تحریر: عاقب شفیق
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کا مزاج اور تہذیب اسکی زبان سے جڑے ہوتے ہیں. جسکا ہر رنگ اس زبان سے جھلکتا ہے. کسی بھی تہذیب کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ اپنی مادری زبان کا ساتھ چھوٹ جانا ہوتی ہے. زبان بدلنے سے سوچ اور افکار میں لمحہ بہ لمحہ فرق نمایاں طور پر نظر آنے لگتا ہے. ترقی یافتہ ریاستیں اجتماعی کوششوں اور یکجوئی کیساتھ درست سمت میں کی جانیوالی محنت کے نتیجے میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں. دنیا میں کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اجتماعی طور پر کوئی کام نہیں کر سکتا جب تک اس معاشرے کے تمام افراد میں ہم آہنگی نہ ہو۔ جب معاشرے کے تمام افراد یکسوئی کیساتھ مکمل آگہی اور شعور کیساتھ کوئی کام کریں گے تو کوئی طاقت انہیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ اور کام بطریقِ احسن انجام پاتا ہے۔ مسائل تب جنم لیتے ہیں جب افراد میں باہمی آگہی، یکسوئی اور یکجہتی کے عناصر ناپید ہوں۔
لغت کی اہمیت:
افراد تک پیغام رسانی اور ان میں مکمل یکجہتی کے لیئے لسانی یکجہتی کا عنصر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ جب کسی معاشرے کی ایک زبان ہو اور ہر فرد کو اس زبان پر عبور حاصل ہو۔ تو ہر شخص مکمل فہم و تدبر کیساتھ فیصلہ کرنے کا اہل ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت بے شمار عجیب طرز کے مسائل کا شکار ہے۔ یہ وقت ہے سائنس کو پڑھنے کا، یہ وقت ہے دنیا کے رموز و اوقاف سے آگہی حاصل کرنے کا، یہ وقت ہے سائنس کی طاقت سے خلا، چاند ،تارے مسخر کرنے کا اور ہم لسانی تعصب جیسی بچگانہ ضد اور مضحکہ خیز کھلواڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ہوا یوں تھا:
قائد اعظم نے پاکستان بننے کے ایک برس بعد ہی مشرقی پاکستانی میں اردو کو قومی زبان قرار دے دیا تھا۔ قائد اعظم نے کوئی خود ساختہ نیا فرمان جاری نہ کیا بلکہ یہ بات قیامِ پاکستان سے قبل طے تھی کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ بنیادی طور پر پاکستان بننے میں مذھب کی کافی مداخلت رہی۔ پاکستان اسلام کے نام پر ہی معرضِ وجود میں آیا۔ مذھب کے بعد دوسری بڑی اہمیت زبان کو حاصل ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہی اردو کو نئی ریاست کی زبان قرار دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کی حیثیت سے اپنے منشور میں شامل کیے رکھا۔
1946 میں پاک و ہند کی پہلی عبوری حکومت میں سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک وتار بنائے گئے تو پہلی بار ریلوے کے نظام الاوقات، ٹکٹوں اور فارم پر اردوکو اختیار کیا گیا۔ 1946 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں فیروز خان نون نے انگریزی میں تقریر شروع کی تو ہر طرف سے اردو۔اردو کی آوازیں آئیں۔ جس پر انھوں نے چند جملے اردو میں کہے اور پھر انگریزی میں شروع ہو گئے، مجمع سے پھر اردو اردو کا مطالبہ ہوا، تو انھوں نے کہا کہ مسٹر جناح بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ قائداعظم کھڑے ہوئے اور فرمایا فیروز خان نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ رڑکی کالج میں 1856 سے 1888 تک ذریعہ تعلیم اردو رہا۔ 14 اگست 1917 کو جامعہ عثمانیہ میں مولوی عبدالحق کی سربراہی میں دارالترجمہ قائم کیا گیا۔ جس میں تمام علوم کا اردو لغت میں ترجمہ کیا جانے لگا۔ کثیر کتب کا ترجمہ اردو میں کیا گیا۔ جرمن ، ترکش، اور عبرانی کتب کا ترجمہ ایک دشوار عمل رہا لیکن مولوی صاحب کی زیرِ سرپرستی اس وقت کے جید معلمین اور ماہرِ لسانیات نے یہ کارنامہ احسن طریقے سے انجام دیا۔
اردو کی اہمیت:
اردو کے پاکستان میں نفاذ کو منفی لہجے سے پوچھنے والوں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ جو زبان ایک صدی قبل اپنی قدرتِ کلام کی وسعت کا عملی ثبوت خود پیش کر چکی ہے اس کا پاکستان میں نفاذ کیونکر دشوار ہو سکتاہے؟ اردو ایک بلیغ لغت ہے۔ انگریزوں کے برصغیر پر قبضے سے قبل سائنسی علوم اور سائنسی اصطلاحات عربی اور اردو میں تھیں۔ انگریزوں نے جنگ آزادی کے بعد سے تمام اردو لٹریچر کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کے بعد کی تمام تر تحقیقات اور اصطلاحات انگریزی لغت میں رکھی گئیں۔ وہ سائنس میں آگے نکلتے گئے اور ہمیں چھوٹے لیکن مہلک امراض میں مبتلا کر کے خود واپس چلے گئے۔ انہیں واپس گئے ایک عرصہ گزر گیا اور ہم ایسے الجھے رہ گئے کہ الحفیظ والامان.
