تحریر : محمد شاہد محمود
مسئلہ کشمیر تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947، دوسری 1965 اور تیسری1999 میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستان پورے جموں کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ 2010 میں ہندوستان کا کنٹرول 43 فیصد حصے پر تھا جس میں مقبوضہ کشمیر، جموں، لداخ اور سیاچن گلیشئر شامل ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 37 فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں مسئلہ کشمیر پر ایک بنیادی نظریے پر کھڑے ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جارہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیئے گئے۔ کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور سیکھ حکمران چاہتا تھا کہ کشمیر بھارت کے ساتھ ہوجائے۔ لیکن تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں۔
اسلئے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کا ماننا ہے کہ اس پر سکھ حکمران تھا جو بھارت سے الحاق کرنا چاہتا تھا اسلئے یہ بھارت کا حصہ ہے۔یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف آزاد کشمیر جائیںگے ۔دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھی اس دن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ناجائز تسلط کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ مقبوضہ ریاست جموں کشمیرمیں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد شہید،ہزاروں زخمی اور ہزاروں حراستی مراکز میں سالہا سال سے داد رسی کے منتظرہیں۔گزشتہ عرصے میں دس ہزار لاپتہ شہداء کی قبروں کی دریافت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی نشاندہی کے باوجود قابض فوج اور ایجنسیوں کے ایجنٹوںکے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے انہیں عہدوں اوراعزازات سے نوازاجارہاہے۔
قائدین حریت باالخصوص جناب سید علی گیلانی کی مسلسل نظر بندی اور نقل و حرکت پر پابندی ،حج عمرہ اور بیرون ملک علاج معالجہ کی اجازت نہ دینا۔ حتیٰ کہ مقبوضہ ریاست کے شہریوں کو بیرون ملک بالخصوص پاکستان میںاپنے عزیز و اقارب سے ٹیلی فون رابطے تک کی اجازت نہ دینا نام نہاد دنیا کی بڑی جمہوریت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک کروڑ سے زائد کشمیری عوام کو بندوق کی نوک پر غلام بنا کر رکھا گیاہے۔ بھارت نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔ اوباما اگر واقعی جمہوریت اور امن پسند ہوتے تو بھارت کو کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے اور مظلوم کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلواتے۔ پاکستان کی قومی پالیسی میں کشمیر ترجیح اول ہوناچاہیے۔ ملک کی سلامتی اور بقا کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔
بین الاقوامی دبائو میں آ کر حکمرانوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں اور وہ دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو چار قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اب یہ پالیسی نہیں چلے گی۔ حکمران کشمیری عوام سے دھوکا کر سکتے ہیں مگر پاکستان کے غیور عوام اپنے کشمیری بھائیوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بے شمار قربانیاں دینے اور بچوں کے لاشے اٹھانے کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ آج بھی پوری جرا ت کیساتھ بھارت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں مگر افسوس ہے کہ بزدل پاکستانی حکمرانوں نے کشمیریوں کی قربانی کو سبوتاڑ کیا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ہمیشہ نمک پاشی کی۔ نوازشریف خود کو کشمیری کہتے ہیں مگر کشمیری ہونے کے ناطے ان پر جو فرض عائد ہوتاہے اسے پورا نہیں کرتے۔ ہم پٹرول کی قیمتوں میں زیادتی ، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ برداشت کر سکتے ہیں مگر کشمیر کاز کے ساتھ بے وفائی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ بھارت کا جمہوری چہرہ سراسر دھوکا اور فریب ہے بھارت انسانیت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ امریکی اشیر باد بھارت کو کشمیر میں عبرتناک شکست سے نہیں بچاسکتی اور کشمیری عوام بھارت کے غرور کو خاک میں ملادیں گے۔
امریکہ اگر اپنے لائو لشکر اور نیٹو افواج کے باوجود افغانستان میں پٹ گیا ہے تو بھارت کشمیریوں کے ہاتھوں پٹ چکاہے اب دونوں پٹے ہوئے مہرے ایک دوسرے کو گلے میں باہیں ڈال کر سہارا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو چاہئے کہ وہ خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے بھارت پر سفارتی اور اقتصادی دبائو بڑھاتے ہوئے اسے مجبور کریں کہ وہ فوجی انخلا کرتے ہوئے کشمیر یوں کو حق خودورایت دینے کا وعدہ پوراکرے۔ حکومت پاکستان کشمیر پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی بھرپور پشتیبانی کرے اور بھارتی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کو اقوام متحدہ اور اوآئی سی سمیت تمام بین الاقوامی اداروں میں بے نقاب اور کشمیریوں کے حق خودارایت کے لیے بھرپور سفارتی مہم کا اہتمام کرے۔نریندر مودی جیسے انتہا پسند اور مسلمانوںکے قاتل کو اوباما کی آشیر باد خطے کو جنگ کے حوالے کرنے کی سازش ہے۔
امریکہ اور بھارت کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر انہوں نے کسی مشترکہ ایڈوینچرکی کوشش کی تو یہ جنگ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی امن کیلئے تباہ کن ہوگی۔کشمیر کشمیریوں کا ہے بھارت جتنی جلدی یہ بات سمجھ لے اتنا ہی اس کا فائدہ ہے۔انڈیا ایک جارح ملک ہے جو کشمیر میں قتل عا م کر رہاہے۔ بھارت کی آٹھ لاکھ افواج نے کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر غلام بنارکھاہے۔ بھارت پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکاہے۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کی تجویز دینا بھی ظلم ہے۔ ہم حکمرانوں کویہ نہیں کہتے کہ وہ امریکہ سے جنگ لڑیں مگر حکمرانوں کی طرف سے آقا و غلام کی شرمناک پالیسی عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر علاقے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔یوم یکجہتی کشمیر کو بھر پور قومی پذیرائی حاصل ہے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، قائدین اور ہر حکومت نے کشمیر کی آزادی کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ یہ ہماری متفقہ آواز ہے ۔پاکستانی قوم کایہی پیغام جانا چاہئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، کوئی مسئلہ کشمیر پر دو قدم پیچھے ہے نہ اس کی آواز کم ہے، ہر کوئی مسئلہ کشمیر کا اتنا ہی درد رکھتا ہے جتنا باقی تمام کے دلوں میں ہے پوری پاکستانی قوم کشمیر کاز کی حمایت کرتی ہے۔
تحریر : محمد شاہد محمود