پیرس (شاہ بانو میر) انیلہ احمد مارچ 23 اے قائد تیری عظمت کو سلام قیام پاکستان ایک معجزہ اور انسانی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے٬ مسلمانانِ برصغیر نے انگریز سامراج کو سازشوں اور ہندو بنئے کی چالبازیوں کے باوجود اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کو ممکن کر دکھایا ٬
انہوں نے قیادت کی بھاگ دوڑ کو اپنے ہاتھ ذہن و فہم اپنی قابلیت کے رنگ ڈھنگ سے اپنی روایات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں معاون کردار ادا کیا٬ قائد اعظم محمد علی جناح ان قائدین میں سے تھے ٬ عظمت ان پر کہیں باہر سے مسلط نہیں ہوئی انہوں نے خود اپنی اندرونی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اجاگر کر کے اسے اپنی کامیابیوں کامرانیوں کا وسیلہ بنایا ٬
انہوں نے اپنے خصوصی کردار کی ایسی تعمیر کی جس کے سہارے وہ گوناگو تبدیلیوں اور گردشوں سے گزر کر اس طرح بے داغ ابھرے جیسے سونا بھٹی تپ کر ،نکھرتا اور کندن بنتا ہے٬ قائد اعظم راستے کی دشواریوں اور رکاوٹوں سے کبھی دلبرداشتہ نہ ہوئے٬ نہ کبھی ہمت ہاری ٬ اس کے برعکس انہوں نے حیرت انگیز ثابت قدمی دکھائی ٬ اور اپنی ذہانت اور فطانت سے راستہ ہموار کیا٬
قانون کے پیشے میں ترقی کرتے بِلآخر براعظم ایشیا کے قانونی حلقے میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ٬ قائد اعظم کی سب سے بڑی خوبی ان کی صاف گوئی تھی٬ ان کا موقف ہمیشہ واضح اور دو ٹوک ہوا کرتا٬ ان کی واضح گفتگو میں ان کے گہرے تجزیے ہی کی نہیں بلکہ پوری شخصیت کی جھلک ملتی ہے٬ ان کی دیرینہ خواہش رہی کہ پاکستان کی نشو نما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو ٬
جہاں کے باشندے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی مذہبی روایات پر عمل کر سکیں ٬ اور اسلام کے نظام سے مستفید ہو سکیں 1945 نومبر 2 مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لئے کرتے ہیں کہ جہاں وہ اپنے ضابطہ حیات اور تہذیبی ارتقاء اور اسلامی قوانین کے مطابق حکمرانی کر سکیں ٬ ہمارا دین ہماری تہذیب و ثقافت اور اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں٬ جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کیلیۓ متحرک کرتے ہیں٬ بہترین قائد کی بہترین تقاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے٬ کہ وہ اسلام کو صرف چند عقیدوں روایات اور روحانی تصورات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کیلیۓ ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے٬
ان کے روحانی و سیاسی معاشرتی و معاشی سمیت زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ٬ جو ان کیلیۓ قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو٬ ان کی سوچ ان کی فکر اس قدر واضح اور نکھری ہوئی تھی٬ کہ کوئی مجہول شخص ہی ان کی کسی بات کی تردید کر سکتا ہے ٬ قائد اعظم کی شخصیت ایک سدا بہار موضوع ہے٬ لیکن نہایت افسوسناک ہے کہ تعریف و توصیف کا سارا سلسلہ رسمی ہے جِن میں گہرے تفکر کا فقدان ہے٬ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ بعض لوگ ان کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر اس انداز سے کرتے ہیں ٬ کہ عظیم لیڈر کے عظیم کارناموں کی تخفیف سی لگتی ہے ٬
ایسے فاسق کم ظرف بھیڑ کی آڑ میں بھیڑیے کا کردار ادا کرنا خوب جانتے ہیں٬ ہمارا نصب العین قرآن مجید کے احکامات سیاست اور معاشرت میں ہماری آزادی و پابندی کی حدود متعین کرنا اصل مقصد ہے٬ قائد اعظم کے تصورِ پاکستان کے یہ وہ خدو خال ہیں٬ جو ان کی مختلف تقریروں میں جابجا خوشبوؤں کی طرح بکھرے ہیں٬ ایک اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے ہمیں جس کو عملی جامہ پہنا کر نہ صرف موجودہ چیلنج سے عہدہ براء ہونا ہے ٬
بلکہ ایک باوقار اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے آگے بھی بڑہنا ہے٬ اور یہ تبھی ممکن ہے ٬ جب ہم ایک خُدا ایک رسول اور کتاب و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کو اولین ترجیح دیں ٬