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہلِ د ا نش نے بہت سو چ کے الجھا ئی ہے
قیامِ پاکستان کے بعد سے جیسا قائد اعظم چاہتے تھے، اردو نافذ کر دی جاتی اور مکمل طور پر دفتری زبان بنا دی جاتی تو ہم بے شمار مسائل سے پاک ہوتے۔ اردو مکمل طور پر نافذ ہونے سے لسانی تعصبات کی جڑ کٹ جاتی اور یوں صوبائی تعصبات آگ نہ پکڑتے۔
نفاذِ اردو میں رکاوٹیں:
سب سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ رویہ حکمران طبقے کا رہا۔ حکمران طبقے کی بے حسی ہمیشہ اردو کی ترویج کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی ہے۔ بدقسمتی کیساتھ ہمارے حکمران طبقے کی شروع سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ انگریز طرز کی حاکمیت جاری رکھی جائے۔ 1970 کے انتخابات کے بعد مفتی محمود صاحب صوبہ سرحد کے وزیر اعلی بنے۔ بلوچستان اور سرحد میں اردو نافذ کر دی گئی۔ ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں احمد ندیم قاسمی ،وقار عظیم اور صوفی تبسم جیسے محبان اردو شامل تھے۔ حنیف رامے وزیر اعلی بنے تو امید زیادہ بڑھ گئی۔ کافی سارا کام ہو بھی گیا۔ بھٹو صاحب کو اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ خدشات نظر آئے اور انہوں نے اردو کو سرکاری حیثیت دینے سے روک دیا۔ ان کے اس روئیے کا بھانڈ فتح محمد ملک صاحب نے پھوڑا۔ انکے الفاظ ہیں کہ بھٹو نے اس لیئے اردو کا نفاذ روک دیا کیونکہ اس سے سندھ میں اور مرکز میں وزیراعظم اور پارٹی کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ جس نے جمہور تک اپنا پیغام اردو میں پہنچایا۔ جب اقتدار میں آیا تو اپنی طبقاتی بالادستی قائم رکھنے کی خاطر اپنی محسن اردو کی گردن مارنے پر تیار ہو گیا۔ ذاتی وجوہات کی بنا پر مولوی عبدالحق اور انکی پوری ٹیم کی کاوش اور محنت پر پانی پھیر کر اردو کو پاکستان کی قومی زبان نہ بنا کر عوام کے ساتھ زیادتی، اور ریاست کیساتھ ناانصافی کی گئی۔
آئیے، سمجھتے ہیں:یہ بات سمجھنی ہو گی کہ جب اردو کاروباری، تعلیمی، سرکاری اور عوامی زبان بن جائے گی تو معاملات فہمی میں بہت سہولت رہے گی۔ اردو کا یہ حسن ہے کہ یہ دیگر لغات کے الفاظ بھی بڑی خوبصورتی سے خود میں ضم کر کے نئے الفاظ کو جنم دیتی ہے۔ اردو رائج ہونے کے تھوڑی ہی عرصے بعد ریاست کے تمام امور ہموار ہو جاتے اور یوں نئے الفاظ کی تخلیق ہوتی۔ اردو رائج ہونے کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ تمام معاملات ، دفاتر اور کاروباری سطح پر نئی اصطلاحات جنم لیتیں، تحقیق سے تخلیق ہوتی اور یوں اردو اپنی فصاحت کیساتھ رائج ہوتے ہی ریاست کی ذیلی سطح پر معاشرتی تنفر اور تعصبات کا گلہ گھونٹ کر اخوت اور یکجوئی پلے باندھ کر اپنی اہمیت کا لوہا منوا لیتی۔
حقیقت یہ ہے : قوموں کی مادری زبان ان کی ترقی کیلیئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ درحقیقت لغت سے ہی افراد اور معاشرے کی ہم آہنگی ممکن ہے۔ نفوس اور معاشرے کی یکجہتی بھی ریاست کی ترقی کیلیئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی کا نادیدہ راز انکی مادری زبان سے محبت ہے۔ وہ اپنی مادری زبان معاشرے میں رائج کرتے ہیں اور یوں انہیں تعلیمی، کاروباری اور معاشرتی امور میں مادری زبان مکمل یکجہتی مہیا کرتی ہے۔
آسان فہم:
ذرا ذیلی سطح پر بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مادری لغت سے پیار فطرتی عمل ہے. جب ریاست کا نمائیندہ اقوامِ عالم میں یا دیگر کسی ریاست میں اپنے ملک کا ترجمان ہونے کے باوجود کسی اور لغت میں بات کرتا ہے تو اسکی ریاست کے باشندوں میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے، وہ ان نمائندوں سے متنفر ہو جاتے ہیں اور ریاست کیلیئے اتنے مفید ثابت نہیں ہوتے جتنا انہیں ہونا چاہیئے تھا. چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے. اس کی یکجہتی اور باشندوں کے آپس میں پیار اور حب الوطنی کے درحقیقت محافظ انکے حاکمین ہیں جو کہیں بھی جا کر اپنی مادری لغت کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
بالکل ویسا ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونا چاہیئے. اردو کا بہرطور نفاذ ہو اور ریاستی نمائندوں کو اس پر عبور حاصل ہو اور بولنے میں فخر محسوس کریں کہ یہی حب الوطنی کا تقاضا ہے. پھر جب وہ اقوامِ عالم کے سامنے اپنی مادری زبان میں گویا ہونگے تو ریاست کے باشندوں میں خود بخود ایک فخر کی لہر دوڑ جائے گی اور حب الوطنی کا معیار بھی بلند ہوگا. باشندوں میں بڑے پیمانے پر یکجہتی دیکھنے کو ملے گی. جس روز سے پاکستان میں اردو نافذ ہو گی یہاں کے معاشرے کی بکھری موجوں کا اضطراب اپنی انتہا کو پہنچے گا اور تمام افراد ایک سلجھا کے ساتھ ملک سے محبت کرتے ہوئے اس کی ترقی میں پیش پیش ہو جائیں گے۔
تحریر: عاقب شفیق