو ہمیں یہ منظور نہیں آئے روز میڈیا میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتی تحریریں اور پھر اس پے طرّہ کسی نہ کسی بڑے دہشت گرد کی پاکستان میں موجودگی ان کی تحریروں کے زہر کو مزید مؤثر ثابت کر رہی ہے

کسی چھوٹے بچے کی طرح “”عظیم پاکستان”” کے وقار کو کھلایا جا رہا ہے کبھی ایف سکسٹین لے لو تو کبھی اب نہیں دیتے لے کر دکھاؤ؟ کیا کوئی مضبوط بقا کا حامل ملک یہ برداشت کر سکتا ہے؟ کہ اسے اس طرح سے مذاق بنایا جائۓ؟ اس وقت جتنے ممالک میں پاکستان کے سفیر محترم موجود ہیں ان کی کارکردگی ٬ محنت پر اور وطن عزیز سے محبت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے مگر “”بہت سوں میں کوئی ایک “” اس کی مصداق “” فرانس “” میں گزشتہ کئی سال سے سفارت خانہ پاکستان اعلیٰ سمِت میں پاکستان کے تاثر کو لے جاتے ہوا دیکھا جا رہا ہے کئی شعبوں میں تعلقات نے بنیاد پکڑی ہے ٬ مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے اقدامات کر کے فرانس میں پہلی بار حکومت فرانس کو سفارت خانہ کے ہمراہ دیکھ رہی ہے٬ جو اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ فرانس کو جبان سفیر یہ باور کروانے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ضرور ہے مگر اس کے شعبے کامیابی سے رواں دواں ہیں اور فرانس کے ساتھ اس کا تعاون کیی شعبوں میں ہو سکتا ہے سماجی معاشرتی ثقافتی سطح سے زرا اوپر اٹھتے ہوئے اب بڑے منصوبوں پر بھی رائے ہموار ہونی چاہیے جیسے کہ پاکستان کیلیۓ تحفظ کی بنیاد جدید ہتھیار ہیں ٬ جہاز آبدوز ٬ اور دیگر سامان حرب ہے فرانس اور پاکستان ماضی میں ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تنازعے کا شکار ہوئے مگر دنیا پھیل کر پھر گلوبل ویلج کی صورت سکُڑ رہی ہے ٬ روابط بڑھ رہے ہیں ایسے میں پاکستان تنہا کیوں رہے؟ کیا دفاعی میدان کیلئے اسلحہ ہم فرانس سے نہیں لے سکتے؟

France

France

جس طرح فرانس میں رہتے ہوئے موجودہ سفیر محترم غالب اقبال صاحب نے بہترین انداز میں باہمی اتفاق رائے سے پاکستان کیلئے وہ احسن اقدامات سر انجام دیے ہیں جو اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے قدرت شائد ان کو تاریخی انداز میں اہلیان فرانس کے ذہنوں میں زندہ رکھنا چاہتی ہے اگر فرانس کے ساتھ ہمارے دفاعی معاہدے ہو جائیں تو پاکستان اس دباؤ سے بچ جائے گا جو کبھی دینے اور کبھی انکار کی صورت اس کے سامنے آتا ہے غیور لوگ قومی رویہ ظاہر کرتے ہیں نجانے کیوں ایسا تصور راسخ ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک ملک کی اجارہ داری سے باہر نکلےگا جس کی دوستی کا دم بھر کر بھی سوائے شرمندگی کے اس ملک کے حکمرانوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا ایک طرف بھارت دھڑا دھڑ دفاعی معاہدوں پر دستخط کر کے خطے کے توزن کو عدم استحکام کی جانب لے جا رہا ہے تو دوسری جانب لے دے کے ہم نے صرف ایک ہی ملک پر دعویٰ رکھتے ہوئے نقصان اٹھایا وقت کے سمندر کے تھپیڑے اب بہا کر پاکستان کو دیگر ممالک تک لے جائیں گے

اعلیٰ معیاری ہتھیاروں کے لئے خاص طور سے آبدوزوں کیلئے فرانس سے بہترین کوئی ملک نہیں ہے سوچنا ہوگا حکمران بالا کو اب بین القوامی روابط کو فروغ دے کر کسی ایک کے طمطراق کو توڑنا ہوگا محفوظ مستقبل کی غیور نسل کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک کمزور تاثر کو ختم کر کے اپنے وطن کی حفاظت خود کرنی ہوگی جس کیلئے اسلحہ اولین ضرورت ہے نجانے کیوں اسلحے کا سوچتے ہی اکثر پاکستانیوں کی نگاہیں سفیر محترم غالب اقبال پر اٹھتی ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ
فرانس مرکز نگاہ بن رہا ہے

Shah Bano Mir Adab Academy

Shah Bano Mir Adab Academy

تحریر: شاہ بانو میر