تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں کہ عوامی نمائدوں کی ایک ٹائی پچاس پچاس ہزار روپے مالیت کی ہوتی ہے مگر پاکستان کے باسیوں کو پچاس پیسے کی ڈسپرین نصیب نہیں ہوتی گزشتہ روز ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سرکاری وفد کے ہمرہ امریکہ کے دورے پر تھے۔ کئی سالوں سے پاکستانی حکمرانوں کاایک ہی وطیرہ رہا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو۔ وزیر مشیر جو بھی ہو سرکاری خزانے پر دورے ہوتے ہیں۔ امریکہ کے دورے کو ہمیشہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستانی روپے کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے تاکہ زرائع ابلاغ میں اشتہارات دیکر دورے کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔ گزشتہ کئی حکومتوں سے ایک بات سب امریکی دوراں میں مشترکہ نظر آتی ہے۔۔ کہ پاکستانی وزراء ان امریکہ کی اعلیٰ قیادت کو پاکستانی موقف سے آگاہ کیا مزاکرات، ارشادات، مطالبات، عقیدت و احترام۔ اور خوش گوار موڑمیں پاکستانی موقف سے آگاہ کیا جیسا کہ پاک بھارت تعلاقات۔ کشمیر۔ دہشت گردی ، پاکستانی بین القوامی صورت حال۔ پاکستانی معیشت، پاکستان اور امریکی تجارت۔ تمام مسائل کو امریکہ کے سامنے پیش کئے ہیں کاش کوئی یہ بتانے کی بھی جسارت کریں کہ امریکہ بہادر نے پاکستانی موقف کو سن کر کس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔اگر پاکستان کے اصولی موقف کی امریکی حمایت حاصل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیددگئی کم ہی نہ ہوتی بلکہ ختم ہو چکی ہوتی۔ میری مراد کشمیر ہے۔جب تک کشمیر کا مسلئہ حل نہیں ہوتا تب تک پاکستانی موقف کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔
دہشت گردی کی پرائی جنگ کو ہم نے سینے سے لگا کر خود ہی غیر محفوظ بنا لیا۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہماری مسجدیں۔ ہماری درگائیں، ہمارے شہر ۔ہمارے مہذبی مقدس دین گائے۔ہمارے گاوئں، ہمارے شہر۔ ہمارے درس ، سکول اور ہمارے ہسپتال سب کے سب دشمن کے نشانہ پر ہیں۔ آئے روز ہم قربانی دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم امریکہ کے پرائی جنگ میں اتحادی ہے ۔ ہم نے امریکہ کے عشق میں اپنے پرائے سب دشمن بنا لیئے مگر امریکہ کی چلاکی،ہوشیاری۔دغہ بازی۔اور مکرو فریب سے خود کو آزاد کرنے کی بجائے امریکی غلامی میں ہی خود کو باعث فخر کے طور پر پیش کیا۔ اگر امریکہ کو ہماری خودمختاری ،خود سالمیت،اور خودی کا احساس ہوتا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بے قصور ہونے کے باوجود شرمناک ،بے رحمانہ اور وحشینانہ تششد کا امریکی جیلوں میں شکار نہ ہوتی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جسمانی، جنسی اور زہنی تششد کا شکار نہ کیا جاتا۔ اسلام ہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر جس نے ہر قسم کے ظلم و ستم سہ کر بھی اسلام اور قرآن کی توہین نہیں کی۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر محض اس لئے ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے جاتے ہیں کہ وہ اللہ رب العزت کی الہامی کتاب کی توہین نہہں کرتی۔ امریکی دوروں کی کامیابی کو پاکستانی میعشت کی کامیابی سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف فرنٹ اتحادی تھے امریکی صدر اور امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے تھے۔ان کے دور اقتدار سے لیکر چوہدری نثار علی خاں وفاقی وزیر داخلہ کے حالیہ دورا امریکہ کے دواران ہر بار پاکستانی قیادت نے امریکی منڈیوں تک رسائی کا موقف پیش کیا ۔مگر موقف موقف ہی رہا۔۔
اگر پاکستانی موقف کو پیش کرنا ہی دورے کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے تو کیا یہ کام پاکستانی میڈیا نہیں کر سکتا؟؟ اگر پاکستانی مسائل کو امریکہ کے سامنے پیش کرنا ہی دورے کا مقصد ہے تو ۔۔۔۔ کیا بین القوامی این جی اوز، انٹر نیشنل ایجنسیاں ۔پریس اور انٹرنیشنل میڈیایہ سب کچھ نہیں کر رہا؟؟ گزشتہ دس سالوں کے امریکی دورے جو پاکستانی عوام کے خون پسینہ کو نچوڑ کر کئے گئے تھے۔ کیا وہ سب کے سب کامیاب نہیں قرار دیئے گئے تھے؟؟پاکستان اور پاکستانی عوام کو سوائے جمع تفریق کے کچھ بھی نہ ملااور آئیندہ بھی کچھ ملنے کی کوئی امید نہیں۔ کاش ہمارے حکمران اخباری اشہتاروںاور خالی خولی بیانوں کی بجائے پاکستان کے عوام کئے لئے ڈسپرین ہی خرید کر ہر خاص و عام تک پہنچا دیتے۔ جنرل (ر)پرویز مشرف سابق صدر پاکستان کے دور سے لیکر آج تک پورے پاکستان بلخصوص پنجاب بھر میں کسی بھی ۔ کسی جنرل سٹور۔ منیاری ، بیکری ،جائے پان سگریٹ کے کھوکھہ وغیرہ پر عام سر دردر والی ڈسپرین بھی نایاب ہو چکی ہے۔ اگر پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے۔ ڈپرین فروخت کرنے پر پابندی ہے۔اور خلاف ورزی کی صورت میں ہزاروں روپے جرمانہ ادا کرناپڑتا ہے اس لئے ہم ڈسپرین یا عام روزمرہ کی ادویات فروخت نہیں کرتے۔ کاش ہمارے حکمران امریکہ جا کر پاکستانی موقف پیش کرنے سے پہلے عام استعمال کی ادویات خاص طور پر ڈسپرین پر ہی پابندی اٹھاکر غریب دیہاڑی دار طبقہ کے بخار درد میں کمی کر کے حق حکمرانی ادا کرتے۔تو شاید پھر امریکہ بھی پاکستانی موقف پر کوئی رد عمل ظاہر کرتا
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا