تحریر: ابنِ نیاز
پاکستان اور بھارت بظاہر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہمسایہ ممالک، لیکن ایک دوسرے سے بباطن میں لاکھوں میل دور ہیں۔ وجوہات کیا ہیں ، ہر ذی شعور پاکستانی، تجزیہ نگار اور ہر پڑھا لکھا فرد جانتا ہے۔ جس کے دل میں پاکستان سے دلی محبت رچی بسی ہوئی وہ یہ بات جانتا ہے کہ یہود نصارٰی و ہنود مسلمانوں کے دوست کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔ اس بات کا یقین اس لیے ہے کہ یہ اللہ پاک کا حکم ہے بلکہ فیصلہ ہے۔ یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تاریخ کے ہر ورق میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے الفاظ اور جملے ملتے ہیں اور ان جملوں کے تانے بانے کن دماغوں سے ملتے ہیں وہ بھی تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں۔
تمہید اگرچہ اکثریت کو بری لگتی ہے لیکن کیا کیا جائے جب بھی پاکستان میں دہشت گردی ہوتی ہے تو نوے فیصد ایسے واقعات کے سلسلے انڈیا سے جا ملتے ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ انکے ناولوں میں جو کہ شاید حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں، جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے پاکستانی حکومت ایسے بھیانک واقعات میں انڈیا کی شمولیت کے ثبوت باقاعدہ طور پر انڈیا کے مائی باپ امریکہ کو دیتی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کو پہنچاتی ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ ساگر صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں لہٰذا انہیں خاموشی سے ناول کا تتمہ بالخیر کرنا پڑتا ہے۔
ناولوں اور کتابوں کی باتیں تو کاغذوں تک ہی اچھی لگتی ہیں، چاہے مبنی بر حقیقت
ہوں۔ بلکہ ایسے ہونے والے واقعہ کے بعد تھوڑی بہت تو تحقیق و تفتیش ہوتی ہے اور اس میں جب یہ ثبوت مل جاتا ہے کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر صرف یہ بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ کے شواہد ملے ہیں۔تفصیل مزید تحقیات کے بعد بتائی جائے گی۔ لیکن میری یاد کے کسی نہاں خانے میں بھی یہ بات موجود نہیں ہے کہ بعد میں کبھی تحقیقات ہوئی ہوں یا ہو کر عیاں ہوئی ہوں۔ جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انکا دنیاوی آقا جو ان کی جیبیں بھرنے کے لیے امداد دیتا ہے وہ بند کر دے گا۔ جس سے یہ غریب ہو جائیں گے۔ ان کے پاس کھانے کے لیے ایک مخصوص قسم کا برگر اور پینے کے لیے ایک مخصوص قسم کا پانی نہ رہے گا۔ اور جو پاک آرمی تحقیقات کرتی ہے تو اس کو بھی سرخ فیتہ کی نظر کردیا جاتا ہے۔
خیر یہ تو ایک ثانوی بات آگئی۔ بات ہو رہی تھی دہشت گردی کی ۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں ہونے والی دہشت گردی جس میں ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی ۔ چنگیز خان و ہلاکو خان کی روحیں بھی کانپ اٹھی ہوں گی۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پاک فوج نے اس دہشت گردی کے پیچھے کارفرما سازش کا منبع تک ڈھونڈ لیا۔ جس کے نتیجے میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ کو ساتھ لے کر افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی سے ملنے کابل پہنچ گئے۔ انکے سامنے ثبوت رکھ کر ریڈیو ملال فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ یہ ثبوت بھی دیا کہ سکول کے بچوں پر فائرنگ کے دوران خارجی ملا دہشت گرد جس شخص سے مسلسل رابطے میں تھے وہ افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ کا ایک اونچی حیثیت کا ملازم تھا۔ جس پر اشرف غنی صاحب نے حتٰی المقدور مدد کا وعدہ کیا۔ بلکہ شاید اگلی ہی رات افغانستان کے جہازوں نے فضل اللہ کے متوقع ٹھکانوں پر فضائیے حملے بھی کیے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں ایک خوشگوار افواہ بھی گردش کرتی رہی کہ ملا ریڈیو مار دیا گیا ہے اور اس کو مارنے میں پاکستان کی فضائیہ کا ہاتھ ہے (یاد رہے ، میں نے افواہ کا لفظ استعمال کیا ہے )، جو کہ بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی۔
ہم نے تو پھر ثبوت پیش کیے اور ان ثبوتوں کو صدر افغانستان نے مانا بھی۔ لیکن اگر اسی طرح کا (ممبئی واقعہ کے علاوہ) کوئی واقعہ انڈیا میں پیش آیا ہوتا تو تو مجھے تو کیا شاید ہر محب وطن پاکستانی یہ کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردوں کی لاشیں تو بہت بعد میں گرتیں، انکے حکمرانوں کو صرف یہ اطلاع ملتے ہی کہ ممبئی، دہلی یا کسی اور شہر کے فلاں سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے، انھوں نے آئو دیکھا نہ تائو، پاکستان کا نام لے دینا تھا۔ نہ صرف پاکستان کا نام لینا تھا بلکہ کسی نہ کسی مذہبی تنظیم سے ان دہشت گردوں کے رابطے بھی جوڑ دینے تھے۔ وہ واویلا مچانا تھا کہ دنیا ساری ایک بار تو ان کی بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتی۔ کیوں کہ میڈیا پر انڈیا والے بھی اس طرح چھائے ہوئے ہیں جیسے شہد کو شہد کی مکھیوں نے ڈھانپا ہوتا ہے۔کہیں پڑھا تھا کہ اگر آپ کو روشنی کی وجہ سے جو نظر آتا ہے اور آواز کی وجہ سے جو سنائی دیتا ہے، وہ لازمی نہیں کہ حقیقت ہی ہو، بلکہ حقیقت کے پردے میں کچھ اور ہی کہانی ہوتی ہے، جو صرف کفر کرنے والا ہی جانتا ہے۔ یہاں کفر سے مراد حقیقت کو چھپانے کے معنوں میں لیا گیا ہے۔
یقینا اشرف غنی صاحب نے فوری ایکشن لیا۔ لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اتنے واضح ثبوتوں کے باوجود ہم عالمی عدالت انصاف میں کیوں نہ گئے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ہم نے یہ ثبوت کیوں نہیں پیش کیے۔ انڈیا کے مائی باپ اور پاکستانی اونچی اور مغربی سوسائیٹی جس میں بہت سے افراد شامل ہیں، کے آقائوں کو یہ ثبوت کیوں نہیں دکھائے کہ یہ ہیں تمھارے لاڈلے انڈیا کے کرتوت۔ ساتھ میں یہ بھی کہنا بنتا تھا کہ اب اگر انڈیا ایسے واقعہ میں دوبارہ ملوث پایا گیا تو پھر پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے حوالے سے جو انگلی اٹھ کر نقشہ بنائے گی وہ انگلی جڑ سے کاٹ دی جائے گی بلکہ ممکن ہوا تو وہ ہاتھ ہی کاٹ دیا جائے گا جس کے ساتھ یہ ذلالت بھری انگلی لگی ہو گی۔
انڈین قونصلیٹ کے اس فرد کے ساتھ ( نام میں بھول رہا ہوں لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کئی بار اسکا نام لیا گیا ہے، بلکہ فوٹو تک دکھایا گیا ہے ) افغانستان میں کیا ہوا۔ کچھ بھی نہیں۔ شاید ناپسندیدہ فرد قرارد ے کر نکال دیا گیا ہو گا جو کہ شاید ممکن نہیں کیونکہ ہندوستان نے افغانستان کے سیاستدانوں کی اکثریت کے دماغوں پر اپنے پنجے اس طرح گاڑھے ہوئے ہیں کہ انڈیا کی مرضی کے بغیر وہ شاید سانس بھی نہیں لے سکتے۔ دوسرا کام جوکہ ممکنہ صورت بن سکتی ہے کہ راہ کے اس انڈین ایجنٹ، قونصلیٹ کے پردے میں نہاں، کو کہا گیا ہو گا کہ وہ خود ہی آرام سے انڈیا چلا جائے کہ وہ (افغانی) یہاں کوئی لڑائی نہیں چاہتے (اور اسکی جگہ دوسرے را کے ایجنٹ کو بجھوا دیں۔)
