تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
وزیرِاعظم نواز شریف صاحب نے بی جے پی کے نَومنتخب بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کرکے اقوامِ عالم کو یہ پیغام دیاکہ پاکستان اپنے ہمسائیوں کے ساتھ افہام وتفہیم سے رہنا چاہتاہے ۔اگر وہ تقریبِ حلف برداری میں نہ جاتے تو یقیناََ انڈیا شور مچاتا کہ پاکستان کو امن وسکون پسند نہیں ۔وزیرِاعظم نواز شریف کے اِس اقدام کو اقوامِ عالم نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا لیکن جواباََ مودی صاحب نے بغیر کسی وجہ کے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کو منسوخ کردیا اور سرحدوں پر چھیڑچھاڑ شروع کردی۔
میاں صاحب نے اقوامِ متحدہ میں مسٔلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کرکے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی لیکن بے سود کہ ضمیر نام کی کوئی شے اقوامِ عالم کے ہاں مفقودہے ۔اگر اُن میں ضمیر کی خلش ہوتی تو ”عالمی درندہ”امریکہ ویت نام پر نیپام بموں کی آگ نہ برساتا، ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بموں کی برسات سے قیامتِ صغرا بپا نہ ہوتی ،لاطینی امریکہ میں وحشت وبربریت کا ننگا ناچ نہ ہوتا ،فلسطین کے مقہوروں ،افغانستان کے مظلوموں اور عراق کے مجبوروں کی آہیں نہ سنائی دیتیں۔عالمی درندے کی اپنا ہی قانون ہے اور اپناہی آئین ۔روس افغانستان میں داخل ہوا تو اسامہ بن لادن مجاہد اور جب ”درندے” نے چڑھائی کی تو دہشت گرد اور بنیادپرست۔
ذلت آمیز ہزیمت کے بعد روس افغانستان سے نکلا تو ملاعمر مجاہد اور امیرالمومنین ،امریکہ حملہ آور ہوا تو دہشت گرد ،”جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے”ہم تب بھی امریکہ کے ساتھ تھے اور اب بھی ہیں ۔امریکی دوستی میں ہم نے ساٹھ ہزارشہری اور آٹھ ہزار سے زائد فوجی جواں شہیدکروائے ،سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان کیا ،معیشت پاتال میں اتر گئی ،بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال دیئے،کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا ، خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری عام ہو گئی اور ملکی اندرونی حالت یہ کہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں” اِس سب کچھ کے باوجود بھی ہیلری کلنٹن ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی امداد پر اتراتی رہی ۔اُدھر ہمارے رہنماؤں کی فہم وفراست کا یہ عالم کہ
کم ہونگے اِس بساط پہ ہم جیسے بَد قمار
جو چال بھی چلے ہم نہایت بُری چلے
حکمرانوں نے طالبان سے مذاکرات کی سرتوڑ کوشش کی لیکن اُنہیں تو انسانی خون کی چاٹ لگ چکی تھی ۔چاروناچار آپریشن ”ضربِ عضب”کرنا پڑا اور تب پتہ چلا کہ طالبان کتنے طاقتور تھے ۔صرف میراں شاہ اور میر علی سے اتنا اسلحہ اور بارود ملا کہ اگر طالبان ہر روز تین بم دھماکے کرتے تو پندرہ سال تک متواتر یہ دھماکے کر سکتے تھے ۔اسلحہ اتنا جدید ترین کہ دیکھنے والے دَم بخود ۔سوال مگر یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہاں سے آیا ْ؟۔سوائے افغانستان کے اور تو کوئی راستہ نہیں جس کے ذریعے طالبان کو یہ اسلحہ پہنچایا جاتا ۔افغانستان میں امریکی افواج ہے یا بھارتی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے کارندے۔
اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کو یہ جدید ترین ہتھیار پہنچانے والے یا تو امریکی ہو سکتے ہیں یا پھر بھارتی ۔امریکہ ہمارا کبھی دوست نہیں رہا ،ویسے بھی سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکی دشمنی سے امریکی دوستی زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ پینسٹھ سالوں سے ہمارا دوست ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ عین موقعے پر بیوفائی کی ۔ہندوستان ہمارا ہمسایہ ہے، ایسا ہمسایہ کہ جس نے کبھی ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔حکومت خواہ کانگرس کی ہو یا بی جے پی کی ،پاکستان دشمنی مسلمہ ہے ۔پھر پتہ نہیں ہم کیوں امن کی آشا کے دیپ جلائے پھرتے ہیں ۔کیا اُس شخص سے خیر کی اُمید کی جا سکتی ہے
جس کا نام نریندر مودی ہے ؟۔ یہ وہی مودی ہے جس سے گجرات کے مسلمانوں کے بے دریغ قتلِ عام پر ایک صحافی نے سوال کیا ”کیا آپ کو مسلمانوں کے قتل پر افسوس ہوا ؟”۔چنگیزیت کے علمبردار نریندر مودی نے جواب دیا ”اگر آپ کی گاڑی کے نیچے کتا آ کر مر جائے تو افسوس تو ہو گا ”۔ صرف مودی ہی نہیں ،کانگرس نے بھی ہمیں وہ گھاؤ دیئے ہیں جو ہمارے اندر ناسور کی طرح پک رہے ہیں ۔یادوں کے ادھ کھُلے دریچوں سے اب بھی وہ کربناک منظر دکھائی دیتا ہے جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل اروڑا نے ہماری غیرتوں کے تمغے نوچے ،پاکستان دو لخت کیا ہوا گویا اقبال کا خواب اور قائد کی محنت بھی دو لخت ہو گئی ۔تب کانگرس کی حکومت تھی اور اندراگاندھی وزیرِ اعظم ۔ہم تو اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے رہے
لیکن رب کے نام پر بنائے ہوئے اِس ملک کے دو لخت ہونے کا انتقام خود ربِ ذو الجلال نے لے لیا ۔ملک کو دو لخت کرنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی طبعی موت نصیب نہ ہوئی ۔شیخ مجیب الرحمٰن اپنے خاندان سمیت قتل ہوا ،صرف حسینہ واجد بچی جو اُس وقت ہندوستان میں تھی ،بھٹو کو پھانسی ہوئی ،دونوں بیٹوں اور بیٹی کے نصیب میں غیر طبعی موت لکھ دی گئی ،اندراگاندھی اور اُس کا بیٹا راجیو قتل ہوئے اور سنجے گاندھی طیارے کے حدثے میں مارا گیا اور یحییٰ گمنامی اور ذلت کی موت مرا ۔یہ میرے رَبّ کا انتقام تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اِس سے سبق حاصل کیا ؟۔
واقعی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ۔قومی و ملّی یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے ،پہلے کبھی نہ تھی لیکن پھر بھی ملک میں افراتفری اور انارکی کا سا عالم ہے ۔اقتدار کی جنگ جاری ہے اور ہوس کی ٹپکتی رالوں نے فضاؤں کو مسموم کر رکھا ہے ۔اہلِ دل چیخ رہے ہیں کہ ملک لخت لخت ہونے کو ہے لیکن رہنماؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔لاشوں پر سیاست کرنے والوں کی انتھک کوشش ہے کہ کچھ لاشیں مل جائیں تاکہ وہ اپنی تحریک کی انسانی خون سے آبیاری کر سکیں اور لاشوں پہ قدم رکھتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکیں ۔فیصل آباد میں نواز لیگ اور تحریکِ انصاف کے کارکن آمنے سامنے ہیں ۔اللہ نہ کرے کہ کوئی سانحہ رونما ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو اِس خون ِ ناحق کا ذمہ دار کون ہوگا ؟۔کیا تحریکِ انصاف یا پھر نواز لیگ؟۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر