پاکستان جلد ہی سائنسی دنیا کا ایک اہم ملک بن جائے گا۔ چین کے ساتھ اس حوالے سے پروجیکٹ کا اہتمام ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ ’’سائنس آفاقی حقائق کی تلاش کا نام ہے‘‘۔ تنظیم برائے اقتصادی تعاون (ای سی او) ایران ترکی اور پاکستان سمیت دیگر رکن ممالک میں اقتصادی، ثقافتی اور تکنیکی تعاون کو فروغ دینے میں کوشاں ہے۔
ان خیالات کا اظہار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے جامعہ کراچی میں 4 روزہ 14 ویں یوریشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے خطاب کرنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر منظور سومرو، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری، نادرہ پنجوانی، حسین ابراہیم اور عزیز جمال شامل تھے۔
محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے زیر اہتمام بزنس اینڈ مینجمنٹ کے موضوع پر عالمی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ باصلاحیت افراد کے ملک میں موجود ہونے کے باوجود ہم ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’سیاستدانوں کے مقابلے میں ماہرین تعلیم دانشور ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں‘‘۔ اسد عمر ایک سیاستدان ہیں تحریک انصاف سے ان کا تعلق ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے منشور میں تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کیا کیا منصوبے میں شامل ہیں؟ پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تقریباً ساڑھے تین سال سے برسر اقتدار ہے، اس نے پختونخوا کے تعلیمی شعبے خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کیا کیا اقدامات کیے ہیں؟ اس حوالے سے پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی صورتحال پر نظر ڈالنے سے پہلے ہم 69 سال کے دوران اقتدار میں رہنے والوں اور ملک کے سماجی ڈھانچے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان کو وجود میں آئے اب 69 سال ہو رہے ہیں، اس دوران ملک میں تقریباً آٹھ جمہوری اور چار فوجی حکومتیں قائم ہوئیں، لیکن ان حکومتوں کے دوران تعلیمی میدان میں سناٹا رہا، خاص طور پر سائنس، تحقیق و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں الو بولتے رہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں اقتدار ہمیشہ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں میں رہا، جن کو نہ تعلیم کے شعبے میں ترقی سے کوئی دلچسپی رہی نہ سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت سے یہ احمق واقف تھے۔ اس کی دوسری وجہ ہمارے ملک میں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے جس میں حصول تعلیم گناہ کبیرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
وڈیرے دیہی علاقوں میں اسکولوں کو مویشی خانوں کی طرح استعمال کرتے ہیں اور شہری علاقوں میں غریب کے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں کے نام پر جو کالے پیلے اسکول قائم ہیں وہاں بچے علم حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ شرارتیں کرنے اور کھیل کود کے لیے جاتے ہیں۔ ان اسکولوں کا نصاب ازکار رفتہ ہوتا ہے اور اساتذہ کی اکثریت اپنی ذمے داریوں سے نابلد ہوتی ہے۔ اس ماحول میں منافع کمانے کے ماہرین نے انگلش اسکولوں کے نام پر ایک ایسی کاٹیج انڈسٹری کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے گلی محلوں میں پھیل گئی اور لوئر مڈل کلاس سے جو ان انگلش اسکولوں کی فیس برداشت کرسکتا ہے وہ دھڑا دھڑ ان پرائیویٹ انگلش اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجنے لگا۔
اس کاٹیج انڈسٹری میں اگرچہ فیس اور دوسرے متعلقات ہی لوئر مڈل کلاس کی کھال کھینچ لینے کے لیے کافی ہوتی ہے، اس لوٹ مار سے غیر مطمئن مالکان نے اپنے اپنے اسکولوں کے نام پر اسٹیشنری، کتابوں اور یونیفارم کی فروخت کا کاروبار بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور بچوں پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ کتابیں، کاپیاں وغیرہ اسکول سے ہی خریدیں یا ان بک اسٹالوں سے جو ان کی مہیا کردہ اسٹیشنری وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ یوں یہ کاٹیج انڈسٹری ایسا منافع بخش کاروبار بن گئی کہ چھوٹے سرمایہ کار اس میں دھڑا دھڑ سرمایہ لگانے لگے اور لاکھوں کمانے لگے۔
ہم جس طبقاتی نظام میں زندہ ہیں اس میں تعلیم کا شعبہ بھی سخت طبقاتی تقسیم میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم نے دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور شہری علاقوں میں سرکاری اسکولوں اور پرائیویٹ اسکولوں کی کاٹیج انڈسٹری کا سرسری جائزہ پیش کیا ہے، جس کے پس منظر میں ہم اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے درست کہا ہے کہ ’’پاکستان جلد ہی سائنسی دنیا کا ایک اہم ملک بن جائے گا۔‘‘
تحریک انصاف کے اسد عمر نے کہا کہ ہمارے ملک میں باصلاحیت افراد موجود ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں سے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے مجھے عید گاہوں میں نماز عیدین کے مناظر یاد آرہے ہیں۔ خالد علیگ تقریباً نصف صدی تک میرے پڑوسی رہے، ہم جب عیدین کے موقع پر عیدگاہ جاتے تو عید گاہوں کے منتظمین رومال ہلاہلا کر ’’اہم لوگوں‘‘ کو صف اول میں بلاتے دکھائی دیتے تھے اور ہم اور خالد علیگ آخری صفوں میں بیٹھے رہتے تھے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں ترقی کے اہداف طے کرنا حکومتوں کا کام ہے اور ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کی ہمیشہ پہلی ترجیح کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا رہی ہے یا اپنے اوپر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کا ’’دفاع‘‘ رہا ہے۔
آج کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو آپ کو دکھائی دے گا کہ حکومت کی ساری مشینری کی پہلی ترجیح وزیراعظم کے خاندان پر لگائے گئے پاناما لیکس اسکینڈل کا دفاع نظر آتا ہے۔ جب صورتحال یہ ہو تو پھر سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں پر کون توجہ دے سکتا ہے۔ لیکن ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کا یہ خیال درست ثابت ہو کہ ’’پاکستان جلد ہی سائنس کی دنیا کا ایک اہم ملک بن جائے گا‘‘۔