ہم کیوں ڈرتے ہیں اپنے ہاتھ آئے ہوئے ثبوتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے ، ہمیں کس بات کا خوف ہے؟ کیا اس بات کا کہ امریکہ ہماری امداد بند کر دے گا یا دنیا سے ہمارابائیکاٹ کرا دے گا، یا ہم پر مختلف حیلے بہانوں سے حملہ کر دے گا۔ میرا سوال اس معاملے میں یہ ہے کہ ہمارا مالک، آقا امریکہ ہے یا ایک خدا۔ اللہ کے حکم کے مطابق جو صرف اس سے ڈرا اس پر نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ کبھی غمگین ہو گا۔ اور جو اللہ کا ہو کر رہ گیا، اس کو پھر دنیا سے کیا ڈر۔ ایک مرتبہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو منہ توڑ جواب دیں۔ انکی دی گئی امداد کو ان کے منہ پر ماریں، جو قرضہ ان سے لیا ہوا ہے وہ نہ دیں کہ اس قرضے کے بدلے مہا درجہ زیادہ ان کے مفاد میں جان و مال کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ دنیاوی آقا کہلانے کی بجائے ہمارے سامنے غلاموںکی طرح ہاتھ باندھ کر نہ کھڑے ہوں۔
جہاں تک بات پاکستان کے بائیکاٹ کی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ پاک نے پاکستان کو ڈھیروں وسائل سے نوازا ہے۔ شرط صرف ان کو عمدہ اور بہترین طریقے سے مثبت انداز میں استعمال کرنے کی ہے۔ہمارے موجودہ زرِ مبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ ہیں لیکن اگر ہم ریکوڈک کے سونے ذخائر جو کہ اربوں کھربوں روپے کی مالیت کے ہیں، پاکستان کے محب وطن افراد سے ان پر کام کروایا جائے، انکی زمین کی تہوں سے نکال کر زمین کے اوپر استعمال کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کئی گنا نہ بڑھ سکیں۔ آج ہم نے تونسہ بیراج اور بھاشا ڈیم پر اجیکٹس صرف اس وجہ سے روک دیے ہیں کہ ان کو بنانے کے لیے اور مکمل طور پر فعال بنانے کے لیے کافی سے زیادہ فنڈ چاہیے، تو جب ذخائر بڑھ جائیں گے تو اس طرح کی مثبت سکیموں کے لیے فنڈز خود بخود آ جائیں گے۔ تھر کے کوئلہ سے پاکستان میں ایک تحقیق کے مطابق سو سال تک پچاس ہزار میگا واٹ لگاتار بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اور ظاہر ہے جو گیس خارج ہوتی ہے وہ بھی کسی نہ کسی کام تو آہی سکتی ہے۔شمسی توانائی، ہوائی توانائی، پانی کی توانائی سے اللہ پاک نے پاکستان کو وافر مقدار سے نوازا ہے۔ ہم انھیں کیوں استعمال نہیں کرتے۔کیا میٹرو بس پراجیکٹس اور موٹر وے بنا کر عوام کی بھوک کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ ان کے تن کو ڈھانپا جا سکتا ہے، انہیں شدید سردی کی شدید بارش سے بچایا جا سکتا ہے؟ انکے سر پر چھت مہیا کی جاسکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔
سوچنے والوں کو دعوت ہے کہ وہ سوچیں پاکستان خطرے کی زد میں کیسے ہے؟ اندرونی خطرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور بیرونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو تباہ کرنے کا کوئی موقع نہ تو ہمارے دیرینہ دشمن ہاتھ سے جانے دیتے ہیں اور نہ ہی ہمارے آستین میں چھپے سانپ اپنا زہر پھینکنے سے باز آتے ہیں۔انکا سدِ باب کیسے ممکن ہے یہ اربابِ اختیار بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور ان سے نمٹنے کی صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ ان ناسوروں سے پاکستان کی جان ان شا ء اللہ جلد ہی چھوٹ جائے گی۔
تحریر: ابنِ نیاز