تحریر: عالیہ جمشید خاکوانی
یہ بات آجکل ہر زبان پر ہے گویا ہر شخص یا تو مایوس ہے یا سسٹم کی تبدیلی کے لیئے آرزو مند۔اس سسٹم نے لوگوں کو دکھ اور پاکستان کو تنزلی کے سوا کچھ نہیں دیا یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہماری تمام سیاسی لیڈر شپ جو اس وقت اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اندر سے بالکل ایک ہے کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ قوم ملک کی بھلائی کے لیئے ایک ہوتے مگر یہ تو بیرونی آقائوں کی تمنائیں پوری کرنے کے لیئے پاکستان کو مٹانے کے لیئے ایک ہیں اگر ان کو قوم کا درد ہوتا تو سب سے پہلے پاکستان کے مستقبل کا سوچتے پاکستانی بچے کیا بن رہے ہیں کس طرح استعمال ہو رہے ہیں انکی صحت ،تعلیم ،مستقبل کچھ بھی ہمارے حاکموں کے لیئے اہم نہیں ۔حال ہی میں قصور اسکینڈل نے شرم سے سر جھکا دیئے ہیں اخلاقی گراوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے دو دو سو روپوں کے لیئے معصوم بچوں کا مستقبل دائو پر لگا دیا گیا یہ گھنائونا دھندہ کئی برس سے جاری تھا غالباً دو ہزار نو سے۔
قصور زیادتی سکینڈل کے مرکزی ملزم حسیب عامر سمیت سات ملزموں نے اعتراف جرم کر لیا ہے ایس پی انویسیٹی گیشن قصور ندیم عباس کے مطابق ملزموں کا مزید جسمانی ریمانڈ حاصل کریں گے ریمانڈ مکمل ہونے پر چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا ملزم حسیب عامر نے بیان میں اعتراف کیا کہ بچوں سے زیادتی کی وڈیو کلپس بنائے اور والدین کو بلیک میل کر کے رقوم بھی حاصل کیں ملزموں سے برامد تیس کلپس میں سے دس میں ملزموں کی شناخت ہو گئی ہے ۔پولیس نے چھاپوں کے دوران ہفتے کی رات ایک اور ملزم خالد عثمان کو حراست میں لے لیا اور جسمانی ریمانڈ لے کر تفتیش شروع کر دی ہے کئی ملزمان ابھی تک مفرور ہیں جن میں سلیم اختر شیرازی ،تنزیل الرحمن عتیق الرحمن،وسیم عابد،علیم آصف ،محمد یحیی،اور سات دوسرے ملزمان ہیں جو ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔
ان تمام ملزمان نے مقامی عدالت سے عبوری ضمانتیں کروا رکھی ہیں جن کو منسوخ کروانے کے لیئے پیروی کی جائے گی وزیر اعلی اور وزیر اعظم اس شرمناک واقعے کے زمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایت کر چکے ہیں ۔لیکن وزیر اعلی اور وزیر اعظم کے اعلانات کے برعکس یہ سب کچھ نہیں ہورہا اب تک متعلقہ علاقے کے ایم پی اے جو مبینہ طور پر اس دھندے میں ملوث بھی ہیں ،کے خلاف کسی کاروائی کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا ۔شائد اسی لیئے متاثرہ بچوں کے لواحقین نے مطالبہ کیا ہے فوج تحقیق کرے۔گائوں کے ایک مکین چودھری فاروق نے کہا ہے کہ گائوں کا ہر فرد اس اسکینڈل سے متاثر ہوا ہے بہت سے متاثرین اور ان کے لواحقین اب بھی سامنے آنے سے گریز کر رہے ہیں۔
زیادتی کے شکار ایک لڑکے کے باپ نے رونگٹے کھڑے کر دینے والا انکشاف کیا کہ میرا بیٹا بلیک میلنگ کے باعث پیسے چوری کر کے ملزموں کو دیتا رہا باپ عید محمد کے مطابق لڑکا شرمندگی اور خوف کے باعث ہمیں خود پر ہونے والا ظلم نہ بتا سکا ،میں نے بیٹے کو چوری چکاری کا عادی سمجھ کر عاق کر دیا اب صورتحال واضح ہونے پر بہت پچھتاتا ہوں جس وقت عاق کیا میرے بیٹے کی عمر صرف چودہ برس تھی اب میرے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے میں اپیل کرتا ہوں وہ پڑھے تو گھر واپس آ جائے ۔۔ اس گروہ کے سرغنہ کی حویلی میں ایک خاندان کے تقریباً بیس سے پچیس افراد مقیم تھے جو تا حال مفرور ہیں عمارت کا مالک بھی اسی گروہ کے سر غنہ سے تعلق رکھتا تھا جس نے نوید نامی شخص کو دکان کرایہ پر دے رکھی تھی مقامی لوگوں کا کہنا ہے مبینہ وڈیوز کو اسی سی ڈی سینٹر میں میں لا کر سی ڈیز بنائی جاتی تھیں اور پھر انہیں سیل کیا جاتا تھا۔
