تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
جنوبی ایشیا کے ممالک میں لگتاہے کہ جیسے اپنے قیام سے لے کر آج تک (68سالوں کے گزرنے کے باوجودبھی) صرف پاکستانی ہی ایسی قوم ہے جو اُمیدوں اور دُعاو¿ںکے سہارے زندہ ہے اور اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے باعث قومی اداروں میں اہم عہدوں پر فائزکرپٹ افسر شاہی سے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کی آس اور حسرت لئے اپنی زندگی سرکا /کھسکا رہی ہے اور اپنی زندگی کے 68سال اِسی آس وحسرت میں گزارکر بھی اب تک اپنے بنیادی حقوق کے حصول سمیت بہت سی محرومیوں کا شکارہے۔ بیشک ..!!ایسے میں یہ پاکستانی قوم کی ہی ہمت اور اِس کا حوصلہ ہے کہ کچھ ناپاکربھی یہ قوم ایسی ہے جو ابھی پُراُمیدہے کہ کبھی نہ کبھی تو اِسے صاف پینے کے پانی سمیت وہ سار ے بنیادی حقوق ضرورمیسرہوجائیںگے جس کی اِسے برسوں سے اُمیدہے کیوں کہ یہ قوم یہ بات اچھی طرح سے سمجھتی اور جانتی ہے کہ جس طرح عرب کی مشہورکہاوت ہے کہ ” جس کے پاس صحت ہے اس کی اُمیدیں بھی زندہ ہیں اور جس کے پاس اُمیدہے اِس کے پاس سب کچھ ہے“یعنی یہ کہ اگر اُمیدیں ختم ہوجائیں تو پھر موت ہے اور میری پاکستانی قوم کچھ بھی ہوجائے یہ اُمیدکا دامن کبھی بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگی
اِس لئے کے اِسے اُمیدہے کہ اگرمُلک میں نیشنل ایکشن پلان جاری رہااور جنرل راحیل شریف مُلک سے دہشت گردی ، کرپشن ، لوٹ مارکے کرتوتوں میں(خواہ سابق و موجودہ حکمران، سیاستدان، وزراء، بیورکریٹس ہی کیوں نہ ملوث ہوںایسے او راِن جیسے ) عناصرسمیت ماضی و حال کے حکمرانوں، سیاستدانوں،وزراء،اور قومی اداروں میں اہم و کلیدی عہدوں پر فائز کالے دھند سے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات حاصل کرنے والے افسرشاہی اور قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا کسی دباو¿ میں آئے بغیرکڑااحتساب کرتے رہیںگے اور کسی کی ایسی ویسی باتوں اور جملوں سے کسی پریشرکو خاطر میں نہیں لائیں گے جیسے کہ جب پچھلے دِنوں مُلک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی وزیرپٹرولیم چئیرمین سندھ ہائیرایجوکیشن کمیشن اور سندھ کابینہ کے اہم رکن ڈاکٹرعاصم حسین کو حساس ادارے کے اہلکاروں کی حراست میں لیاگیاتو اِس کے اگلے روزپی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے شریک چیئرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری کے حکمِ خاص پر ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ”مُلک میں جاری نیشنل ایکشن پلان پر پی پی پی کو وضاحتیں درکارہیں
دہشت گردوں کے خلاف قوانین کو سیاستدانوں کے خلاف کیسے استعمال کیاجارہاہے،PPPچاہتی ہے کہ پاکستان کے مفادکو کسی صورت ٹھیس نہ پہنچے،PPPکے رہنماو¿ں کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جارہے ہیں،PPPپردہشت گردوں کے لئے فنڈنگ کا الزام کیسے لگایاجاسکتاہے،ہماری قیادت کو دہشت گردوں نے شہیدکیاہے، ایسالگتاہے کہ جیسے نیب کو صرف پی پی پی ہی نظرآرہی ہے،PPPپردہشت گردی کاالزام قبول نہیں جو کوئی ادارہ لگائے یا حکومت،PPPپرجو چاہیں الزام لگائیں مگر دہشت گردی کا نہیں، اگردہشت گردی کا الزام لگایاگیاتو جنگ ہوگی،اِس موقع پر پی پی پی کے رہنماو¿ں کا کہناتھاکہ ہم پہلے اپنے مسئلے کو پارلیمنٹ میں اُٹھائیںگے پھر قانونی دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے، ہماراماضی ہماراکردار قوم کے سامنے ہے ، ہم گرفتاریوں اور جیلوں سے ڈرنے والے نہیں ہیںالبتہ اِن کا یہ کہناضرورتھاکہ پی پی پی کو مُلک میں جاری نیشنل ایکشن پلان پروضاحتیںدرکارہیں “۔
آج ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کسی جماعت ، گروہ یا فرد کے ایسے کسی احتجاج اورایسی کسی دھمکی یا دباو¿ میں نہیں آئیں گے اور مُلک کو وائٹ کالر کرپٹ عناصر سمیت دہشت گردوں اور لوٹ مار کرنے والوں سے پاک کرنے کے لئے شروع ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کو اِسی طرح جاری رکھیںگے آج جس طرح یہ اعلیٰ حکمتِ عملی سے جاری ہے تو وہ دن دورنہیں کہ جب پاکستانی قوم کو ایک صاف سُتھرااور نیاپاکستان ملے گا اور عنقریب ایک ایسی قیادت ملے گی جو بے داغ اور ہر قسم کی ظاہری و باطنی برائیوں سے پاک ہوگی یوں جب ایساہوگاتو پھرپاکستانی قوم کو بھی صاف پانی سمیت اِس کے وہ سارے بنیادی حقوق بھی خودبخودضرورمیسر ہوجائیں گے جو 68سالوں سے مُلک پر حکمرانی کی شکل میں قابض مخصوص سیاسی ٹولے نے ضبط کررکھے تھے اورہمیشہ قوم کو اِس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر اپنے مفادات کا سوچااور اپنے ذاتی و سیاسی مقاصدکے حصول کے لئے ملکی سا لمیت اور استحکام کو داو¿ پر لگایااور قوم کو پینے کے صاف پانی سے بھی محروم رکھا اور ہمیشہ اِس پر سیاست کی اور اقتدار حاصل کیا اور قوم کے حصے میں ہر بار وہی گندااور جراثیم والاپانی آیا۔
