تحریر : عاصمہ عزیز
حادثات ہر انسان کی زندگی میںنہ ختم ہونے والے اور مختلف اثرات چھوڑتے ہیں۔ کسی کی زندگی میں پیش آنے والے حادثات غموں کے گہرے بادل اور زخموں کے نشانات چھوڑ جاتے ہیں توکسی دوسرے کی زندگی میں یہی حادثات ان سے بچنے کے لئے آگاہی کے در وا کردیتے ہیں۔ حادثات چاہے کیسے بھی ہوں یہ کسی کی بھی زندگی میں خوشگوار اثرات نہیں چھوڑتے بلکہ اذیت اور تکلیف کے بہت سے نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کے حادثات کا شکار ہے اور دہشت گردی کے یہ واقعات دن بہ دن گھٹنے کی بجائے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
لندن کے ایک ادارے کی تحقیق کے مطابق پاکستان کو جی ٹی آئی لسٹ (عالمی دہشت گردی اشاریہ) پر تیسرا درجہ حاصل ہے جس کی وجہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں 2012 ءتک دہشت گردی کی وجہ سے شرح اموات 37فیصد اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 8 2فیصد رہی،گز شتہ ہر حکومت اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی عوام کو اپنی جانوں کی قربانی دے کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اکتوبر 2009ءمیں انٹر نیشنل اسلامک یو نیورسٹی اسلام آباد میں طالبے علموں پر ملک میں پہلی مرتبہ خودکش حملہ ہوا جس میں 6 افراد شہید اور 29 زخمی ہوئے۔ یہ حملہ پاک فوج کے شمالی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن راہ ِ نجات کے بعد پیش آیا۔ دہشت گردی کی اس کا روائی کے بعد بھی حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کی چند دن بندش کے سوا تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کو بڑھانے کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔ اسے حکومت کی بے حسی کہہ لیں یا نا اہلی ، وجہ کوئی بھی ہو مظلوم عوام کو دہشت گردی کی ان کا روائیوں کا آج بھی پہ درپہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
2009ءمیں اسلامک یو نیو رسٹی میں ہونے والے خود کش دھماکے سے سبق حاصل کرنے کے باوجود تعلیمی اداروں کی سکیورٹی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے 16دسمبر4 201 میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم طلباءدہشت گردوں کے ظلم کا نشا نہ بنے اور ایک دفعہ پھر ملک میں خون میں لپٹی ہوئی لاشوں کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ ملک کی فضا ﺅں میں تقریبا 135 معصوم بچوں کے لواحقین کی آہیں اور سسکیاں گونج اٹھیں اور شہر میں ہونے والے اس قیامت خیز منظر کو دیکھ کر ہرفرد کا دل درد سے پھٹ رہا تھا اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اس واقعے کے بعد پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں کوئی بڑا سانحہ ہونے سے قبل سکیورٹی کو ہائی الرٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟ حکومت کو کسی بڑے سانحے کے ہونے کا انتظار ہوتا ہے۔ گو کہ سانحہ پشاور کے بعدموجودہ حکومت دہشت گردی سے لڑنے کے لئے سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے اور اس سانحے کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے اس پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں نے بھی ملک میں شرپسندی پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیوں پر تیزی سے عمل درآمد شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ایک کے بعد ایک سانحات رونما ہونے لگا ہے۔
ابھی قوم سانحہ پشاور کے غم کو نہیں بھلا پائی تھی کہ دہشت گرد عناصر نے ایک دفعہ پھر شکار پور سندھ کے امام بارگاہ میں بم دھماکہ کیا، جس سے پانچ بچوں سمیت 61 نمازی لقمہ اجل بنے اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ پشاور اور شکارپور سندھ کے علاوہ لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی بھی دہشت گردی کی اس ابھرتی ہوئی لہر سے محفوظ نہیں رہ سکے اور پاکستان کے ان شہروں میں ہونے والے پہ در پہ بم دھماکے اس بات کی علامت ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں حکومتی دعووں سے متاثر ہوئے بغیر پہلے سے بہترطریقے سے اپنی کارروائی کررہے ہیں۔
کیا پاکستانی عوام کا خون اتنا ارزاں ہے کہ وہ اسی طرح بہتارہے گا اور عوام اسی طرح ان واقعات پر بے بسی سے آنسو بہاتے اور دھرنے دیتے رہیں گے اور حکومت اسی طرح ا ن واقعات پر مذمت اور دہشتگردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں نعرے لگاتی رہے گی۔ حکومت کو چا ہیے کہ اس روز برور بڑھتی ہوئی دہشت گردی پرقابو پانے کے لئے بنائے جانے والی منصو بہ بندی پرتیزی سے عمل درآمد کرے۔ اﷲتعا لیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستان میں رہنے والوں کو اسدپنے حفظ وامان میں رکھے اور اسلام و ملک دشمن عناصر کو جلد نیست ونابود کر دے۔ آمین
تحریر : عاصمہ عزیز