یہ سی ڈیز بنا کر بیچنے کا واقعہ شائد نیا ہو مگر کمسن بچوں سے زیادتی کے واقعات نئے نہیں ہیں آئے روز ایسے شرمناک واقعات ہوتے ہیں جو چند دن بعد بھلا دیئے جاتے ہیں کیونکہ اس میں اکثر بچوں کے قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں اور اب یہی لوگ اپنے ہی رشتہ دار بچوں کو کسی پروڈکٹ کی طرح جرائم پیشہ لوگوں کے حوالے کر کے دام کھرے کر لیتے ہیں اور دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں یہ کام تو پہلے بھی ہو رہا تھا اگر ہم نے چار پیسے کما لیئے تو کیا ہوا؟چند سال پہلے ملتا ن میں ایک واقعہ ہوا ایک چھوٹی لڑکی اور چھوٹا لڑکا دوپہر میں ایک ٹوٹے مکان سے چیخ و پکار کرتے پکڑے گئے ایک قلفیاں بیچنے والا دمی ان دونوں سے بد فعلی کر رہا تھا جب اسے لوگوں نے پکڑ لیا تو اس نے بیان دیا میں تو گلی سے گذر رہا تھا
جب میں نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ” حرکت ” کرتے دیکھا تو میرے اندر بھی شیطان جاگ گیا دوپہر میں اکثر بچے گھروں سے باہر نکل جاتے ہیں باپ کام پر ہوتے ہیں تو مائیں سوئی پڑی ہوتی ہیں ایسے ہی وقت بچے حادثات کا شکار ہوتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی زمہ داریاں کیوں پوری نہیں کرتے اپنی ”کھیتی ”کی راکھی ہم خود نہیں کریں گے تو دوسروں کو کیا پڑی ہے وہ ”کاگ” اڑائیں ۔۔اور یہ صرف غریبوں کا مسلہ نہیں ہے بڑے بڑے امیر لوگوں کے بچے اس لعنت کا شکار ہوتے ہیں بچے ہوسٹلوں میں رہیں یا بورڈنگ ہائوسوں میں کہیں محفوظ نہیں کہیں نہ کہیں کوئی شیطان موجود ہوتا ہے۔
اگر شروع سے ہی بچوں کی دینی تربیت کی جائے انہیں پاکیزگی کا عادی بنایا جائے انہیں قران پڑھایا جائے جس میں رشتوں اور انسانی حرمت کی تمام تعلیم موجود ہے ہم نے خود سب سے پہلے قران مجید پڑھا چار سال کی عمر میں ختم قران کیا اور اس کے بعد اسکول داخل ہوئے ہمیں اپنے گھر کے علاوہ کہیں کھیلنے کی اجازت نہیں تھی ہم پہ ہماری دادی چیل کی طرح نظر رکھتیں ۔گھر کے بزرگ بہت سی برائیوں سے بچاتے ہیں لیکن اب بزرگوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے مہنگائی میں پسے ماں باپ مل کر کمانے پر مجبور ہیں ۔کویت سے ایک بھائی نے لکھا کہ میں نوے دن کیت ہوتا ہوں اٹھائیس دن پاکستان اللہ مجھے اپنے ملک میں روزگار دے تو میں سکون سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہوں لیکن ہمارے ملک میں اچھی نوکری میرٹ پر نہیں سفارش پر ملتی ہے۔
اسی طرح ایک اور صاحب نے مجھے میسج کیا کہ آپ ملک میں بڑھتی ہوئی منشیات فروشی پر لکھیں اس میں لڑکے لڑکیوں کی کوئی تخصیص نہیں منشیات تعلیمی اداروں میں ہی مہیا کی جاتی ہیں اور اب یہ فیشن بن گیا ہے چاہے شیشے میں رکھ کے پیو چاہے سگریٹ کے سوٹے لگائو نئی نسل ہر طرح سے برباد ہو رہی ہے ۔اور لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے وہ سیاست سے بے زار ہیں وہ ساری خرابیوں کی جڑ سسٹم کو قرار دیتے ہیں حکومت لاتعلق ہے سوائے مہنگائی میں اضافہ کرنے اور مجرموں کو تحفظ دینے کے سوااسے اور کوئی سروکار نہیں۔
کسی مجرم کو اول تو پکڑا نہیں جاتا اگر میڈیا کے دبائو پر پکڑ بھی لیا جائے تو یا انہیں سیاسی چھتری مہیا کر دی جاتی ہے یا معاملہ ٹھنڈا ہونے پر دبا دیا جاتا ہے ۔قصور والے واقعے پر بھی مٹی ڈالنے کا عمل جاری ہے اسے بھی کوئی سیاسی یا زاتی دشمنی کا رنگ دے کر رفع دفع کر دیا جائے گا کہ اب مجرم بھی پالے جاتے ہیں ایوانوں میں پہنچانے کے لیئے کرسیوں پہ بٹھانے کے لیئے!
تحریر: عالیہ جمشید خاکوانی