آج کے جدیدسائنسی دور میں روزانہ پانی خریدکر پینااصل میں زندگی خریدنے کے مترادف ہے،موجودہ مشینی دورمیں اِنسان نے جہاں ترقی کی ہے تو وہیں اِس نے اپنے لئے کچھ ایسی خطرناک بیماریاں بھی پیداکرلی ہیں کہ آج کے اس جدیدسائنسی دور میں بھی اِنسان کا اِن بیماریوں سے نبردآزماہونامشکل ہوگیاہے یہاں میں اِس بحث میں جاناتونہیں چاہتامگر اتناعرض کرناضروریسمجھتاہوں کہ آج کا اِنسان چاہے جتنی بھی ترقی کرلے مگر یہ بیچارہ بعض بیماریوں کے ہاتھوں بے بس ہے اور ہمیشہ بے بس ہی رہے گا،اِنسان کو اِس لئے ا پنی کسی ایسی ایجاد یا ایجادات پر اِترانانہیں چاہئے جو جہاں اِس کے لئے آسانیاں اور آسائشیں تو مہیاکریں مگر وہیں یہ اِس کی موت کا سامان بھی لیئے ہوئے ہوں۔
بہرحال…!!نصب صدی قبل جنوبی ایشیاکے ممالک میں بسنے والوں میں سے کسی نے یہ سوچابھی نہیں ہوگاکہ آنے والے وقتوں میں پانی محض اِس لئے خریدناپڑے گاکہ یہ اِس طرح اپنی زندگی بچاپائے گااور آج کے اِس جدیدسائنسی دورمیں یہ ممکن ہوگیاہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیاکے ممالک میں بسنے والاوہی شخص زندہ رہے گاجو صاف وشفاف(بوتلوں میں فروخت ہونے والا)پانی خریدکر پیئے گا،کیوں کہ بالخصوص پاکستان سمیت جنوبی ایشیاکے ممالک میں بسنے والوں کو مہیاہونے والا پانی اُس طرح صاف و شفاف پانی نہیں ہے آج جس طرح بوتلوںمیں پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنے صارفین کو دعوو¿ں کے ساتھ صاف وشفاف پانی فروخت کررہی ہیں۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیاکے دیگر ممالک کے شہر یوں نے پانی خرید کر پینا خود پر لازمی کرلیا ہے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِن کے ممالک میں اِن کی حکومتیں عوامی سہولیات باہم پہنچانے کے خاطر نلکوں سےجو پانی مہیاکرتی یا کراتی ہیں وہ مضرِ صحت ہے اوراَب یہ جو پانی خرید کر پی رہے ہیں اصل میں یہ روز اپنی نئی زندگی خرید رہے ہیں اور ہر بوتل میں موجود پانی کے ایک ایک قطرے کے عوض یہ اپنی زندگی محفوظ کررہے ہیںآج اگر یہ ایسانہیں کریں گے تو یہ نلکوں کا پانی پی کر یا استعمال کرکے پانی سے پیداہونے والی مختلف خطرناک بیماریوں میں مبتلاہوکر اپنی زندگی خوداپنے ہی ہاتھوں گنوادیں گے سو آج پاکستان سمیت جنوبی ایشیاکے بہت سے ممالک کے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی کوناقص اور مُضرِ صحت پانی کے استعمال سے پیداہونے والی بیماریوں سے بچانے کے لئے مختلف برانڈ کی کمپنیوں کے پانی خریدکرپینااور پانی کی بوتل اپنے ہاتھ میں رکھنا جہاں ایک فیشن بنالیاہے
تو وہیں اَب یہ لوگ پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑنااپنی تہذیب وتمدن سے بھی تعبیرکرنے لگے ہیں۔اَب اِس منظراور پس منظر میں یہ بات واضح ہے کہ آج اگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیاکے دیگرممالک کے حکمران ، سیاستدان اورقومی اداروں کی انتظامیہ عوام کو پینے کے لئے صاف وشفاف پانی جیسی قدرتی اشیا سمیت دیگر بنیادی حقوق مہیاکرنے میں مخلص ہوتے تو یقینااِن ممالک کے لوگ کچھ نہیں تو پانی جیسی قدرتی اشیاکو تو خرید کر پینے پر مجبورنہ ہوتے اور یہ تو نہ سمجھتے کہ کیا پانی خریدکرپینااصل میں زندگی خریدنے کے مترادف ہے …؟؟
بہرکیف..!موجودہ کرپٹ حکمرانوں ، سیاستدانوں ، کرپٹ وزراءاورقومی اداروں میںکرپٹ افسرشاہی کی موجودگی میں یہ سب کے لئے سوالیہ نشان ہے ..؟؟کہ اَب 68سال گزرجانے کے بعد بھی پاکستانی قوم کواِس کے بنیادی حقوق میں پینے کے لئے صاف وشفاف اور صحت مندپانی سمیت کب دیگر خالص و جدید بنیادی سہولیات زندگی میسر ہوگی۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com